آپی عائشہ خان کا اخلاقی قتل
یہ خبر پڑھ کر پاکستان کے قابل فخر خاندانی نظام سے دل اچاٹ ہو گیا۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہمیں اپنی جائیداد زندگی ہی میں بچوں کے نام منتقل کر دینی چایئے، انہیں انتظار کروانا چایئے یا وصیت لکھنی چایئے کہ اس کے مطابق وہ خود ہی پراپرٹی اور نقدی وغیرہ کا بٹوارا کر لیں؟ اس سوال سے قطع نظر جس بے بسی اور قید تنہائی میں کراچی کے ایک فلیٹ میں ماضی کی مشہور سینیئر اداکارہ عائشہ خان کی موت واقع ہوئی، وہ ہماری مشرقی اخلاقی اقدار کی موت ہے۔ ہم اپنے خاندانی نظام پر بڑا فخر کرتے ہیں۔ اسلام کے مطابق والدین کا بہت بلند مقام و مرتبہ ہے۔ خاص طور پر ماں کے بارے میں تو پاکستان کے ہر گھر میں بچوں کو سکھایا جاتا ہے کہ، "ماں کے قدموں تلے جنت ہے۔” لیکن جب عائشہ خان کی وفات ہوئی تو اس وقت گھر میں وہ اکیلی تھی، بلکہ اس کی موت کے 7 روز تک اس کے بیٹوں یا رشتوں داروں میں سے کسی فرد کو اس کے انتقال کی خبر نہیں تھی، تاآنکہ ہمسایوں کو اس گھر سے بدبو آنا شروع ہو گئی تو پتہ چلا کہ عائشہ خان وفات پا گئی ہیں۔
اطلاعات ہیں کہ مرحومہ کا ایک بیٹا کراچی ڈیفینس اور دوسرا بیٹا اسلام آباد کے ایک بڑے فارم ہاؤس میں رہتا ہے۔ لیکن عائشہ آپی اسی دن مر گئی تھی جب بہت سال پہلے اس نے اپنی ساری پراپرٹی بچوں کے نام کر دی تھی۔ بس ہوا یہ کہ ان کی "ڈیڈ باڈی” چند ہی روز پہلے ملی۔ عائشہ اپنے اس فلیٹ میں کچھ برسوں سے بھوت بن کر اکیلی رہ رہی تھی۔ حیرت کی بات یہ ہے ان کا ایک بیٹا اپنی بیوی اور دو بچوں کے ساتھ کراچی ڈیفنس میں چار کنال کے وسیع محل نما گھر میں رہتا تھا اور دوسرا بیٹا اسلام أباد کے چک شہزاد میں 8 کنال کے فارم ہاؤس میں قیام پزیر تھا۔ اس بیٹے کی راولپنڈی بحریہ ٹاؤن میں بھی ایک لگژری کوٹھی تھی۔ جبکہ کراچی والے بیٹے کے پاس بھی خیابان اور کراچی بحریہ میں کروڑوں روپے مالیت کی پراپرٹیاں تھیں۔ یہ ساری جائیدادیں ان کی والدہ عائشہ خان نے بنائی تھیں جو اس نے چند سال پہلے اپنے بچوں کے نام کر دی تھیں، جس کا نتیجہ بلآخر یہ نکلا کہ ان کے دونوں بیٹوں نے اپنی والدہ سے منہ موڑ لیا اور ایک دن ایسا بھی آیا کہ وہ اسی قید تنہائی میں انتقال کر گئیں۔
سنا جا رہا ہے کہ عائشہ خان بہت مہربان اور رحم دل خاتون تھی۔ ان کی کفالت میں بہت ساری فیملیوں کے گھر کا خرچہ چل رہا تھا۔ جب تک انہوں نے اپنی جائیداد اپنے بچوں میں تقسیم نہیں کی تھی ان کی ڈائری پر ترتیب وار چیزیں لکھی ہوتی تھیں یعنی انہوں نے باقاعدہ شیڈول بنا رکھا تھا کہ روزانہ کسی نہ کسی غریب اور نادار کے گھر جانا ہے، ان کے لئے راشن، نقدی اور بچوں کے سکولوں کی فیسیں دینی ہیں۔ نجانے انہوں نے کتنے نادار خاندانوں کے تو باقاعدہ وظیفے لگا رکھے تھے۔ پھر ایک دن سب کچھ بدل گیا جب اچانک اس نے بیٹوں کو بلایا اور اپنی ساری جائیداد اپنے بچوں کے نام کر دی اور خود کراچی میں کرائے کے ایک فلیٹ رہنے لگیں۔ ان کے پاس پراڈو گاڑی تھی، اور ان کے ساتھ ایک نوکرانی بھی رہتی تھی۔ لیکن ابھی تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ اس روز ان کی نوکرانی کہاں تھی یا جب ان کی وفات ہوئی تو سات دن تک ان کے دونوں بیٹوں یا اس کے کسی دوسرے رشتہ دار نے ان سے کیوں رابطہ نہیں کیا، جبکہ ان کا ایک بیٹا کراچی ہی میں رہتا تھا۔
اب عائشہ کی اس ناگہانی اور اندوہناک موت پر ایک رائے یہ قائم ہو گئی ہے کہ ان جیسوں کے ساتھ ایسا ہی ہونا چایئے تھا۔ آخر ان کو عقل کیوں نہیں آتی ہے کہ وہ اولاد کو قابو میں رکھنے اور ان کو وفا کی لڑی سے باندھے رکھنے کے لیئے انہیں اپنی زندگی میں جائیداد ان کے نام نہیں کرنی چایئے تاکہ وہ مجبورا والدین کی خدمت کرتے رہیں۔ میں کافی عرصہ انگلینڈ رہا ہوں ایسا تو میں نے وہاں بھی نہیں دیکھا تھا کہ گورے یا پاکستانی اولادیں اپنے والدین کو جائیداد ملنے کے بعد یوں "قید تنہائی” کا شکار کر کے مار ڈالیں۔ ہاں میں نے انگلینڈ رہنے کے 9 سال میں صرف ایک بار ایسا ہی ایک واقعہ اخبارات میں ضرور پڑھا تھا کہ کسی گورے کی اپنے فلیٹ میں موت ہو گئی تھی جس کا پتہ چند دنوں بعد پولیس کو اس وقت چلا تھا جب ہمسایوں نے گھر سے بدبو آنے کی شکایت کی تھی۔ اس وقت لندن میں پاکستانی کمیونٹی نے بڑے تفاخر سے یہ بحث چھیڑی تھی کہ ہمارے خاندانی نظام میں والدین کو اولڈ ہومز میں نہیں بھیجا جاتا ہے، ان کی اولادیں انہیں گھر میں رکھ کر ہی خدمت کرتی ہیں۔ یہ خبر پڑھنے کے بعد اندازہ ہوا ہے کہ ہمارا خاندانی نظام اور اخلاقی اقدار اندر سے کتنی کھوکھلی ہو چکی ہیں کہ ایسی عظیم الشان ماں جس نے اپنی زندگی میں ساری جائیداد بچوں میں بانٹ دی ہو اس کو بیٹوں نے یہ صلہ دیا کہ اسے فلیٹ میں اکیلے ہی مرنے کے لیئے چھوڑ دیا۔
مرحومہ آپی عائشہ کے بارے پتہ چلا ہے کہ چند ماہ قبل وہ اکیلے رہتے ہوئے اکتا گئی تھیں۔ ایک دن وہ طلعت حسین نامی اپنے ہمسائے کے آگے پھٹ پڑیں اور انہوں نے زار و قطار روتے ہوئے کہا کہ، "میں دن میں کئی کئی بار سارے بچوں کو فون کرتی ہوں لیکن وہ کال اٹینڈ نہیں کرتے ہیں، کبھی کبھار اٹھا بھی لیتے ہیں تو کہتے ہیں کہ دو منٹ ٹھہریں ابھی کال کرتے ہیں اور وہ دو منٹ پہلے گھنٹوں، پھر دنوں، پھر ہفتوں اور پھر مہینوں میں بدل جاتے ہیں۔” اس دوران عائشہ آپی فون ہاتھ میں پکڑے انتظار کرتی رہ جاتی تھی، کبھی کبھی تو وہ ساری رات انتظار کرتے گزار دیتی تھی مگر انہیں کسی ایک کا بھی فون نہیں آتا تھا۔ عائشہ خان کے پاس پراڈو ٹی زیڈ گاڑی تھی جسے وہ خود چلاتی تھیں۔ وہ ایک دن طلعت حسین کے گھر آئیں، کیک اور مٹھائی دے کر جلدی واپس لوٹ گئیں اور بتایا کہ وہ اپنے جاننے والے کچھ غریب حلقہ احباب اور رشتے داروں کو سامان دینے جا رہی ہیں۔
عائشہ خان عموما اپنے فلیٹ کے باہر بے چینی سے ٹہلتی رہتی تھیں، تنہائی کا شکار ہونے کی وجہ سے بُڑبڑاتی رہتی تھیں۔ جب وہ تھک کے چُور ہو جاتیں تو نیچے بیٹھ جاتی تھیں، پھر ان سے اُٹھا نہیں جاتا تھا۔ کبھی کبھی وہ اچانک چیخیں مار کر رونے لگ جاتی تھیں۔ جب انہیں اپنی اس حالت کا احساس ہوتا تو ایک دم وہ خود ہی چُپ کر جاتی تھیں۔ جب پڑوسی ان کے قریب آتے تو یہ انہیں زور سے ڈانٹ دیتی تھیں۔ گزشتہ کافی دنوں سے وہ رشتوں کے احساس سے عاری ہو گئی تھیں۔ کچھ ہفتوں سے انہوں نے رات کو فلیٹ سے باہر آنا بھی چھوڑ دیا تھا کیونکہ ان کا ایک پاؤں فریکچر ہو گیا تھا، اور وہ مکمل طور پر تنہا ہو گئیں تھیں۔ حتی کہ ان کی اس تنہائی نے انہیں قتل کر ڈالا۔
اس المناک واقعہ سے یہ سبق ملتا ہے کہ جب تک آپ کے ہاتھ پاؤں ٹھیک کام کر رہے ہیں جائیداد بچوں کے نام نہ کیجئے چاہے وہ کتنے ہی ترلے کریں۔ جس دن آپ نے جائیداد ان کے نام کر دی سمجھیں آپ اخلاقی طور پر اپنی اولاد ہی کے ہاتھوں قتل ہو گئے، کیونکہ بعض صورتوں میں نفسیاتی طور پر تنہائی خود ایک سفاک قاتل ہے۔ اچھے انسانوں کا یہ المیہ ہے کہ وہ اپنی ہی مروت کے ہاتھوں مارے جاتے ہیں۔ یہ قدرتی یا فطری موت نہیں بلکہ اخلاقی قتل ہے جو خودغرضی اور لالچ میں ہوا ہے۔ بعض قتل آپ جسم کا نہیں روح کا کرتے ہیں جس میں آپ پر مقدمہ ہوتا ہے اور نہ آپ کو سزا ہوتی ہے مگر آپ اس قتل میں برابر کے شریک ہوتے ہیں، کیونکہ کسی کو ذہنی اذیت دے کر مارنا بھی تو ایک قتل ہی ہے، بلکہ ایک بہت بڑا خوفناک اور ظالمانہ اخلاقی قتل ہے!

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |