پاکستان بزنس کونسل تیرا شکریہ!
اس دفعہ یوم آزادی 14اگست 2025ء کے موقع پر میں بھی بلاول بھٹو کے ساتھ ایوارڈ وصول کرنے والوں میں شامل ہو گیا ہوں۔ خیر بلاول بھٹو اور میرا کیا موازنہ ہے۔ "کہاں راجہ بھوج اور کہاں گنگا تیلی۔” بلاول بھٹو زرداری صاحب مملکت پاکستان کے صدر آصف علی زرداری صاحب کے صاحبزادے ہیں اور میں ٹھہرا ایک گمنام کسان کا بیٹا، پھر بلاول بھٹو زرداری کو تو حکومت پاکستان نے قومی ایوراڈ دیا ہے جو جس کو چاہے، بے شک وہ کوئی کام بھی نہ کرے، تو اسے کسی بھی بڑے اعزاز سے نواز سکتی ہے، جبکہ مجھے محض متحدہ عرب امارات کی "پاکستان بزنس کونسل” نے اس ایوارڈ کے لیئے منتخب کیا، جو ایک انتہائی حیرت کی بات ہے کہ میں نے بلاول بھٹو زرداری جتنا بڑا ایک بھی کام انجام نہیں دیا ہے۔
تکلف برطرف، بلاول بھٹو زرداری صاحب تو پھر پاکستان کے وزیر خارجہ رہے ہیں مگر بزنس کونسل نے مجھ میں ایسا کیا دیکھا کہ ان کی نظر کرم مجھ پر پڑی؟ میرے لیئے یہ اعزاز کسی واقعہ سے کم نہیں ہے کہ کسی بڑے حکومتی عہدیدار کا بیٹا نہ ہونے کے باوجود پاکستان بزنس کونسل (پی بی سی) نے مجھے "نوازنے” کی غلطی کر دی جس پر راقم الحروف کو منیر نیازی صاحب کا ایک واقعہ یاد آیا ہے جنہیں ایک نوجوان نے اپنی غزل سُنائی تو اُنہوں نے حوصلہ افزائی فرماتے ہوئے اُس غزل کو اُردو شاعری میں ایک بہترین اضافہ قرار دیا تھا۔ اس لڑکے کی شامتِ اعمال کہ اگلے روز اُس لڑکے نے وہی غزل حلقۂ اربابِ ذوق کے تنقیدی اجلاس میں پیش کر دی۔ اجلاس کے شرکاء نے اُس غزل کی دھجیاں ہی نہیں بکھیری بلکہ "ایسی کی تیسی” کر کے رکھ دی اور اُسے شاعری کا ایک "بدنما داغ” قرار دیا۔ وہ لڑکا منہ بسورے ہوئے منیر نیازی صاحب کے پاس آیا اور بولا: "سر آپ نے تو کہا تھا کہ یہ بہت اچھی غزل ہے مگر حلقہ ارباب ذوق کے اجلاس میں تو اسے شاعری کا ایک بدنما داغ قرار دیا گیا ہے۔”
منیر نیازی صاحب مسکرا کے بولے:” پُتر، جے ماں کدی پیار نال چن کہہ دیوے تے مقابلہ حُسن وچ حصہ لین نئیں ٹُر جائی دا۔”
اس سے مجھے ایک شعر بھی یاد آیا ہے کہ، "اس کی بینائی میں نقص ہو گا مجھے بد صورت کہا، ماں تو چاند کہتی تھی اور چاند بھی چودھویں کا۔” بلاول بھٹو زرداری صاحب صدر مملکت خدا داد پاکستان کے صدر آصف علی زرداری صاحب کے بیٹے ہیں، اور ان کی والدہ محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ اب اس دنیا میں نہیں ہیں، تو زرداری صاحب نے بلاول بھٹو زرداری کو ایوارڈ دے کر نہ صرف باپ بلکہ ماں کا پیار بھی دیا ہے۔
پاکستان بزنس کونسل کا پورا نام پاکستان بزنس پروفیشنل کونسل (پی بی پی سی) ہے۔ اس کا قیام 14 بانی ممبران کی کوششوں سے 2005ء کو عمل میں آیا جس کے روح رواں کونسل کے وائس چیئرمین جناب ڈاکٹر قیصر انیس صاحب ہیں۔ اس وقت کونسل کے ممبران کی تعداد 68 ہے اور اس آرگنائزیشن کے چیف ایگزیکٹو آفیسر احسان ملک اور سیکرٹری مصطفی کمال زبیری صاحب ہیں۔ یہ ایک غیرمنافع بخش آرگنائزیشن ہے جس کے دفاتر پاکستان کے بڑے شہروں سمیت ابوظہبی، دبئی اور شارجہ میں واقع ہیں۔ اس تنظیم کے بنیادی مقاصد میں پاکستانی کمیونٹی کے لیئے کاروبار کو منظم کرنا، بزنس آئیڈیاز پر تحقیق کروانا، سیمنارز اور ورکشاپس ترتیب دینا، بزنس مینوں کے مسائل حل کرنا، کاروبار میں حکومت پاکستان کی رہنمائی کرنا، انوسٹمنٹ کے مواقع ڈھونڈنا اور پاکستان اور متحدہ عرب امارات کے درمیان تجارتی تعلقات وغیرہ کو فروغ دینا شامل ہیں۔
بلاول زرداری بھٹو صاحب کو صدر آصف علی زرداری صاحب نے ایوارڈ دے کر باپ اور ماں دونوں کا پیار دیا ہے تو ممکن ہے اب بلاول صاحب اپنی والدہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے وزیراعظم بننے کا خواب دیکھ رہے ہوں گے۔ لیکن مجھے جب سے بزنس کونسل نے ایوراڈ دیا ہے میں فقط اس کا ممبر بننے کا سوچ رہا ہوں۔ پاکستان کا وزیراعظم بننے کی لیئے عوام کے ووٹوں کی بھی ضرورت ہوتی ہے مگر تمغہ امتیاز لینے کے لیئے کسی بڑے حکومتی عہدیدار کا "بیٹا” ہونا ہی کافی ہے کہ یہ حکومت کی مرضی ہوتی ہے کہ وہ جس پر مہربان ہو جائے۔
کچھ لوگ سوچ رہے ہیں اور پوچھ رہے ہیں کہ وفاقی وزراء کے ساتھ ساتھ بلاول بھٹو زرداری کو ایوارڈز کیوں دیا گیا ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ مجھ جیسے عام لکھاری کو ایوارڈ مل سکتا ہے تو سابق وزیراعظم اور موجودہ صدر کے بیٹے کو کیوں نہیں مل سکتا ہے جبکہ خود بلاول بھٹو صاحب وزیر خارجہ رہنے کے علاوہ کئی مواقع پر پاکستان کا کیس بھی خارجہ ممالک میں بڑی کامیابی سے لڑ چکے ہیں۔ اگر مجھے ایوارڈ ملا ہے تو کم از کم میں اس کے حق میں نہیں ہوں کہ بلاول صاحب کو نہ ملتا۔ خاص طور پر صحافیوں اور کالم نگاروں کو جب حکومت کی طرف سے ایوارڈز ملتے ہیں تو یہ "سیاسی رشوت” کے زمرے میں آتے ہیں۔میں اس مد میں کسی قسم کے مکافات عمل سے بری الذمہ ہوں۔ عمران خان حکومت نے بھی اپنے پسندیدہ صحافیوں کو ایوارڈز سے نوازا تھا۔ سیاسی حکومتوں کی جانب سے صحافیوں اور کالم نگاروں کو ایوارڈز دیئے جانے پر بہت سے صحافی اور کالم نگار اپنے آپ کو سیاسی حکومتوں کے ترجمان بنا لیتے ہیں جس کے نتیجے میں وہ صحافت سے انصاف نہیں کر پاتے ہیں۔ حالیہ یوم آزادی پر بھی منیب فاروق، جاوید چودھری، سلیم صافی، مجیب الرحمن شامی، عامر الیاس رانا اور انیقہ نثار کو ایوارڈز سے نوازا گیا ہے۔ بقول شخصے اگر میں پاکستان میں ہوتا تو میرا بھی قرعہ نکل سکتا تھا۔ ایک پنجابی محاورہ ہے کہ، "انا ونڈے ریوڑیاں مڑ مڑ گھر دیاں نوں۔” یہ نہ پوچھیں کہ وفاقی وزراء اور بلاول بھٹو زرداری کو ایوارڈز کیوں دیئے گئے ہیں؟ سفارتی سطح پر پاکستان کامقدمہ بھرپور انداز میں لڑنے پر اسحٰق ڈار کو اعزاز سے نوازا گیا، جبکہ سندھ طاس معاہدے پر بھرپور مؤقف اپنانے پر اعظم نذیر تارڑ کو ایوارڈ دیا گیا، بھارت کی بلا اشتعال جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے پر وزیر دفاع خواجہ آصف کو نشان امتیاز سے نوازا گیا۔
معرکہ حق میں اطلاعات کی بہترین ترسیل پر عطا اللہ تارڑ کو نشان امتیاز سے نوازا گیا، داخلی محاذ پر بہترین یکجہتی اور امن وامان قائم رکھنے پر محسن نقوی کو نشان امتیاز سے دیا گیا۔ خیر محسن نقوی صاحب تو ویسے بھی "اپنے بندے” ہیں۔تذویراتی سطح پر بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے پر احسن اقبال کو نشان امتیاز سے نوازا گیا۔ قومی اتفاق رائے اور ہم آہنگی قائم کرنے میں اہم کردار ادا کرنے پر اپنے رانا ثنااللہ صاحب کو بھی "نشان امتیاز” دیا گیا جبکہ پاکستان کا مؤقف عالمی سطح پر اجاگر کرنے پر بلاول بھٹو زرداری کو نشان امتیاز سے نوازا گیا ہے، تو اس میں ہرج ہی کیا ہے۔
ڈاکٹر اکرم چوہدری صاحب نے کل اپنے ایک کالم میں ستاروں والے تمغے دینے کا گلہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان میں کوئی سمندر پار پاکستانی شامل نہیں تھا۔ پاکستان بزنس پروفیشنل کونسل نے مجھے "تمغہ” دے کر یہ کمی پوری کر دی ہے۔ میرے اور بلاول زرداری بھٹو کے تمغے میں صرف یہ فرق ہے کہ بلاول کو سرکاری اور مجھے غیر سرکاری تمغہ ملا ہے۔ پاکستان بزنس کونسل تیرا شکریہ کہ، "ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود ایاز، نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز۔”

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |