بھارتی جنگی جنون اور امریکہ سے دفاعی معاہدہ
ڈونلڈ ٹرمپ امریکی تاریخ کے شاطر اور ذہین ترین صدور میں سے ایک ہیں۔ آخری اظہاریہ میں لکھا تھا کہ امریکی صدر وکٹ کے دونوں جانب کھیل رہیں ہیں۔ ایک طرف وہ پاکستان اور چیف مارشل کی تعریف کرتے تھک نہیں رہے تھے تو دوسری طرف وہ بھارت اور مودی کو جہازوں کے مار گرائے جانے کا بار بار طعنہ دے کر "کچھ خاص” یاد کرا رہے تھے۔ امریکہ دنیا کی واحد "سپر پاور” ہے۔ ظاہر ہے کہ امریکی صدر امریکی اسٹیبلشمنٹ اور سی آئی اے کی تائید کے بغیر کوئی غیرسنجیدہ بات کہنے کے مجاز نہیں ہیں۔ امریکہ اور بھارت کے درمیان 10 سالہ دفاعی معاہدہ ہو گیا ہے۔ اب جبکہ کہ بلی تھیلے سے باہر آ گئی ہے تو ظاہر ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان مزید خطرناک روایتی اور ایٹمی ہتھیاروں کو جمع کرنے کی ایک اور خطرناک دوڑ شروع ہو گئی ہے۔
امریکہ اس معاہدے کے تحت اگلے 24 گھنٹوں میں دیگر آتشیں اسلحہ کی فراہمی کے علاوہ دنیا کے سب سے خطرناک اپاچی ہیلی کاپٹر 3اےایچ-64ای کی ایک بڑی کھیپ انڈیا کو فراہم کرنے جا رہا ہے۔ ایک طرف امریکی صدر زبانی جمع خرچ سے پاکستان کی تعریفوں کے پل باندھ رہے تھے اور دوسری طرف انہوں نے انڈیا کے ساتھ معاہدہ کر کے اسے عملی دفاعی مدد کرنے کا آغاز کر دیا ہے۔ امریکہ نے بھارت سے یہ دس سالہ دفاعی معاہدہ کر کے جہاں پاکستان اور سعودی عرب کے دفاعی معاہدے کا توڑ کیا ہے وہاں اس نے روس اور چین کو بھی "اسلحہ فروشی” میں مات دی ہے اور انہیں بتایا ہے کہ امریکہ اپنی دفاعی اور سیاسی طاقت ہی میں پہلے نمبر پر نہیں ہے بلکہ وہ عالمی سفارت کاری میں بھی دنیا بھر میں "نمبر ون” ہے۔
اس معاہدے کے بارے میں امریکی وزیرِ جنگ پیٹ ہیک سیتھ نے سماجی رابطے کی ایک سائٹ "ایکس” پر اپنے ایک پیغام میں کہا کہ امریکہ اور بھارت کے درمیان 10 سالہ دفاعی تعاون کے ایک معاہدے پر دستخط کر دیئے گئے ہیں۔ موصوف امریکی وزیر کا یہ اعلان دو روز قبل کوالالمپور میں بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کے ساتھ ملاقات کے بعد سامنے آیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ معاہدہ بھارت اور امریکہ کے درمیان دفاعی شراکت میں ایک اہم پیش رفت ہے جو علاقائی سلامتی کا سنگِ میل ثابت ہو گا۔ "امریکی وزیر برائے جنگ و جدل” کا یہ بیان محلے کی اس ماسی جیسا ہے کہ جو محلے بھر کے لوگوں کو لڑنے کے لیئے ڈانگ سوٹے پکڑا کر کہتی ہے کہ، "میں تو چاہتی ہوں کہ ہم سب مل جل کر امن کے ساتھ رہیں۔” ان کے مطابق دونوں ممالک دفاعی تعاون، معلومات کی شیئرنگ اور ٹیکنالوجی میں شراکت کو بڑھائیں گے۔ ان کے بقول امریکہ اور بھارت کے دفاعی تعلقات کبھی اس سے زیادہ مضبوط نہیں رہے جو اس وقت ہیں۔ اس معاہدے کی پیش گوئی چند روز پہلے ایک برطانوی خبر رساں ادارے نے بھی کی تھی کہ جس کے مطابق بھارت امریکہ سے فوجی ساز و سامان خریدنے جا رہا تھا۔
امریکہ نے بھارت سے لمبی مدت کا یہ دفاعی معاہدہ کر کے پاکستان کو براہ راست بتایا ہے کہ وہ امریکی مفادات کے سوا کسی کا نہیں ہے۔ امریکہ نے بالواسطہ طور پر چین کو بھی آگاہ کیا ہے کہ وہ اپنے مفادات کا سختی سے دفاع کرے گا اور وہ بحر ہند اور بحرالکاہل میں طاقت کا توازن برقرار رکھے گا۔ امریکی وزیر کے بقول امریکہ بھارت دفاعی معاہدہ خطے میں استحکام اور دفاعی توازن کے لیئے ایک بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ یہاں اس بھونڈے دفاعی قول کو بھی سچ ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی گئی ہے کہ، "امن قائم کرنے کے لیئے جنگ کے لیئے ہر وقت تیار رہنا چایئے۔” ان کے بقول دونوں ممالک کی افواج کے درمیان تعاون کو مزید مضبوط بنانے کی سمت یہ ایک اہم قدم ہے جو مستقبل میں زیادہ گہرے اور موثر دفاعی تعلقات کی راہ ہموار کرے گا۔
اس امریکہ بھارت دفاعی تعاون کے معاہدے پر پاکستان نے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اس معاہدے کو نظر انداز نہیں کرے گا۔ پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان نے اپنے بیان میں باور کرایا کہ پاکستان بھارت کی فوجی مشقوں اور نقل و حرکت پر مسلسل نظر رکھے ہوئے ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی مسلح افواج کسی بھی جارحیت کا بھرپور جواب دے سکتی ہیں۔ پاک فوج ہر وقت چوکس ہے اور بھارتی حرکات پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ پاکستان کسی بھی مہم جوئی کا فوری اور بھرپور جواب دینے کے لیئے ہمہ وقت تیار ہے۔
پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان امریکہ اور بھارت کے درمیان ہونے والے معاہدے کے اثرات کو اچھی طرح جانتا ہے۔ پاکستان کو بھارت یا امریکہ کے ناراض ہونے کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ پاکستان اپنی بقا اور سلامتی کے لیئے بڑی سے بڑی قربانی دینے سے کبھی گریز نہیں کرے گا۔
قیام پاکستان کے فورا بعد ہی یہ حقیقت واضح ہو گئی تھی کہ بھارت نے پاکستان کی آزادی کو دل سے قبول نہیں کیا تھا جب اس نے سری نگر پر اپنی افواج اتار کر کشمیر کے مقبوضہ حصوں کو بھارت کا "اٹوٹ انگ” قرار دیا تھا۔ بھارتی حکومتوں کی انڈیا کو "اکھنڈ بھارت” بنانے کی ہمیشہ خواہش رہی ہے۔ اس منصوبے کو پورا کرنے میں پاک فوج بنیادی رکاوٹ ہے۔ اسی وجہ سے بھارت کی آنے والی ہر حکومت نے پاکستان کی دشمنی کو اپنی خارجہ پالیسی کا بنیادی حصہ بنا رکھا ہے۔ بھارت چونکہ پاکستان دشمنی کے ایجنڈے پر کاربند ہے یہی وجہ ہے وہ اپنے ان دزدیدہ مقاصد کی تکمیل کے لیئے ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری سمیت ہر نوعیت کے جدید ہتھیار اور جنگی ساز و سامان خود بھی تیار کرتا ہے اور روس کے علاوہ امریکہ، فرانس، جرمنی اور برطانیہ وغیرہ سے بھی خریدتا ہے۔ اس جنگی جنون کی بناء پر بھارت کا دفاعی بجٹ پاکستان کے پورے بجٹ کے حجم سے بھی زیادہ ہے جو وہ اپنی جنگی دفاعی استعداد اور صلاحیت بڑھانے کے لیئے ہر سال بروئے کار لاتا ہے
اس پس منظر میں پاکستان کو بھی اپنی سرزمین کے تحفظ اور دفاع کے لیئے ایٹمی ٹیکنالوجی سمیت عصر جدید کے تمام دفاعی تقاضے پورے کرنا پڑتے ہیں۔ بھارتی جنگی اور توسیع پسندانہ عزائم پاکستان اور علاقائی و عالمی امن و سلامتی کے لیئے مستقل خطرہ بن چکے ہیں۔ اس تناظر میں بھارت اپنی جنگی استعداد بڑھانے کے جو بھی اقدامات اٹھاتا ہے اس پر پاکستان کا ردعمل ظاہر کرنا ایک مجبوری ہے۔ حالانکہ پاکستان پرامن ملک ہے اور اپنے ہمسایہ ممالک سے دوستانہ تعلقات چاہتا ہے۔
Title Image background by Marisa Marini from Pixabay

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |