بلوغت اور ذہنی پختگی
اپنی روحانی اور شخصی کمزوریوں پر قابو پانے کے بعد ہی انسان کی روح میں ارتقاء پیدا ہونے کا آغاز ہوتا ہے جس کی اگلی منازل اس کا نافع علم طے کرواتا ہے۔
نافع علم بتدریج وہ آگہی ہے جس کے زریعے انسان اپنے اور دوسروں کے لیئے منافع بخش ثابت ہوتا ہے اور زندگی میں آسانیاں پیدا کرنے کے کام آتا ہے۔ چونکہ انسان کی روح خالق کائنات کا پرتو ہے اور کائنات کی ایک ہی وحدت کا جزو ہے، اس لیئے خود انسان کی روح بھی اسی صورت میں ترقی کرے گی اور اس میں ارتقاء پیدا ہو گا جب انسان کائنات اور انسانیت کی تعمیر میں حصہ لے گا ورنہ وہ فساد کا باعث بنے گا اور اس کی روح بھی ترقی کرنے کی بجائے تنزلی کا شکار ہو جائے گی۔
بنیادی طور پر بنی نوع انسان دیگر انواع کے مقابلے میں اپنی جسمانی ساخت، زبان اور عقل کے باعث "احسن تقویم” اور "اشرف المخلوقات” کا درجہ رکھتا ہے کہ جب تک وہ اپنی تخلیق کی ان اضافی عطاعتوں اور خوبیوں کے باعث اپنے مقام اور مرتبہ کا لحاظ رکھتا ہے، تزکیہ نفس برقرار و قائم رکھتا ہے اور اپنے قول و عمل سے خود کو اپنے اور معاشرے کے لیئے بہتر انسان کے طور پر پیش کرتا ہے تو خدا کی نظر میں وہ افضل اور پسندیدہ مخلوق ٹھہرتا ہے، بصورت دیگر قرآن پاک ہی کی زبان میں وہ "اَسْفَلَ سٰفِلِیْنَ” کی مذلت میں گر جاتا ہے اور کائنات کی بدترین مخلوق ثابت ہونے لگتا ہے۔
دراصل انسان کی روح اس کا وہ مرکزہ ہے جس سے اس کے مادی جسم اور شخصیت کے خدوخال ابھرتے ہیں۔ اپنی ذات سے آگاہی باقاعدہ علم ہے جس کے بارے علامہ اقبال نے خودی کا تصور پیش کرتے ہوئے فرمایا تھا، "خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے، خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے۔” اپنی خودی سے آگاہ ایک عظیم المرتبت انسان کی مثال ایسے ہی ہے کہ جیسے کسی پھلدار درخت کا بیج ہو کہ جس کو زمین میں بونے سے وہی درخت پیدا ہو جس کا وہ بیج ہو، جو سایہ بھی دیتا ہو اور پھل بھی دیتا ہو۔ یہ احسن تقویم انسان کی مختصر تفہیم ہے جو دوسرے انسانوں اور چیزوں کو فائدہ پہنچانے والے علم سے پختہ ہوتی ہے اور آگے سے آگے کی منازل طے کرواتی ہے مگر چونکہ روح جسم میں قید ہوتی ہے تو کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان کی روح دائرہ جسم سے باہر نہ نکل سکے تو وہ جسمانی ضروریات ہی کی غلام ہو کر رہ جاتیہے اور پھر اس حد تک بھی گر جاتی ہے کہ انسان میں منفی عادات پیدا ہو جاتی ہیں جس کا شکار ہو کر انسان اَسْفَلَ سٰفِلِیْنَ کا نمونہ پیش کرنے لگتا ہے۔
انسان اپنی ہوش سنبھالنے کے بعد شعوری طور پر اس وقت بلوغت میں قدم رکھتا ہے جب وہ خود کو اپنے اعمال کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔ ذہنی بلوغت اسی کا نام ہے کہ آپ کو معلوم ہونا شروع ہو جائے کہ آپ کے لیئے دنیا اور آخرت کے حوالے سے کونسے اعمال فائدہ مند ہیں اور کون سے نقصان دہ ہیں۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب آپ اپنی سوچ و خیالات اور اعمال پر نظر رکھتے ہیں۔ یعنی بلوغت صرف عمر اور جسمانی اعضاء کی بڑھوتری کا نام نہیں ہے بلکہ اصل بلوغت ایسی ذہنی پختگی کا عمل ہے جب آپ منفی یا غیر تعمیری خیالات اور کیفیات کے ہاتھوں استعمال نہ ہونے کا فن سیکھ جاتے ہیں۔
آپ نے یہ محاورہ اکثر سنا ہو گا کہ انسان بوڑھا ہو کر دوبارہ بچہ بن جاتا ہے یا فلاں آدمی تو پڑھا لکھا بے وقوف ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ان دونوں صورتوں میں انسان کی خود آگہی کی طاقت کم ہو جاتی ہے یعنی وہ یہ جاننے سے محروم ہو جاتا ہے کہ وہ کیا سوچ رہا ہے یا کیا اعمال انجام دے رہا ہے۔ ایسی صورت میں ایک بوڑھے آدمی کی یادداشت کم ہو جاتی ہے اور پڑھے لکھے کی کامن سینس گھٹ جاتی ہے۔

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |