دنیا کے امراء اور انسانی بقا کا مسئلہ
کہا جاتا ہے کہ جنگل کی زندگی میں شیر خونخوار درندہ تب بنتا ہے جب وہ سخت بھوک سے نڈھال ہو جاتا یے۔ اس دوران اس کے پاس دو ہی راستے ہوتے ہیں وہ کسی جانور کا شکار کر کے اپنے پیٹ کی آگ بجھائے اور یا پھر بھوک سے تڑپ تڑپ کر اپنی جان دے دے۔ لیکن اس لمحہ وہ اپنی پوری قوت سے شکار کرنے کو ترجیح دیتا ہے۔ زندگی ہر جاندار کو عزیز ہوتی ہے اسی لیئے وہ مرتے دم تک زندہ رہنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہاں تک کی کچھ انواع اپنی زندگی بچانے کے لیئے اپنے بچوں کو بھی قربانی کر دیتی ہیں۔ جنگل کے شیر کی مثال ہی لے لیں کہ بعض دفعہ ایسے واقعات بھی پیش آئے ہیں کہ بھوک کی انتہائی حالت میں شیر کو اگر شکار نہیں ملتا تو وہ اپنی بھوک مٹانے کے لیئے اپنے ہی بچوں کا گلہ دبا کر انہیں ہلاک کر دیتا ہے۔ یہ جنگلی زندگی کی ایک بہت عام اور معمولی سی مثال ہے جس کا تعلق زندگی کی بقاء اور سلامتی سے جڑا ہوا ہے جس کو برطانوی محقق اور سائنس دان چارلس ڈاروان نے بھی اپنے "حیاتیاتی نظریہ ارتقاء” میں بیان کیا تھا۔
چارلس ڈاروان کے نظریہ ارتقاء میں ایک عنوان "موزوں ترین بقا” Survival Of The Fittest کا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جانداروں کی دنیا میں وہی انواع باقی بچتی ہیں جو زمین کے ماحول میں زندہ رہنے کے لیئے موزوں ترین ہوتی ہیں جبکہ باقی جاندار انواع کو ماحول کے ہاتھوں شکار ہونا پڑتا ہے۔ اس عنوان میں یہ نہیں کہا گیا ہے کہ زندگی کی بقا یا زندہ رہنے کے لیئے بنیادی شرط طاقت ہے بلکہ یہ دعوی کیا گیا ہے کہ اس کی اہم اور بنیادی ترین شرط "موافقت” یعنی Adoptibilty ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ماحول کے مطابق دنیا میں آپ خود کو تبدیل نہیں کرتے ہیں اور اس سے موافقت پیدا نہیں کر پاتے ہیں تو دنیا میں آپ کی بقا خطرے میں پڑ جائے گی۔ یہ کلیہ عام انسانوں کی زندگیوں پر بھی صادق آتا ہے۔ البتہ ستم در ستم یہ ہے کہ موزونیت اور موافقت کے باوجود بھی اگر آپ کمزور نسل کی مخلوق ہیں تو تب بھی طاقتوروں کے ہاتھوں آپ کی بقا اور سلامتی کو مسلسل خطرہ درپیش رہتا ہے حتی کہ خود آپ کو جنم دینے والے بھی اپنی بھوک مٹانے کے لیئے آپ کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔
دنیا کا سرمایہ داری معاشی نظام بھی اب مسلسل جنگل کے قانون کی شکل اختیار کرتا چلا جا رہا ہے جہاں 2025ء میں دولت کا ارتکاز سکڑتے سکڑتے اپنی خطرناک ترین حد تک پہنچ گیا ہے کیونکہ دنیا کے ارب پتی افراد کی تعداد میں ایک تاریخی اضافہ ہوا ہے اور اس کا تناسب عدم برداشت، حسد، نفرت اور یہاں تک کہ بغاوت کی حد کو چھونے لگا ہے۔ امریکی میگزین فوربس 1987ء سے دنیا بھر کے ارب پتی افراد کا ریکارڈ رکھ رہا ہے۔ تب دنیا بھر میں صرف 140 ارب پتی تھے، لیکن یہ تعداد 2017 میں 2,000 تک پہنچ گئی۔ اب 2025ء میں، یہ تعداد 3,028 تک پہنچ چکی ہے!
گزشتہ سال کے مقابلے میں اس فہرست میں 247 نئے ارب پتی شامل ہوئے ہیں، اور نہ صرف ان کی تعداد بڑھ رہی ہے بلکہ ان کی مجموعی دولت میں بھی ریکارڈ اضافہ ہو رہا ہے۔ اس وقت ارب پتی افراد کی مجموعی دولت $16.1 ٹریلین ہو گئی ہے، جو کہ 2024ء کے مقابلے میں $2 ٹریلین زیادہ ہے۔
فوربس کی اس فہرست کے مطابق امریکہ میں 902 ارب پتی، چین اور ہانگ کانگ میں 516 ارب پتی اور بھارت میں 205 ارب پتی افراد ہیں۔ دنیا کی معیشت میں یہ حیران کن تبدیلیاں ثابت کرتی ہیں کہ سرمایہ کاری، کاروبار، اور وراثت کے ذریعے دولت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ جہاں دنیا میں ارب پتی افراد کی تعداد اور ان کی دولت میں تاریخی اضافہ ہو رہا ہے، وہیں غربت بھی ایک اہم مگر خوفناک ترین مسئلہ بنتی چلی جا رہی ہے۔ اب پوری دنیا تو ارب پتی بن نہیں سکتی ہے۔ لھذا عالمی معیشت میں دولت کی یہ غیر مساوی تقسیم ایک تلخ اور خطرناک ترین مسئلہ ہے۔ آکسفیم اور دیگر تحقیقاتی ادارے مسلسل یہ رپورٹ کرتے ہیں کہ امیر ترین طبقہ تیزی سے مزید امیر ہو رہا ہے، جبکہ غریبوں کے حالات میں وہ بہتری نہیں آ رہی جو آنی چایئے تھی۔
سنہ 2024ء میں آکسفیم کی رپورٹ کے مطابق دنیا کے سب سے امیر ترین 1فیصد افراد کے پاس بقیہ 99فیصد کی مجموعی دولت سے زیادہ دولت تھی۔ غربت کے خاتمے کی رفتار سست ہو گئی ہے، اور مہنگائی، جنگوں، اور ماحولیاتی تبدیلیوں نے غریب طبقے کو مزید مشکلات میں ڈال دیا ہے۔ کئی ترقی پذیر ممالک میں امیر اور غریب کے درمیان فرق شدید تر ہوتا جا رہا ہے، جسے "دولت کا ارتکاز” (Wealth Concentration) کہا جاتا ہے۔
ان اعدادوشمار سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ جہاں سرمایہ داری نے کچھ افراد کو ناقابلِ یقین حد تک امیر بنا دیا ہے، وہیں کروڑوں لوگ بنیادی ضروریات کے لئے بھی ترس رہے ہیں۔ دولت کی غیر مساوی تقسیم کا یہ بڑھتا ہوا رجحان معاشرتی اور اقتصادی عدم استحکام کو مزید گہرا کر رہا ہے۔ اگر دولت کے ارتکاز کا یہ سلسلہ یونہی بڑھتا رہا تو اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ کمزور طاقتور کے مقابلے میں اتنا زیادہ کمزور ہو جائے گا کہ اس سے اجتماعی غربت بذات خود ایک طاقت کی شکل اختیار کر لے گی۔
اس بنیاد پر کیا یہ دعوی کیا جا سکتا ہے کہ آئندہ "تہذیبی تصادم” Clash of Civilizations کی بجائے جنگوں کی بنیاد دولت اور طاقت کا ارتکاز بنے گا؟ اس سوال کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ بھوک کی وجہ سے جب اپنی بقا کا مسئلہ درپیش ہو تو پھر رشتے ناطوں اور سرحدوں کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہتی ہے۔ ویسے بھی کمزوری مرگ مفاجات کا پیغام رکھتی ہے۔ فرمان اقبال ہے کہ، "اُٹھّو! مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو، کاخِ اُمَرا کے در و دیوار ہِلا دو۔” دنیا کے ارب پتیوں کو سوچنا چاہئے کہ امارت خود ان کے لیئے خطرہ نہ بن جائے۔ کیونکہ شیر تبھی خوفناک درندہ بنتا ہے جب وہ حد درجہ بھوکا ہوتا ہے۔ امارت دوسروں میں حسد اور نفرت کو جنم دیتی ہے۔ اس سے پہلے کہ دولت، ذرائع اور طاقت کے ارتکاز کی بنیاد پر تیسری عالمی جنگ شروع ہو دنیا کی اسٹیبلشمنٹ اور مقتدرہ اقوام کو نیا معاشی نظام ڈھونڈنے کی اشد ضرورت ہے۔ ایک ایسا نظام جو جنگل اور طاقت کی فراوانی سے پاک ہو۔ اس بارے عالمی ماہرین اور معیشت دانوں کو سوچنا چایئے۔
اس کا بہترین حل یہ ہے کہ دنیا کے یہ ارب پتی افراد اپنی دولت اور وسائل کا کثیر حصہ اس ناہموار سرمایہ داری نظام کو ختم کرنے پر صرف کریں تاکہ ایک دن اپنی بقا کے مسائل سے دوچار غرباء کے ہاتھوں خود ان کی بقا خطرے میں پڑنے سے بچی رہے۔

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |