سیّد علی عباس جلالپوری:شخصیت و فن
(6 دسمبر یوم وفات پر خصوصی تحریر)
ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی
سید علی عباس جلالپوری برصغیر کے ان چیدہ چیدہ دانشوروں میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے اپنے فکری سفر کو روایتی حدود سے آزاد رکھا۔ ان کا تعلق ایسے سید گھرانے سے تھا جہاں عربی، فارسی اور کلاسیکی حکمت کی فضا موجود تھی۔ ڈنگہ اور جلالپور شریف کی تہذیبی فضا میں پلنے والے جلالپوری نے گھر کی کتابوں، ادبی رسائل اور داستانوی ادب کے زیر اثر ابتدائی ذہنی تربیت پائی۔ بیسویں صدی کی پہلی دہائی میں پیدا ہونے والی نسل کے لیے یہ دور سوال اٹھانے اور نئی دنیا کو سمجھنے کا زمانہ تھا، اور عباس جلالپوری نے اسی دور کے بدلتے ہوئے فکری دباؤ میں اپنی سمت بنائی۔عباس جلالپوری اپنے گھر کے ماحول کے بارے میں کہتے تھے:
” خوش قسمتی سے میں ایک ایسے گھرانے میں پیدا ہوا جہاں علم و حکمت کا چرچا تھا۔ ہمارے ہاں کم وبیش تمام ادبی رسائل آتے تھے۔ میں ساتویں جماعت میں تھا کہ بچوں کے رسالے ” پھول“ کے ساتھ ساتھ “ ہمایون”، “زمانہ” وغیرہ میں چھپے ہوئے افسانے بھی پڑھنے لگا تھا۔ ان کے علاوہ خواجہ حسن نظامی، راشد الخیری اور نذیر احمد دہلوی کی کتابیں بھی میری نظر سے گزرنے لگی تھیں۔ اس زمانے میں ایک دن اپنے کتب خانے کو کھنگالتے ہوئے دو نایاب کتب مرے ہاتھ لگیں جن کے مطالعے نے مجھے دنیا و مافیہا سے بے خبر کر دیا۔ ان میں، ایک ” داستان امیر حمزہ“ اور دوسری ” الف لیلیٰ، “ تھی“۔
گورنمنٹ کالج لاہور کی علمی فضا نے ان کی ذہنی تربیت میں فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ احمد شاہ پطرس بخاری جیسے اساتذہ نے نہ صرف فکری رہنمائی دی بلکہ جلالپوری کے اندازِ نظر کو بھی تشکیل دیا۔ فلسفہ، تاریخ، مذہبیات، شاعری، موسیقی ان سب سے ان کی دلچسپی نے انہیں ایک ہمہ جہت دانشور بنایا۔ ول ڈیورانٹ سے خط و کتابت اور علمی گفتگو اس بات کی گواہ ہے کہ وہ فلسفے کو محض کتابی اصطلاحات کے بجائے ایک زندہ تجربہ سمجھتے تھے۔
ملازمت کے دوران وہ گاؤں، قصبوں اور شہروں کی عملی زندگی سے گزرے۔ یہ تجربہ ان کے شعور کو زیادہ زمینی اور حقیقت شناس بناتا ہے۔ گوجرانوالہ، ملتان، لاہور، سیٹلائٹ ٹاؤن ان سب مراحل نے ان کی تحریروں میں وہ حقیقت پسندانہ انداز پیدا کیا جس نے انہیں تحریک خرد افروزی کا نمایاں نام بنایا۔ عباس جلالپوری کہتے ہیں:
”مسٹر ھیچ میرے ٹٹوریل گروپ کے انچارج تھے۔ انہوں نے مجھے دنیا کی سو بہترین کتابوں کی فہرست دی جس میں ہر موضوع پر کتابیں شامل تھیں، مجھے عام اور کلاس کی کتاب کا فرق یہاں سے معلوم ہوا“۔
عباس جلالپوری نے اردو میں جس موضوعاتی تنوع کے ساتھ کام کیا، اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ فلسفہ ہو، تصوف ہو، سماجیات ہو یا مذہبی فکر ہر میدان میں انہوں نے واضح اور غیر مبہم موقف پیش کیا۔ ”روح عصر“، ”روایات فلسفہ“، ”عام فکری مغالطے“، ”مقامات وارث شاہ“، ”اقبال کا علم الکلام“، ”رسوم اقوام“ اور ”خردنامہ“ جیسی کتابیں ان کی تحقیقی محنت اور فکری استقامت کی دلیل ہیں۔ جلالپوری کہا کرتے تھے:
” اگر میں فلسفی نہ ہوتا تو موسیقار ہوتا“۔
انہوں نے رائج تصورات کے ابطال یا تصحیح میں کوئی تامل نہیں کیا۔ اقبال کے فلسفی ہونے پر اعتراض ہو یا تصوف کی تعبیر نو، عباس جلالپوری نے ہمیشہ دلیل اور استدلال کو بنیاد بنایا۔ ان کا تعلق ایسی نسل سے تھا جو فکری آزادی کو ذاتی وقار سمجھتی تھی، اور اپنی تحریر میں اس آزادی کا اظہار بھی کرتی تھی۔ عباس جلالپوری اپنے بارے میں کہتے ہیں:
”دنیا میں ایک چیز ایسی ہے جس کے لیے میں جان بھی دے سکتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ مجھے کوئی دبا نہیں سکتا۔ نہ نظریئے سے، نہ باتوں میں، نہ کسی قسم کے رعب سے، جب سے ہوش سنبھالا ہے میں باغی ہوں“۔
اگرچہ جلالپوری بنیادی طور پر فلسفی اور محقق کے طور پر پہچانے جاتے ہیں، مگر ان کے شعری اظہار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ طالب علمی کے زمانے میں یہ شوق زیادہ نمایاں تھا، مگر بعد میں فکری تحریروں نے شاعری کو پیچھے چھوڑ دیا۔ اس کے باوجود ان کی شاعری میں وہی فکری شفافیت، مشاہدے کی گہرائی اور زبان کی سادگی ملتی ہے جو ان کی نثری تحریروں کا خاصہ ہے۔
ان کا کلام روایتی رومان یا رسمی تصوف سے الگ نظر آتا ہے۔ وہ جذبات کی شدت سے زیادہ ذہنی وضاحت اور فکری سچائی کو اہمیت دیتے ہیں۔ ان کے اشعار میں موضوعات کی سنجیدگی، بیانیے کی سادگی اور اظہار کی راست گوئی غالب رہتی ہے۔ عباس جلالپوری کی شاعری میں تین بنیادی رنگ نمایاں طور پر نظر آتے ہیں جن میں سرفہرست ان کی فکری تمثیل اور فلسفیانہ طنز ہے ۔ ان کے اشعار میں بیشتر معاملات زندگی کو فلسفیانہ شدت کے ساتھ دیکھا گیا ہے۔ وہ معاشرتی تضادات، مذہبی تعصبات اور ذہنی جمود پر طنز کرتے ہیں۔ ان کی شاعری میں سوال اٹھانے کا عمل مسلسل جاری رہتا ہے۔
ان کی شاعری میں انسان دوستی کے ساتھ ساتھ روشن خیالی کا ذکر بھی جابجا ملتا ہے۔ تحریک خرد افروزی کا اثر ان کی شاعری میں بھی ملتا ہے۔(تحریکخِردافروزی اٹھارھویں صدی کی مشہور عقلیاتی تحریک کا عنوان ہے جو ہالینڈ اور فرانس سے شروع ہوئی اور مقبول ہوکر تمام مغربی ممالک میں پھیل گئی) وہ انسان کی عظمت، فطری آزادی اور شعور کی بلندی کی بات کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک انسان اپنی عقل کے ذریعے اپنی قسمت لکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
عباس جلالپوری روایتی شاعری سے بغاوت نہیں کرتے، مگر اسے اندھی تقلید کی نذر بھی نہیں ہونے دیتے۔ وہ روایت کو پرکھ کر اپناتے ہیں اور نئے فکری جواز کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں کلاسیکی بہاؤ بھی ہے اور جدید ذہن کا سوال بھی ان کی شاعری کا حصہ ہے۔
عباس جلالپوری کی شاعری اگرچہ ان کے فکری کام کے مقابلے میں کم حجم رکھتی ہے، مگر اپنی فطرت میں اہم ہے۔ یہ شاعری کسی روایتی شاعر کا کارنامہ نہیں بلکہ ایک مفکر کا تخلیقی رد عمل ہے۔ ان کے اشعار میں رزمیہ شان نہیں، جذبات کی بارش نہیں، بلکہ سوچ کی ٹھہراؤ اور سوالات کی حرارت موجود ہے۔ وہ قومی، فکری اور تہذیبی تاریخ میں ایسے مقام پر کھڑے دکھائی دیتے ہیں جہاں شاعر، محقق اور فلسفی ایک شخصیت میں گھل جاتے ہیں۔ محمد ارشاد رقمطراز ہیں:
”اس بات کو تو معرض بحث میں نہیں لایا جاسکتا کہ اس انداز فکر کا جسے پروفیسر صاحب مغالطہ کہتے ہیں واضح طور پر تہذیب و علوم کے ارتقاء میں رکاوٹ ہے۔ اس لحاظ سے عام فکری مغالطے کی علمی حیثیت عیاں ہے اور غالباً اس موضوع پر پہلی کتاب ہے جو دنیا کی کسی زبان میں لکھی گئی ہے۔“
سید علی عباس جلالپوری کی زندگی مسلسل جدوجہد کا سفر تھی۔ فکری آزادی، علمی دیانت، سماجی حقیقت پسندی اور دلیل پر مبنی سوچ ان کا اثاثہ تھی۔ سید علی عباس جلالپوری کہتے ہیں:
” راقم نے bayle کی طرح علمی اور تحقیقی نکتہ نظر سے اس لغات کی تدوین کی ہے۔ اس کتاب کا مقصد یہ ہے کہ پڑھے لکھے لوگوں کے ذہن و دماغ کو روشن کیا جائے اور انہیں تنگ دلی و تنگ نظری سے نجات دلاکر ایسی معلومات بہم پہنچائی جائیں جن سے قاری کی نگاہیں وسعت اور ذہن و قلب میں کشادگی پیدا کی جائے اور وہ انفرادی و اجتماعی مسائل کا جدید سائنس اور جدید فلسفے کی روشنی میں سامنا کرسکیں“۔
اردو دنیا میں وہ نہ صرف خرد افروزی کے علمبردار رہے بلکہ ایسے محقق بھی ثابت ہوئے جنہوں نے روایت کے دباؤ کے بغیر زندہ سوال اٹھائے۔ ان کی شاعری میں اگرچہ کمیت کم ہے مگر کیفیت نمایاں ہے۔ یہ شاعری ایک فلسفی کا ذاتی بیان ہے، جو اپنے وقت کی ذہنی گتھیوں کو لفظوں میں کھولنے کی کوشش کرتا ہے۔ ان کی فکر آنے والی نسلوں کے لیے رہنمائی کا ایک روشن تصور رکھتی ہے۔ ان کا علمی ورثہ آج بھی اسی طرح تازہ ہے جس طرح ان کی تحریروں کے پہلے جملے نے قاری کو چونکایا تھا۔
ó
نمونہ کلام
ó
آنکھوں کے ستاروں کو چمکائے ہوئے رہنا
رخسار کے پھولوں کو مہکائے ہوئے رہنا
دزدیدہ نگاہوں سے رہ رہ کہ تکے جانا
کینائے ہوئے رہنا، گھبرائے ہوئے رہنا
اظہار محبت کی جرات نہ کبھی کرنا
سید تیری قسمت ہے پچھتائے ہوئے رہنا
رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق چترال خیبرپختونخوا سے ہے، اردو، کھوار اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ آپ کا اردو ناول ”کافرستان”، اردو سفرنامہ ”ہندوکش سے ہمالیہ تک”، افسانہ ”تلاش” خودنوشت سوانح عمری ”چترال کہانی”، پھوپھوکان اقبال (بچوں کا اقبال) اور فکر اقبال (کھوار) شمالی پاکستان کے اردو منظر نامے میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں، کھوار ویکیپیڈیا کے بانی اور منتظم ہیں، آپ پاکستانی اخبارارت، رسائل و جرائد میں حالات حاضرہ، ادب، ثقافت، اقبالیات، قانون، جرائم، انسانی حقوق، نقد و تبصرہ اور بچوں کے ادب پر پر تواتر سے لکھ رہے ہیں، آپ کی شاندار خدمات کے اعتراف میں آپ کو بے شمار ملکی و بین الاقوامی اعزازات، طلائی تمغوں اور اسناد سے نوازا جا چکا ہے۔کھوار زبان سمیت پاکستان کی چالیس سے زائد زبانوں کے لیے ہفت پلیٹ فارمی کلیدی تختیوں کا کیبورڈ سافٹویئر بنا کر عالمی ریکارڈ قائم کرکے پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں۔ آپ کی کھوار زبان میں شاعری کا اردو، انگریزی اور گوجری زبان میں تراجم کیے گئے ہیں ۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |