سمارٹ بزنس پلان برائے دبئی و امارات
دوبئی دنیا کا میٹروپولیٹن اور کثیرالجہات کاروباری مرکز ہے۔ چونکہ میں گزشتہ 17برس سے دوبئی میں ہوں تو اکثر قارئین دوبئی میں کاروبار کے حوالے سے معلومات مانگتے ہیں۔ بہت سارے تو فون بھی کرتے ہیں اور طرح طرح کے سوالات پوچھتے ہیں۔ ان میں سے بہتوں نے یہ بھی کہا کہ میں انہیں کسی کاروبار کی "فزیبلٹی رپورٹ” بنا کر دوں۔ میری عادت ہے کہ مجھ سے کوئی اخلاقی مدد مانگے تو میں کبھی انکار نہیں کرتا ہوں۔ اس مد میں قارئین کی سہولت کے لیئے میں یہاں ایک مختصر بزنس پلان دے رہا ہوں تاکہ دوبئی یا متحدہ عرب امارات میں کوئی کاروبار شروع کرنا چاہتا ہے تو وہ اس سے استفادہ کر سکے۔
دوبئی میں دنیا کی تقریبا تمام نیشنل اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ہیڈ کوارٹرز ہیں۔ دوبئی کو عربی زبان میں "دبی” لکھا جاتا ہے۔ اردو میں عموما دبئی لکھا ہوتا ہے۔ کسی کسی جگہ (مگر بہت کم)، دوبئی بھی لکھا نظر آتا ہے۔ میں دبئی کی اس کاروباری اہمیت و افادیت کی وجہ سے اسے ہمیشہ دوبئی لکھتا ہوں یعنی ایک واو’ کا اضافہ کرتا ہوں۔ دوبئی اتنا خوبصورت اور پرکشش ہے کہ یہاں جو بھی سیاح پہلی بار آتا ہے وہ بے ساختہ انگریزی کا لفظ "واو” کہہ اٹھتا ہے۔ دوبئی میں واقعی بہت زیادہ کاروباری مواقع ہیں، جہاں پچاس ہزار درہم سے لے کر کئی ملینز تک رقم لگا کر اچھا اور کامیاب کاروبار کیا جا سکتا ہے۔ اندرون اور بیرون دبئی کاروبار کرنے کے لئے پوری دنیا کے لوگ دبئی کا اس لیئے انتخاب کرتے ہیں کہ یہاں منافع کی شرح دنیا کے دوسرے شہروں کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہے، یہ شہر ماسوائے قابل واپسی وی اے ٹی کے، ایک ٹیکس فری کاروباری گڑھ ہے۔ حکومت ان گنت اور آسان سہولیات فراہم کرتی ہے، حکومتی محکمہ جات اور عملہ ہر ممکن تعاون کرتا ہے، نئے بزنس مین کو 100فیصد کاروبار اپنے نام پر رکھنے کی اجازت ہے اور لوکل اس میں کبھی مداخلت نہیں کرتے، جتنی چاہو پراپرٹی اپنے نام پر خریدو اور تمام مقامی اور انٹرنیشنل بنکس وغیرہ کاروبار کرنے کے لیئے لامحدود قرضہ جات بھی دیتے ہیں۔
یہاں کاروبار کو ہوم ورک کرنے کے بعد کم فنڈز سے شروع کرنا زیادہ کارگر اور کامیابی کی ضمانت ہے۔ ابتدائی طور پر کاروبار شروع کرنے کے لیئے صرف اس کاروبار کا انتخاب کرنا چایئے جس میں آپ کو دلچسپی ہو اور اس میں کچھ تجربہ بھی ہو۔ مثال کے طور پر یہاں میں آپ کو دو کاروبار میں سے ایک شروع کرنے کی مختصر فزیبلٹی اور اخراجات کا تخمینہ تیار کر کے دے رہا ہوں۔
اول اردو کتاب گھر کھولنا، دوم بزنس کنسلٹینسی اور بزنس پلانز وغیرہ تیار کر کے دینا اور سوم ایونٹ مینیجنٹ، یعنی تقریبات وغیرہ منعقد کروانے کی کمپنی بنانا شامل ہے۔ ان تینوں کمپنیوں کو لانچ کرنے کے لئے یہ اخراجات فکس ہیں مثلا یوزر آئی ڈی 120 درہم، اکانومی سے ابتدائی منظوری 120، نام لینا 620، دفتر کم و بیش 35000 سالانہ جو عام طور پر چار چیکس میں ہوتا ہے جس میں پہلا کیش چیک ہوتا ہے، دیوا الیکٹریسٹی ڈیپاڑٹ وغیرہ 5000، پانچ فیصد رئیل اسٹیٹ کا کمیشن، پانچ ہی فیصد قابل واپسی ڈیپازٹ، لائسنس کا گورنمنٹ فیسوں کا ووچر اوسطا 18ہزار، امیگریشن اور لیبر کارڈ 1050, انسپیکشن اور کوٹا وغیرہ 900، متفرق 5ہزار اور پی آر او فیس کم و بیش 2ہزار درہم ہوتی ہے۔ کمپنی کس چیز کی بنانی ہے اس کے مطابق لائسنس میں فیسیں کم یا زیادہ آ سکتی ہیں۔ اس میں شاپ کی فٹنگ اور دفتر کی رینوویشن اور فرنیچر وغیرہ کا خرچہ جو 10 سے 30 ہزار تک آ سکتا ہے شامل کریں تو کل ملا کر کتابوں کی دکان کم و بیش 83 ہزار، بزنس کنسلٹینسی 54 اور ایونٹ مینیجنٹ کا لائسنس 42 ہزار درہم تک سو فیصد ملکیت اور لوکل (عربی) کو شامل کیئے بغیر بن جاتا ہے۔ اس سے ابتدائی طور پر کام شروع ہو جاتا ہے۔نئی کمپنی بناتے وقت لوکل کو نہیں ڈالنا چایئے کیونکہ حکومت یہ سہولت دیتی ہے تو اسی سے فائدہ اٹھانا زیادہ سودمند ہے۔
پورے متحدہ عرب امارات اور خاص طور پر دوبئی میں اردو کتابوں کی کوئی دکان نہیں ہے۔ پاکستان سے انڈیا اردو کتابیں نہ ایکسپورٹ ہوتی ہیں اور نہ امپورٹ ہوتی ہیں جبکہ دوبئی میں اردو کتاب گھر کھولا جائے تو کتابیں نہ صرف انڈیا بھیجی جا سکتی ہیں بلکہ یہاں سے کتابیں امریکہ، یورپ اور دیگر ممالک کو بھی بھیجی جا سکتی ہیں۔ پورے امارات میں تمام لائبریریوں میں دبئی اور ابوظہبی سمیت کسی لائبریری میں اردو سیکشن نہیں ہے۔ میں نے اکثر لائبریریوں کا وزٹ کیا ہے وہ تمام لائبریریاں اردو کتابیں خریدینا چاہتی ہیں مگر یہاں کوئی کتابوں کی دکان نہیں ہے جو ان کو کتابیں بیچ سکے جبکہ وہاں سے لاکھوں درہم کا سالانہ آرڈر مل سکتا ہے۔ اردو کتاب گھر کھولا جائے تو آن لائن بھی کتابیں بیچی جا سکتی ہیں۔
بزنس کنسلٹینسی کے کام میں نئے بزنس مینوں کو نیا کاروباری لائسنس بنا کر دینا، کاروبار کے مختلف فیلڈز کے مشورہ جات فراہم کرنا اور انہیں بزنس پلان وغیرہ تیار کر کے دینا شامل ہے
دوبئی میں جو پاکستانی بزنس کنسلٹینسی کا کام کر رہے ہیں وہ پی آر او کی شکل میں غیر پیشہ ورانہ طریقے سے کر رہے ہیں۔ پاکستانی پی آر اوز 90 فیصد سے زیادہ ایجنٹ ہیں جو کمپنیاں بنا کر ویزے بیچنے کے غیر قانونی دھندے میں ملوث ہیں جن کے خلاف حکومت نے کریک ڈاؤن شروع کر رکھا ہے۔ پاکستانی بنکوں سے قرضے لے کر بھی بھاگ جاتے ہیں۔پوری تحقیق کے بعد یک ایماندار اور پیشہ ور ماہر سے ہی کمپنی بنانے اور نیا کاروبار کھولنے کے لیئے رجوع کرنا چایئے۔ اس کام میں بہت سے بددیانت لوگ بھی موجود ہیں۔ حتی کہ اس میں جرائم پیشہ لوگ بھی موجود ہیں۔ اس سے پاکستان کی بہت بدنامی ہوئی ہے اور پاکستان کے روزگار کے ویزوں پر بھی گزشتہ دو سالوں سے پابندی ہے جس کے کھلنے کا ابھی بھی کوئی امکان نظر نہیں آتا ہے۔ پاکستانی پڑھے لکھے وزٹ ویزوں پر یہاں آ کر روزگار تلاش کرتے ہیں مگر پاکستانیوں کے وزٹ ویزوں پر بھی سختی ہے اور پچاس فیصد سے زیادہ ویزے نامنظور (ریجیکٹ) ہو جاتے ہیں۔
بزنس کنسلٹینسی کا باقاعدہ دفتر ہو، اپنا ویب سائٹ ہو, مارکیٹنگ کا ماہر عملہ ہو اور سوشل میڈیا پر مناسب ایڈورٹائزمنٹ کی جائے تو مغربی ممالک اور دیگر عرب ملکوں سے اچھے کسٹومرز پکڑے جا سکتے ہیں۔ دبئی میں کنسٹرکشن، ریسٹورنٹ، ٹرانسپورٹ، ٹورزم اور ٹریڈنگ جیسے دیگر ان گنت کاروبار ہیں جن سے خوب پیسہ کمایا جا سکتا ہے۔ یہاں ایسے پاکستانی بزنس مین بھی ہیں جو روزانہ ایک لاکھ درہم سے بھی زیادہ کی دہاڑی لگاتے ہیں۔ میرے علم میں ایسے کامیاب بزنس مین بھی ہیں جو مزدور کے ویزے پر کسی کمپنی میں آئے اور آج ملینز میں ہیں۔
کاروبار کی کامیابی اور ترقی کا انحصار ایمانداری، کمٹمنٹ، جزبے، محنت، لگن اور ہوم ورک پر ہے۔ دوبئی میں روزانہ درجنوں تعلیمی، کاروباری، ثقافتی، تفریحی اور ادبی پروگرامز وغیرہ ہوتے ہیں، سیمینارز، بحث و مباحثے، جرگے اور کانفرنسز ہوتی ہیں۔ آپ خالی ایک چائے کا کھوکھا لگا کر بھی روزانہ 2ہزار درہم تک (جو پاکستانی روپو’ں میں ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ بنتے ہیں) جیب میں ڈال سکتے ہیں۔ ایونٹ مینیجنٹ کا لائسنس سب سے کم پیسوں میں بنتا ہے۔ اس سے دس سے پندرہ ہزار درہم ماہانہ آسانی سے بچایا جا سکتا ہے۔ میرا ایک دوست کشتیاں فروخت کرتا ہے اور ایک موبائل فون کا ہول سیلر ہے۔ ایک مزدور اور بعض تعلیم یافتہ عمر بھر اتنا نہیں کماتے، جتنا وہ ایک دن کی صرف ایک ڈیل سے کما لیتے ہیں۔ کاروبار کا مالک جس قدر "مہارت” رکھتا ہو اور خود کو جتنا انوالو کرتا ہو، اس کے منافع کی شرح اسی حساب سے بڑھ جاتی ہے۔
Title Image by Keerthi Ramesh from Pixabay

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |