اردو فلم خلع
میاں بیوی کے درمیان علیحدگی یا طلاق ایک ناپسندیدہ عمل ہے۔ اگر دونوں میں سے ایک کو زندگی بھر اکٹھے گزارا کرنے میں مشکل کا سامنا ہو یا ان کا ایک ساتھ رہنا ناممکن ہو جائے تو اس کی دو صورتیں ہیں کہ اول میاں اپنی شریک حیات کو طلاق دے دے یا بیوی تنسیخ نکاح کا دعوی کر کے جج کے ذریعے خاوند سے اپنا نکاح ختم کروا لے۔ تنسیخ نکاح میں جج کے سامنے بیوی کو ثابت کرنا پڑتا ہے کہ اسے اپنے خاوند کے ساتھ بقیہ زندگی گزارنے میں سخت مشکلات کا سامنا ہے جبکہ اس کی تیسری صورت یہ ہے کہ بیوی اپنے خاوند کو جج کے سامنے کسی طرح راضی کر لے کہ وہ اسے طلاق دے دے یا جج تنسیخ نکاح کا فیصلہ دے دے جسے "خلع” کہا جاتا ہے۔
ایسی کسی صورت میں خلع ایک ایسا موضوع ہے جس پر آراء مختلف النوع اور متنازعہ بھی ہیں۔ لیکن اسلام عورت کو خلع لینے کا حق دیتا یے۔ بدقسمتی سے ہمارا ملک مرد زدہ معاشرہ ہے۔ بہت سارے خبطی مرد عورت کو انسان ہونے کا حق دینے کو بھی تیار نہیں ہوتے ہیں۔ ایسی صورت میں عورت مظلومیت میں جی سکتی ہے اور نہ ہی مر سکتی ہے۔ یہاں پر ایک شادی شدہ عورت کے لیئے زندہ رہنے کے لیئے ضروری ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے خاوند سے علیحدگی اختیار کرنے کا فیصلہ کر لے۔ ایسی کسی ناگزیر صورتحال میں ایک شادی شدہ عورت کے لیئے اپنے خاوند سے خلع لے لینا اس مسئلے کا واحد اسلامی حل ہے۔
لیکن ہمارے مسلم معاشرے میں ایک اور مسئلہ یہ پیدا ہو گیا ہے کہ چند خواتین اپنے اس اسلامی حق کو ناجائز طریقے سے استعمال کرتی ہوئی بھی نظر آ رہی ہیں کیونکہ چند مثالیں ایسی بھی سامنے آئی ہیں کہ کچھ خواتین اپنے خاوند کو پتہ بھی نہیں چلنے دیتی ہیں اور چند جعلی قسم کے ثبوت وغیرہ پیش کر کے جج سے تنسیخ نکاح کروا لیتی ہیں یا اس عمل کے بعد بھی اپنے مرد کے ساتھ رہنا جاری رکھتی ہیں، اور پھر اچانک کسی موقع پر اسے یہ کہہ دیتی ہیں کہ میں نے تو آپ سے خلع لے لیا ہوا ہے۔
تنسیخِ نکاح کا مطلب کسی نکاح کو باطل قرار دے دینے، توڑ دینے یا ختم کر دینے سے یے۔ یہ ایک قانونی عمل ہے جو عام طور پر عدالت کے ذریعے انجام پاتا ہے، جب ایک فریق (اکثر بیوی) کی جانب سے عدالت میں درخواست دائر کی جاتی ہے جس کی وجہ شوہر کی طرف سے بدسلوکی، زیادتی، نشہ، تشدد یا کچھ دیگر الزامات ہوتے ہیں۔ اگر بیوی عدالت میں یہ الزامات ثابت کر دے تو اسے حق مہر واپس نہیں کرنا پڑتا یے اور نکاح منسوخ ہو جاتا ہے۔
تنسیخ نکاح ایک قانونی اصطلاح ہے جو عدالتی حکم کے تحت نکاح کو ختم کرنے کے لئے استعمال ہوتی ہے، جہاں بیوی کو شوہر کے جرم یا غلطی کو عدالت میں ثابت کرنا ہوتا ہے جبکہ خلع اسلامی فقہ کی اصطلاح ہے جس میں عورت طلاق کا مطالبہ کرتی ہے اور شوہر کی رضامندی سے نکاح ختم ہوتا ہے۔ عدالتی خلع میں کچھ تبدیلی بھی کی گئی ہے، جہاں اب شوہر کی رضامندی ضروری نہیں ہے، تاکہ خواتین کو آسانی ہو حالانکہ یہ بھی اہم نکتہ ہے کہ خلع کا اس وقت تک (شرعی یا قانونی) اطلاق نہیں ہونا چایئے جب تک خاوند اپنی رضامندی سے تنسیخ نکاح پر دستخط نہ کر دے۔
دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ تنسیخِ نکاح کے لئے، بیوی کو عدالت میں شوہر کی غلطی یا جرم کو ثابت کرنا پڑتا ہے، جو کہ عملی طور پر بہت مشکل ہو سکتا ہے۔
یوں عدالتی خلع کو تنسیخِ نکاح کا ایک متبادل حل سمجھا جاتا ہے، جہاں عورت کو قصور ثابت کئے بغیر علیحدگی حاصل ہو جاتی ہے۔ اگر عدالتی خلع ہو جائے تو یہ ایک طلاقِ بائن کی طرح ہے، یعنی شوہر کو بیوی سے دوبارہ رجوع کرنے کا اختیار نہیں ہوتا، البتہ دونوں کی رضامندی سے دوبارہ نکاح ہو سکتا ہے۔
کچھ مفتیان کرام کے مطابق، عدالتی خلع اس وقت تک شرعی نہیں جب تک شوہر کی رضامندی نہ ہو، کیونکہ خلع میں مرد کی رضامندی ضروری ہے۔
یوں ہمارے ہاں طلاق دینے کی نسبت خلع لینےکا عمل انتہائی پیچیدہ ہے۔ اگر بیوی ان میں سے کسی جرم کے ٹھوس ثبوت فراہم کرے تو عدالت نکاح تنسیخ کرتی ہے جبکہ کچھ مفتیان کرام اور فتاوی جات مثلا دارالافتاء کراچی کے مطابق عدالتی خلع لیکر ایک اور نکاح کرنا نکاح نہیں ہے بلکہ یہ عمل "زنا” کے ضمرے میں آتا ہے۔
اس موضوع کی ایسی پیچیدگیوں کے پیش نظر "خلع” کے نام سے ایک اردو فلم زیر تکمیل ہے جس کے پروڈیوسر ڈاکٹر سجاد وڑائچ ہیں۔ ایک دلچسپ امر یہ ہے پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر سجاد جہاں ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہیں اور پاکستان لاہور کے مختلف سرکاری و غیرسرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹر کے طور پر کام کرتے رہے ہیں، انہوں نے فلموں کی پروڈکشن بھی کی اور اردو و پنجابی فلموں میں بطور "ہیرو” بھی کام کیا، جن میں ان کی ایک مشہور فلم "کافرہ” سرفہرست ہے۔ ڈاکٹر سجاد وڑائچ صاحب کثیرالجہات فنکار ہیں۔
ان دنوں وہ متحدہ عرب امارات دبئی میں کاروبار سے وابستہ ہیں اور اس فلم پر بھی کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے فلم مکمل کر لی تو یقینا یہ سپر ہٹ جائے گی کیونکہ یہ اس موضوع پر اپنی نوعیت کی پہلی فلم ہو گی، جو ہمارے آج کے مسلم معاشرے کی ایک اہم شرعی و قانونی ضرورت ہے۔

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |