جنگ کا اگلا خطرناک مرحلہ
تحریر: ڈاکٹر محمد اکرم چوہدری
ڈاکٹر اسرار احمد اور حکیم سعید کی عالمی سیاست پر دور اندیشی کمال کی تھی۔ ان دونوں دانشوروں نے عمران خان کے بارے بہت پہلے پیش گوئی کی تھی کہ ان کا ناطہ اہل یہود سے جڑے گا اور وہ پاکستان کے وزیراعظم بنائے جائیں گے۔ خصوصا ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم نے ایک دوسرا اہم ترین انکشاف یہ کیا تھا کہ ایک وقت آئے گا جب اسرائیل پہلے ایران اور پھر پاکستان کے ایٹمی پلانٹ پر حملہ کرے گا۔ خدا نہ کرے کہ اسرائیل پاکستان پر کبھی حملہ کرنے کی ہمت کرے۔ لیکن اب اسرائیل کو ایران کے مزید حملوں سے بچانے کے لئے امریکی بی-2 بمبار طیاروں نے ایرانی نیوکلیئر سائٹس فردو، نتانز اور اصفہان پر اتوار کی صبح حملہ کر کے تباہ کر دیا. امریکہ اسرائیل کو بچانے کے لیئے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔
یہ ایران پر امریکی حملوں کا صرف ایک ہلکا سا ٹریلر ہے۔ خود امریکہ اور عالمی جنگی ماہرین نے کہا ہے کہ ایٹمی ٹھکانوں کو ایک دو حملوں سے مکمل طور پر تباہ نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اس ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی ایران کو بچانے کے لیئے بھی حد تک جا سکتے ہیں، جو پاکستان کے لیئے بھی ایک محتاط وارننگ ہے کیونکہ نیتن یاہوں کئی بار بیان دے چکے ہیں کہ ایران اور پاکستان کی ایٹمی تنصیبات اس کے نشانے پر ہیں۔
امریکہ اور اسرائیل دونوں کو معلوم ہے کہ پاکستان نہ تو غزہ ہے اور نہ ہی ایران ہے۔ اگر پاکستان پر اس نوع کبھی حملہ ہوا تو وہ ایران پر امریکی حملے سے بلکل مختلف نوعیت کا ہو گا جس کے پاکستان اور پوری دنیا کے امن پر مزید گہرے اور خطرناک اثرات مرتب ہوں گے۔ اس حوالے سے پاکستان کی سلامتی اور بقاء کے لیئے یہ ان بزرگ مفکروں کی پیش گوئی کو انتہائی سنجیدہ لے کر تیاری رکھنی چاہیئے۔ بطور آزاد اور خود مختار ریاست پاکستان کو جتنا بھی ہو سکے محتاط رہنا ہو گا اور احتیاطی تدابیر کرنی ہوں گی۔ انہونی کو ہونی ہونے میں دیر نہیں لگتی۔ البتہ افواج پاکستان کو اس بات کا بخوبی احساس ہے۔ عالمی سیاست کے محققین اور جنگی ماہرین اندازہ کر سکتے ہیں کہ جلد یا بدیر ایران اسرائیل جنگ کے بعد کیا صورتحال پیدا ہو گی اور اس میں پاکستان کا کیا رول ہو گا۔
اسرائیلی مستقبل کے منصوبوں کے متعلق جو انہوں نے جو کچھ کہا وہ حرف بہ حرف سچ ثابت ہوا۔ خاص طور اسرائیل کے ایران پر 13جون کے حملے نے پاکستان سمیت مسلم دنیا کے بہت سے ممالک کی آنکھیں کھول دی ہیں اور وہ اسرائیل کے بارے میں مختلف انداز سے سوچنے کے قابل ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر اسرار احمد نے اپنے ایک خطبے میں ان واقعات سے بہت پہلے فرمایا تھا کہ اسرائیل کے دو اہم ٹارگس ہیں جن میں ایران اور پاکستان سرفہرست ہیں۔ پاکستان کے علاوہ ترکی اور سعودی عرب بھی اب نہیں چاہتے کہ اس جنگ میں ایران کو شکست کا سامنا کرنا پڑے۔ ترک صدر طیب اردگان جو پہلے خاموش تھے انہوں نے بھی او آئی سی کے اجلاس میں اس امریکی حملے کی شدید مذمت کی۔ اس معاملے میں چین اور روس بھی کھل کر ایران کی حمایت میں آ گئے ہیں۔ اگرچہ چینی دانش کبھی اسرائیل ایران تنازعہ میں براہ راست ملوث نہیں ہو گی۔ لیکن اب مشرق وسطی میں حالات خدا نہ کرے تیسری عالمی جنگ کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ چونکہ پاکستان بھی ایران کی شکست کو کسی صورت قبول نہیں کرے گا تو اب ضرورت اس بات کی ہے کہ جنگ کا جلد یا بدیر جو بھی نتیجہ نکلتا ہے پاکستان کو اسرائیل کا سامنا کرنے کے لیئے ہر دم تیار رہنے کی ضرورت ہے۔ امریکہ نیٹو ممالک کے ساتھ مل کر اسرائیل کے ذریعے اس پورے خطے کو آگ میں دھکیلنا چاہتا ہے، مگر اب کی بار یہ چال الٹی پڑ سکتی ہے۔ جس طرح امریکہ، عراق اور افغانستان کی جنگوں میں پھنس کر معاشی دیوالیہ پن کے قریب پہنچا، اب وہی حربہ چین کے خلاف آزمانے کی کوشش کر رہا ہے، تاکہ اُسے جنگوں میں الجھا کر معاشی گرداب میں دھکیلا جا سکے۔ لیکن ایران کی شکست کو روکنے کے لیے بین الاقوامی سطح پر ایک نادیدہ اتحاد حرکت میں آ چکا ہے۔ ایران کو درکار تمام عسکری ساز و سامان آئندہ دو سے تین دنوں میں پہنچنا شروع ہو جائے گا۔ گزشتہ 24 گھنٹوں میں ایرانی حکام کو جو یقین دہانیاں اور سہولتیں فراہم کی گئی ہیں، اُن سے ایران ایک نئی طاقت کے ساتھ ابھر رہا ہے۔
گزشتہ شب خلیج فارس سے ایرانی آبدوزوں نے جب اسرائیل پر میزائل برسائے، تو اسرائیلی حکام اور ان کے حمایتی ششدر رہ گئے۔ آئرن ڈوم سسٹم ان میزائلوں کو روکنے میں ناکام رہا اور اسرائیلی دارالحکومت میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی۔ جبکہ ایران نے اسرائیل کی حیفہ میں ایٹمی گھر تنصیب پر کامیاب حملے کیئے۔ اس امریکی حملے کے بعد اگلے چند گھنٹوں میں اسرائیل پر جن خطرناک ترین ایرانی میزائلوں کی بارش ہو سکتی ہے، اُس سے اسرائیل کے حمایتی بخوبی واقف ہیں۔ دو سو سے زائد اسرائیلی جنگی طیاروں نے اردن، عراق اور یونان کے ہوائی اڈوں سے اڑانیں بھریں۔ شامی حکومت نے بھی اسرائیلی طیاروں کو اپنی فضائی حدود میں سہولتیں فراہم کیں۔ اگرچہ ایران کو بھاری نقصان پہنچایا گیا مگر اُس نقصان کی تلافی کا عمل نہایت تیزی سے جاری ہے۔ میزائل بیٹریاں، جیمنگ سسٹمز اور جدید اسلحہ ایران کو اُن ممالک کی طرف سے فراہم کیا جا رہا ہے جو امریکہ اور نیٹو سے زیادہ مالی طاقت رکھتے ہیں۔ اگر چھ سے سات دن تک اسرائیل پر میزائلوں کی مسلسل بارش جاری رہی تو چھوٹا سا اسرائیل اسے برداشت نہیں کر پائے گا۔
اسرائیل فیصل آباد ڈویژن سے بھی چھوٹا ملک ہے اور اس کی آبادی بھی محدود ہے جسے اعلی جنگی مہارت کے ساتھ آسانی سے گھیرا جا سکتا ہے۔
چین اور پاکستان کے لئے جو جال بچھایا گیا تھا، وہ جنگ میں الجھے بغیر تباہ کیا جا سکتا ہے، اور یہ عمل خاموشی سے شروع بھی ہو چکا ہے۔ایران اسرائیل پر میزائل حملے جاری رکھے گا۔ آئندہ 24 گھنٹوں میں وہ میزائل ایران کے پاس ہوں گے جو جدید ترین طیاروں کو ٹارگٹ کر کے گرا سکتے ہیں۔ جنگ کا آغاز اسرائیل نے کیا، مگر اب اسے روکنے کا اختیار اُس کے پاس نہیں رہا۔
یہ طے ہے کہ جنگ بندی ضرور ہو گی، لیکن چین یا پاکستان کو جنگ میں الجھانے کی سازش اسی طرح ناکام ہو گی جیسے 10 مئی کو پاکستان کی برق رفتار جوابی کارروائی سے ناکام ہو چکی تھی۔
امریکہ جتنی بھی جنگی اور سفارتی چالاکیاں کر لے، معاشی تباہی اُس کا مقدر بن سکتی ہے۔ اس کے معاشی نظام کی بنیاد جھوٹ اور جعلی اعداد و شمار پر کھڑی ہے، اور اب یہ پہاڑ ریزہ ریزہ بھی ہو سکتا ہے۔ "الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا، دیکھا اس بیماریِ دل نے آخر کام تمام کیا۔” جارحیت اسرائیل کا پرانا روگ ہے۔ قلعے میں سوراخ ہو چکا ہے اور یہ ریت کا قلعہ، بنانے والوں کے ہاتھوں ہی بہت جلد زمیں بوس ہو سکتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ، "غرور کا سر نیچا ہوتا ہے۔” بنجامن نیتان یاہو نے جو بیان جاری کیا تھا کہ، "ہم آیت اللہ کو کسی بھی وقت قتل کر سکتے ہیں اور یہ آپشن ہمارے پاس موجود ہے.” ایران کے سربراہ آیت اللہ اپنی اور آرمی سربراہوں کی شہادت کی صورت میں ترتیب وار جانشین مقرر کر چکے ہیں۔ ایران پر اس براہ راست حملے سے امریکہ کھل کر سامنے آ گیا ہے۔ جنگ کا اگلا مرحلہ انتہائی خطرناک ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ کل خود اسرائیل اور نیتن یاہو کے ساتھ کیا ہو گا۔ انسان ایک منصوبہ بناتا ہے اور خدا اس کو الٹا پھیر دیتا ہے۔
Photo by Алесь Усцінаў

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |