آمرانہ 27واں آئینی ترمیمی بل
جمہوریت کا بنیادی فلسفہ تو عوام کی خدمت ہے لیکن 27ویں آئینی ترمیم نے آئین ہی کو ملیا میٹ کر دیا ہے۔ برطانیہ ایک مضبوط جمہوری ملک ہے لیکن وہاں سیاست دان رائج جمہوری اصولوں کی اتنی پابندی کرتے ہیں کہ برطانیہ کا تحریری آئین ہی نہیں ہے۔ ہمارے ہاں مسئلہ یہ ہے کہ عوام کی خدمت کے نام پر منتخب ممبران نے 73 کے آئین میں ترامیم کر کر کے اس کا حلیہ ہی بگاڑ دیا یے۔ بے شک ہم برطانیہ کی طرح اتنے طاقتور نہیں ہیں کہ آئین کے بغیر ہی ملک کا نظام چلا کر جمہوری ملک بھی کہلا سکیں لیکن ہمارے منتخب نمائندوں نے 73 کے آئین کے ساتھ اب تک وہ کچھ کر دیا ہے کہ 27ویں ترمیم کے بعد ہمارے ملک میں آئین کا ہونا یا نہ ہونا ایک برابر ہو کر رہ گیا ہے۔
ہمارے منتخب اور مقتدر نمائندگان نے برائے نام جمہوریت کو قائم رکھنے کے لیئے پہلے 18ویں آئینی ترمیم، پھر 26ویں اور اب 27ویں آئینی ترمیم کا بل بھی پاس کر دیا ہے۔ کہنے کو تو ستائیسویں آئینی ترمیم فقط ایک آئینی ترمیم ہے جسے دو تہائی اکثریت سے دونوں زیریں اور بالا ایوانوں یعنی قومی اسمبلی اور پھر سینٹ نے پاس کر دیا ہے لیکن اس ترمیم کا تعلق عوام سے نہیں ہے بلکہ "خواص” سے ہے۔ اس ترمیمی بل میں کھلواڑ یہ کھیلا گیا ہے کہ اس کے ذریعے چند بڑوں کو تاحیات عدالتی استشنی اور مراعات سے نوازا گیا ہے۔ اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ عوام کے سامنے شرمندگی سے بچنے کے لیئے وزیراعظم شہباز شریف نے وقتی طور پر یہ اسٹشنی لینے سے انکار کر دیا ہے۔
یہ آئینی ترمیم بخیر و خوبی پاس تو ہو گئی ہے لیکن اس سے ملک کی آئینی اور نظریاتی بنیادوں پر ایک کاری ضرب لگی ہے۔ ہم موجودہ رائج آئین کی ساخت اور اس کے موثر ہونے پر بحث کر سکتے ہیں۔ اس کے بارے اپنے سیاسی مخالفین سے سلوک بھی ایک الگ موضوع ہے لیکن جس طرح پاکستانی ریاست کے متفقہ آئین کو پاؤں تلے روندا گیا ہے، اور اب جیسے پاکستان کی بنیادی جمہوری اساس کو چاہے وہ صرف کاغذوں پر ہی قائم تھی کا تیاپانچہ کیا گیا ہے، یہ واضح طور پر عوامی جمہوری اختیار کو محض چند من پسند افراد کے حوالے کرنے کے مترادف ہے۔ اس سے پاکستان شمالی کوریا کی طرز پر ایک سخت گیر جمہوری و فوجی ریاست میں بھی بدل سکتا ہے، جہاں جتنی دیر چاہے، چند گنے چنے منتخب اور غیرمنتخب افراد حکمرانی کر سکتے ہیں۔ اس سارے عمل میں جس سفاکیت اور دیدہدلیری سے حکومت نے کام لیا ہے اس سے عوام کو ہرگز حیرت نہیں ہوئی ہے کیونکہ اس کا یہ کام ہی نہیں ہے۔ حیرت اس بات پر ہے کہ اس معاملے میں مقتدرہ کے علاوہ نون لیگ اور پیپلز پارٹی جیسی سیاسی جماعتوں نے بھی اپنی خودغرضی، ناعاقبتاندیشی اور بزدلی کا بھرپور مظاہرہ کیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ حالیہ ترمیم کے پیچھے خواہشات اور اقدامات کا وہ رسمی اشتراک شامل ہے جس کی ذمہ داری لینے کے لیئے منتخب نمائندے بھی تیار نہیں ہیں جو اس آئینی ترمیم کے شریک مجرمان میں شامل ہیں۔ اس سوال کا جواب ہمیں آنے والا وقت دے گا کہ ہم ایٹمی ملک کے وارث جمہوریت اور آمریت کے درمیان کونسی لکیر کے کتنا زیادہ قریب کھڑے ہیں کہ جس سے کم از کم ہماری جمہوری شناخت قائم رہ سکتی ہو۔
دنیا کے کسی بھی جمہوری ملک میں حتی کے روس کے سوا کسی ملک کے آئین میں صدر یا کسی اور کو زندگی بھر کے لیے استثنی حاصل نہیں ہے۔ مواخذہ البتہ بیشتر دساتیر میں موجود ہے۔ لیکن مقدمات اور عدالتوں سے زندگی بھر کا استثنی صرف شاہی ممالک میں بادشاہوں کو حاصل ہوتا ہے۔ امریکہ اور برطانیہ جیسے جمہوری ملکوں میں یہ آئینی سہولت کسی کو میسر نہیں ہے چاہے وہ کتنا ہی طرم خان کیوں نہ ہو۔ ہمارا ملک ایسا جمہوری عجوبہ ہے جہاں خرید و فروخت کے زریعے آئین تک میں ایسا راستہ آسانی سے نکال لیا جاتا ہے۔
جس طرح 26ویں آئینی ترمیم میں یہ سودا بازی کی گئی تھی اسی طرح کی کرپشن اور ضمیر کی خریداری 27ویں ترمیم میں بھی دہرائی گئی ہے۔ چھبیسویں ترمیم کے موقعہ پر جب اختر مینگل کی پارٹی کے دو سینیٹروں نے ضمیر کا سودا کیا تھا تو اس وقت ان کو پتہ چل گیا تھا، اور وہ انہیں شرم دلانے کے لیئے خود سینٹ پہنچ گئے تھے جنہیں باقاعدہ ایوان سے نکال دیا گیا تھا۔ تب قومی اسمبلی سے بھی تحریک انصاف کے بعض ارکان اسمبلی نے ضمیر بیچا تھا۔ اس دفعہ پی ٹی آئی نے بائیکاٹ کر کے اپنا ووٹ مخالفت میں استعمال نہیں کیا، جس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ انہیں بھی آن بورڈ لیا گیا تھا۔ ایسی آئینی ترمیم کا کیا فائدہ جس کے لئے آئین کی خلاف ورزی کرنا پڑے، یا منتخب ممبران ہی کو لوٹا بنا دیا جائے۔ اس آئینی ترمیم کے پاس ہونے پر ثابت ہو گیا ہے سابق چیف جسٹس عطا بندیال کے فلور کراسنگ کے حوالے سے فیصلے نے ہمیشہ کے لئے ملک سے ہارس ٹریڈنگ ختم کر دی تھی جب اپنی پارٹی کے فیصلے کے خلاف ووٹ ڈالنے والے کا ووٹ شمار ہی نہیں ہوتا تھا اور اس کی رکنیت بھی چلی جاتی تھی۔ اس سے "ہارس ٹریڈنگ” کا کسی حد تک خاتمہ ہو گیا تھا۔ لیکن سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب نے اپنی جانب سے آئین کو درست کرنے کا جو فیصلہ دیا، اس سے ایک بار پھر ہارس ٹریڈنگ اور فلور کراسنگ کا راستہ کھل گیا۔ ان دونوں سیاسی جماعتوں بلکہ تینوں بڑی پارٹیوں کو جمہوریت کا نام لیتے ہوئے شرم آنی چایئے جو ہارس ٹریڈنگ کرنے اور ملکی جمہوری نظام کو آمرانہ بنانے میں کوئی حجاب محسوس نہیں کرتی ہیں۔ مسلم لیگ نون اور پیپلزپارٹی وغیرہ کے پاس کیا جواز ہے کہ انہوں نے ستائیسویں ترمیم کے لئے پی ٹی آئی اور جے یو آئی سے لوٹے خریدے؟ جناب بلاول بھٹو جو جمہوریت کے نعرے لگاتے تھکتے نہیں ہیں اور اپنی پارٹی کو جمہوریت کی عظیم چیمپین قرار دیتے ہیں، ان کے پاس اس سوال کا کیا جواب ہے؟ نون لیگ سے تو خیر سوال کرنا ہی بیکار ہے کہ ان کا جمہوریت، آئین اور اصولوں سے اتنا ہی تعلق ہے جتنا وہ انہیں بیچ کر پہلے ہی "مکھن ملائیاں” کھا چکے ہیں۔
اس ترمیم کے ذریعے ملک کے بڑوں کو اختیارات، وسعت یا تاحیات استثنیٰ معہ مراعات دی گئی ہیں۔ یہ کام ضرور کریں لیکن دکھ یہ ہے عدلیہ کے سٹرکچر اور ججز کے بھرتیوں کا نظام شفاف بنانے یا بہتر کرنے کی بجائے ریاست کے ایک اہم ستون کو جوڈیشل کمیشن کی آڑ میں ایگزیکٹیو پاور کے ماتحت کر دیا گیا ہے اور ایگزیکٹیو مقتدرہ کے ماتحت عرصہ دراز سے چلا آ رہا ہے۔ پہلے بھی عدلیہ میں مولوی مشتاق قماش کے ججز تھے، واٹس ایپ پر فیصلے چلتے تھے، پی سی او کو حلال قرار دیا جاتا تھا اور مارشل لاز کو عدالتی تحفظ ملتا تھا جبکہ اب اسی سسٹم کو بدلنے کے بہانے حکومت نے عدلیہ کو اپنے کھونٹے پر ہی لا باندھا ہے۔ ججز صاحبان اب صرف سرکاری ملازمین کے طور پر کام کریں گے اور اس کے بدلے تنخواہ بھی وصول کریں گے۔ 27ویں آئینی ترمیم کا واقعہ ایسا ہی ہے کہ قوم کے ساتھ پچھلے دس سالوں میں "پانامہ لیکس” کی چھتری تلے جو فلم چلی تھی وہ اب تک چلتی آ رہی ہے۔
نئی وفاقی آئینی عدالت آئین کی تشریح، بین الصوبائی تنازعات، بنیادی حقوق کے نفاذ، اور آئینی اپیلوں کا مکمل اختیار رکھے گی جس سے سپریم کورٹ کے اختیارات کم ہو جائیں گے بلکہ اس کے اختیارات اس آئینی عدالت کو منتقل ہو جائیں گے۔موجودہ سپریم کورٹ اب ان امور میں مداخلت نہیں کر سکے گی، اور اس کی حیثیت صرف فوجداری و دیوانی اپیلوں تک محدود ہو جائے گی، جیسے ڈسٹرکٹ یا سیشن عدالتیں اپنے دائرے میں کام کرتی ہیں۔ صدر پاکستان وزیراعظم کی ایڈوائس پر موجودہ سپریم کورٹ کے ججوں میں سے کسی ایک کو 3 سالوں کے لیئے چیف جسٹس فیڈرل آئینی عدالت مقرر کریں گے اور پھر وزیراعظم کی ایڈوائس پر چیف جسٹس فیڈرل آئینی عدالت کی مشاورت سے دیگر جج صاحبان کا تقرر کریں گے۔
صدرِ مملکت اب ججز کو ایک ہائی کورٹ سے دوسری میں منتقل کر سکیں گے جبکہ آرٹیکل 185، 186، اور 189 میں بڑی ترامیم کر کے آئینی نوعیت کے تمام اختیارات وفاقی آئینی عدالت کو منتقل کر دیئے گئے ہیں۔ ملک کی عدالتی درجہ بندی میں طاقت کا مرکز سپریم کورٹ سے ہٹ کر نئی آئینی عدالت کی طرف شفٹ ہو گیا ہے۔
27ویں ترمیم کے تحت ججز کے تبادلے، تعیناتی اور ریٹائرمنٹ کے اختیارات وسیع پیمانے پر بدلے گئے ہیں۔ صدرِ مملکت اب ججز کو ایک ہائی کورٹ سے دوسری میں منتقل کر سکیں گے اور جو جج تبادلہ قبول نہیں کرے گا، اسے ریٹائر متصور کیا جائے گا۔
Title Image by Pexels

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |