دولت جمع کرنے کا فن
ایلون مسک سے لے کر اوپرا ونفری تک دنیا کے چند ہزار ارب پتیوں کی کہانی پڑھیں تو پتہ چلے گا کہ ان تمام میں ایک قدر مشترک ہے کہ وہ سب دولت کے ارتکاز کا فن سیکھنے اور سمجھنے کے بعد ہی ارب پتیوں کی فہرست میں شامل ہوئے ہیں۔ میں سرمایہ داری کو اسی لیئے شدید ناپسند کرتا ہوں کہ یہ دولت کو چند ہاتھوں میں مرتکز کرنا سیکھاتی ہے۔ آپ کے پاس دولت و پیسہ نہیں بھی ہے لیکن آپ اسے جمع کرنے کی صلاحیت رکھنے کے ماہر ہو گئے ہیں تو پھر آپ کے پاس دولت کے ڈھیر لگنے میں دیر نہیں لگتی ہے۔
دنیا کے عرب پتیوں کی اکثریت میں وہ افراد شامل ہیں جو خالی جیب گھر سے نکلے تھے لیکن جب انہوں نے دولت کو اکٹھا کرنے کا راز پا لیا تو پھر ان کے پاس دولت، ذرائع اور وسائل مسلسل بڑھتے ہی چلے گئے۔ ان میں سے صرف چند ارب پتیوں کا ہی تجزیہ کر لیں تو پتہ چلے گا کہ وہ یہ گر سیکھنے کے بعد کس طرح غربت سے نکل کر امارات کی بلندیوں تک پہنچے جن میں ایلون مسک (ٹیسلا اور سپیس ایکس) جیف بیزوز (امازون)، مارک زکربرگ (فیس بک)، وارن بوفٹ (برک شائر ہیتھ وے)، بل گیٹس، برنارڈ آرنلٹ، مائیکل ڈیل، جینسین ہوانگ، کارلوس سلم روز اور اوپرا ونفری جیسے نام شامل ہیں جو عام حالات سے نکل کر اپنی سخت محنت، جدت، کاروباری مہارت اور سب سے بڑھ کر دولت کو اکٹھا کرنے کی بدولت دنیا کے امیر ترین افراد میں شامل ہوئے، جن کی اکثر کہانیوں میں ابتدائی مشکلات، محنت اور دولت کو جمع کرنے اور اسے بڑھانے کا عنصر نمایاں نظر آتا ہے۔
ایک وقت تھا جب جیف بیزوز ایک عام ملازم تھے، بعد میں ایمیزون کی بنیاد رکھی اور دنیا کے امیر ترین شخص بن گئے۔ مارک زکربرگ ہارورڈ کے طالب علم تھے، فیس بک شروع کی اور مختصر وقت میں ارب پتی بن گئے. ایلون مسک نے اپنی ابتدائی زندگی میں بہت مشکلات کا سامنا کیا، لیکن بعد میں پے پال، ٹیسلا اور سپیس ایکس جیسی کامیاب کمپنیاں بنا کر دنیا کے امیر ترین شخص بن گئے۔ وارن بفٹ غریب تھے مگر اپنی کم عمری ہی میں سٹاک مارکیٹ میں دلچسپی رکھتے تھے، اور اپنی محنت اور سمجھداری سے دنیا کے سب سے بڑے سرمایہ کاروں میں شمار ہو گئے. اوپرا ونفری (جس پر پہلے بھی ایک کالم لکھا تھا) انتہائی غربت میں پلی بڑھیں، لیکن اپنی محنت اور ٹی وی کی دنیا میں کامیابی کے بعد ایک میڈیا ایمپائر کھڑی کی. یہ دنیا کے وہ چند لوگ ہیں جن کی زندگیاں اس بات کی مثال ہیں کہ کس طرح سخت محنت، دولت اکٹھی کرنے کی فنکاری اور صحیح موقع ملنے پر کوئی بھی شخص غربت سے نکل کر دولت مند بن سکتا ہے.
اس کے برعکس 2025ء ارب پتیوں کا سنہری سال کہلاتا ہے لیکن اسی سال چند ارب پتی کنگال ہوئے جن سے دولت کو سنبھالنے اور اسے اکٹھا رکھنے کا فن کھو گیا جن میں نکولا پیوش، ولس جانسن، ای جو شوئن، مارک شوئن اور اینڈریو بیالیئکی وغیرہ شامل ہیں۔ میرے ایک برٹش دوست کا قول ہے، "دولت کمانا ایک شیر کا کام ہے لیکن اسے سنبھالنا دو شیروں کا کام ہے”۔ فوربز کی 100 ارب پتی شخصیات میں سات افراد ہندوستانی ہیں اور ایک بھی پاکستانی نہیں ہے۔ ان سو افراد میں غریب ترین شخص بھی 5 ارب ڈالر کا مالک ہے لیکن اس فہرست میں یہ غریب ارب پتی بھی اسی وجہ سے غریب ہے کہ اسے شیر بن کر دولت کی حفاظت کرنے کا بڑا فن آیا اور نہ ہی اس نے مزید دولت اکٹھی کرنے کی کوئی بڑی دوڑ دھوپ کی جس وجہ سے وہ ارب پتی ہونے کے باوجود ان سو ارب بتیوں میں غریب کا غریب ہی رہا۔
اس حوالے سے اگر چند بڑے ممالک کی دولت اور طاقت کے اعداد و شمار کو دیکھیں تو آپ حیران ہوں گے کہ امریکہ پر 36 ٹریلین ڈالر کا قرض ہے۔
چین پر 15 ٹریلین ڈالر،
جاپان پر 10 ٹریلین ڈالر،
جرمنی پر 3 ٹریلین ڈالر،
برطانیہ پر 3 ٹریلین ڈالر اور فرانس پر 3.5 ٹریلین ڈالر کا قرضہ ہے۔ ایک اور حیران کن حقیقت یہ ہے زمین پر تقریباً ہر بڑی ریاست قرض میں ڈوبی ہوئی ہے۔ عالمی قرضہ مجموعی طور پر 317 ٹریلین ڈالر ہے۔ یہ رقم عالمی جی ڈی پی کے تقریباً 330 فیصد کے برابر ہے۔ دنیا میں جتنی بھی سالانہ پیداوار ہوتی ہے، وہ کل قرض کے برابر بھی نہیں بنتی۔ اگر پوری دنیا 3 سال تک کچھ بھی خرچ نہ کرے تو تب جا کر یہ قرض ادا ہو سکتا ہے لیکن لیکن سوال یہ ہے کہ اگر اتنے طاقتور اور ترقی یافتہ ممالک بھی مقروض ہیں تو آخر ان کو قرض دینے والا کون ہے؟ اگر دنیا پر 317 ٹریلین ڈالر کا قرض ہے تو پھر 317 ٹریلین ڈالر کے اثاثے کس کے پاس ہیں؟
جب دنیا کے پاس 317 ٹریلین ڈالر کی ذمہ داریاں ہیں تو وہ اثاثے آخر کس نے رکھے ہوئے ہیں؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ قرض ایک صفر جمع صفر کا کھیل ہے۔ ہر قرض لینے والے کے مقابلے میں ایک قرض دینے والا ہوتا ہے۔ اگر امریکہ پر 36 ٹریلین ڈالر کا قرض ہے تو کسی کے پاس امریکہ کے خلاف 36 ٹریلین ڈالر کے دعوے موجود ہیں۔ اگر عالمی قرض 317 ٹریلین ڈالر ہے تو کسی کے پاس 317 ٹریلین ڈالر کے عالمی اثاثے ضرور ہیں اور یہ دنیا کے وہی چند سو (ایک اندازے کے مطابق اڑھائی سو) امیر ترین افراد ہیں جن کے پاس دنیا کی باقی ماندہ ڈھائی ارب افراد کی آبادی سے بھی زیادہ دولت ہے جس کی بنیادی وجہ یہ یے کہ وہ "سرمایہ داری” کے فن میں ماہر ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ دولت اکٹھی کیسے کرنی ہے۔
یہ حقیقت انسانی تاریخ میں دولت کے سب سے بڑے "نظام ارتکاز” کو ظاہر کرتی ہے۔ دولت اور ذرائع کا یہ ارتکاز نہ جنگ کے ذریعے ہوا، نہ چوری سے، بلکہ یہ ایک ایسے نظام کی پیداوار ہے جسے "سرمایہ داری” میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ جمع کر کے اس پر اپنی ملکیت کا حق قائم کرنے کو کہتے ہیں، جہاں اکثریت قرض لیتی ہے اور اقلیت قرض دیتی ہے، جہاں سود ہمیشہ بڑھتا رہتا ہے،
اور جہاں قرض ریاضیاتی طور پر کبھی مکمل ادا نہیں ہوتا۔ لہٰذا قرض خواہوں کا زیادہ دولت جمع کرنے کا یہ عمل مسلسل آگے سے آگے بڑھتا رہتا ہے۔ یہ عمل دولت کو صرف اوپر کی طرف منتقل کرتا ہے اور یوں کثیر دولت اکٹھی کرنے کے اس نظام میں امیر امیرترین اور غریب غریب ترین ہوتا چلا جاتا ہے۔
امراء کی فہرست میں مائیکروسافٹ کمپنی کے بانی بل گیٹس سب سے زیادہ مشہور ہیں جو 20 سال تک دنیا کے امیر ترین فرد رہے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ہاورڈ یونیورسٹی کے نالائق ترین طالب علم تھے اور ابتداء میں انہوں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز ایک ٹرک ڈرائیور کے طور پر کیا تھا لیکن جب حالات نے انہیں دولت اکٹھی کرنے کا فن سکھایا تو وہ بتدریج امیر سے امیرتر، اور پھر امیرترین ہوتے چلے گئے۔

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |