عائشہ خان: اردو ڈرامہ انڈسٹری کی سنہری یادوں کی امین
ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی
پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری کی قد آور شخصیت، عائشہ خان، 3 جنوری 1941ء کو کراچی میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد ریاست اللہ خان 1960ء کی دہائی میں کراچی پولیس کے سپرنٹنڈنٹ تھے، جبکہ ان کی ہمشیرہ خالدہ ریاست بھی ٹی وی اور تھیٹر کی معروف اداکارہ رہیں۔ عائشہ خان نے جامعہ کراچی سے تعلیم حاصل کی اور بچپن ہی میں ریڈیو پاکستان سے فنی سفر کا آغاز کیا۔ محض نو برس کی عمر میں ان کی پہلی ریڈیو پیشی ہوئی، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کا فطری رجحان اداکاری کی طرف تھا۔
عائشہ خان نے 1964ء میں پاکستان ٹیلی وژن (پی ٹی وی) کے ابتدائی دور میں ڈرامہ سیریلز میں کام شروع کیا۔ ان کے کردار نہ صرف سنجیدہ اور جذباتی ہوتے تھے بلکہ طنزیہ و مزاحیہ انداز میں بھی وہ اپنی مثال آپ تھیں۔ وہ قاضی واجد کے ساتھ جوڑی کے طور پر خاصی مقبول رہیں، جبکہ طلعت حسین اور منصور قریشی جیسے جید اداکاروں کے ساتھ بھی ان کی کیمسٹری ڈرامائی حسن کو دوچند کر دیتی تھی۔
"افشاں” (1981) میں ان کا کردار "حسنا” ہو یا "عروسہ” (1994) میں "شیریں” کا روپ، ہر کردار میں ان کی فنی مہارت نظر آتی ہے۔ "فیملی 93” اور "مہندی” جیسے ڈرامے ان کے فنی سفر کے اہم سنگ میل ہیں۔ بعد ازاں، "نقاب زن”, "بصاتِ دل” اور "بھروسہ پیار تیرا” جیسے ڈراموں میں ان کی موجودگی نے نئے ناظرین کو بھی متاثر کیا۔
عائشہ خان کا سب سے بڑا فنی وصف ان کی اداکاری میں جذبات کی تہہ داری تھی۔ وہ ماں، دادی، خالہ یا ساس جیسے روایتی کرداروں کو غیر روایتی انداز میں پیش کرتیں۔ ان کا چہرہ، آنکھیں اور مکالمے اداکاری کی وہ جامع شکل پیش کرتے تھے جس میں نہ صرف اسکرپٹ بلکہ ثقافتی و نسوانی تجربات بھی سموئے ہوتے۔
ان کی ادائیگی میں نہ جذباتی شور تھا نہ سطحی تاثرات ، بلکہ ایک سنجیدہ، ٹھہرا ہوا اور معنویت سے بھرپور لب و لہجہ تھا جو انہیں ہم عصر اداکاراؤں سے ممتاز کرتا ہے۔
عائشہ خان کی ازدواجی زندگی کامیاب نہ رہی، وہ طلاق یافتہ تھیں اور تین بچوں کی ماں تھیں۔ ان کی بیٹی عالیہ بی بی 1990ء کی دہائی کی معروف ماڈل رہیں۔ زندگی کے آخری برسوں میں وہ تنہا رہتی تھیں اور 19 جون 2025ء کو گلشنِ اقبال کراچی کے ایک فلیٹ سے ان کی لاش ملی۔ ان کی آخری آرام گاہ سخی حسن قبرستان بنی، جہاں وہ ایک طویل فنی سفر کے بعد خاموشی سے دفن ہوئیں۔
عائشہ خان کا فنی سفر نہ صرف ایک اداکارہ کا سفر تھا بلکہ ایک ثقافتی، نسائی اور تہذیبی بیانیے کی تشکیل بھی تھا۔ وہ اس نسل کی نمائندہ تھیں جس نے ریڈیو سے ٹی وی، ٹی وی سے تھیٹر، اور پھر فلم تک کا سفر طے کیا۔ ان کی اداکاری میں نسوانیت، ماں کی ممتا، معاشرتی دباؤ، اور اندرونی کرب کا حسین امتزاج ہوتا تھا۔
ان کا فن محض ناظرین کو محظوظ کرنے کا ذریعہ نہ تھا بلکہ ایک احساساتی و جمالیاتی تجربہ تھا جو ہمیں ہماری اجتماعی شناخت کی یاد دلاتا ہے۔ وہ ان کرداروں کی مجسم صورت بن گئیں جو معاشرتی سانچوں کو بیان کرتے ہیں۔
عائشہ خان کی زندگی اور فنی سفر اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ اداکاری محض فن نہیں بلکہ ایک معاشرتی خدمت ہے۔ وہ اپنی سادگی، سنجیدگی، اور فن کے ساتھ خلوص کی وجہ سے اردو ڈرامہ تاریخ میں ایک ممتاز مقام رکھتی ہیں۔ ان کی موت ایک عہد کا خاتمہ ضرور ہے، لیکن ان کا فنی و فکری ورثہ آنے والی نسلوں کے لیے تحریک اور سبق کی حیثیت رکھتا ہے۔
ان کا ایک مکالمہ یا کردار دہرانے سے ناظرین ماضی میں چلے جاتے ہیں ، ایک ایسے سونے کے دور کی جھلک جہاں فن، تہذیب، اور اقدار کا حسین امتزاج موجود تھا۔
عائشہ خان، وہ چہرہ جس نے کئی کرداروں کو زندگی دی اور خود ایک تاریخ بن گئیں۔
رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق چترال خیبرپختونخوا سے ہے، اردو، کھوار اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ آپ کا اردو ناول ”کافرستان”، اردو سفرنامہ ”ہندوکش سے ہمالیہ تک”، افسانہ ”تلاش” خودنوشت سوانح عمری ”چترال کہانی”، پھوپھوکان اقبال (بچوں کا اقبال) اور فکر اقبال (کھوار) شمالی پاکستان کے اردو منظر نامے میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں، کھوار ویکیپیڈیا کے بانی اور منتظم ہیں، آپ پاکستانی اخبارارت، رسائل و جرائد میں حالات حاضرہ، ادب، ثقافت، اقبالیات، قانون، جرائم، انسانی حقوق، نقد و تبصرہ اور بچوں کے ادب پر پر تواتر سے لکھ رہے ہیں، آپ کی شاندار خدمات کے اعتراف میں آپ کو بے شمار ملکی و بین الاقوامی اعزازات، طلائی تمغوں اور اسناد سے نوازا جا چکا ہے۔کھوار زبان سمیت پاکستان کی چالیس سے زائد زبانوں کے لیے ہفت پلیٹ فارمی کلیدی تختیوں کا کیبورڈ سافٹویئر بنا کر عالمی ریکارڈ قائم کرکے پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں۔ آپ کی کھوار زبان میں شاعری کا اردو، انگریزی اور گوجری زبان میں تراجم کیے گئے ہیں ۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |