سماج کی خدمت
میری طبیعت کچھ ایسے واقع ہوئی ہے کہ میرے اندر سماجی اٹھان ، معاشرتی فلاح و بہبود اور مفادِ عامہ جیسے اجتماعی کاموں کا جذبہ ” کوٹ کوٹ ” کر بھرا ہوا ہے ۔ یہ جذبہ عموما میرے سینے کے اندر ہی جوش کھاتا رہتا ہے لیکن برسات کے موسم میں یہ اتنی شدت اختیار کرلیتا ہے کہ امڈ کر باہر آجاتا ہے اور پھرپرنالوں کی صورت بہتا ہوا نالیوں سے ہوکر ندی نالے وہاں سے دریا اور آخر سمندر میں جاکر اُس کے پانی میں یوں ضم ہوجاتا ہےکہ "من تو شدم تو من شدی” والا معاملہ بن جاتا ہے۔ایسے میں اگر آپ سمندر کا جائزہ لیں تو آپ یہ اندازہ لگانے سے قاصر رہتے ہیں کہ سمندر کے کھارے پانی کی حد کہاں پہ ختم ہوتی ہے اور میرے جذبے کی شیرینی کی ٹھاٹھیں مارتی موجوں کی یورش کہاں تک کارفرما ہے۔ میرے اندر کا یہی جذبہ تھا جس کی بدولت میں میٹرک سے بی اے تک لگاتار تھرڈ ڈویژن میں نہایت شاندار سپلیز کے ساتھ "امتحان بالاقساط” دے کر پاس ہوتا گیا تاوقتیکہ مجھے ایک یونیورسٹی میں ” تھرو ون ونڈو پراسیس” ایم اے سماجیات یعنی سوشیالوجی میں داخلہ مل گیا۔ میرا میٹرک سے بی اے پاس کرنے تک کے علمی سفر کا دورانیہ ایک محتاط اندازے کے مطابق دس سال اور سات مہینے پر محیط ہے جو ماہرینِ تعلیم کے مطابق اُن ” جینئیس ” لوگوں کی نشانی ہے جو علم گھول گھول کر پیتے ہیں۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ پھر علم بدہضمی نہیں کرتا بلکہ اچھی طرح ہضم ہوکر جسم میں خونِ صالح پیدا کرکےرگ رگ میں دوڑتا ہے اور انسان چلتے پھرتے جب علمی ڈکار مارتا ہے تو ہر علمی ڈکار سے علم کی ایسی خوشبو آتی ہے کہ پوراعلاقہ معطر ہوکر بقعہ گلزار بن جاتاہے۔
میں بی اے کی اعزازی ( آنریری) ڈگری کے بعد اعلیٰ تعلیم کے حصول کیلئے جامعہ کے در پر جا پہنچا اور عرض کی،” بی اے کی گھتیاں سلجھا چکا میں،،، میرے صاحب مجھے ماسٹر کی ڈگری عطا کر”، مگر دوسری طرف ایڈمن صاحب سے جواب آیا،” مینوں نوٹ وکھا میرا موڈ بنے” یعنی اوپن میرٹ پر تو آپ آنے سے رہے البتہ ” ڈونیشن ” یعنی عطیہ جات جمع کروانے والی کھڑکی سے آپ آئیں تو سوچا جا سکتا ہے۔ میرے اندر کیونکہ فلاح معاشرہ کا جذبہ اُس وقت لاوے کی طرح پک رہا تھا اور موسم بھی برسات کا تھا اس لئے ایک دوست سے سواری کیلئے موٹر سائیکل مانگ کر اُسے ایک ” خان صاحب” کے ہاتھوں نقد فروخت کیا اور جو مال ہاتھ آیا اُسے ” ڈونیشن” میں دے کر جامعہ میں اپنی سیٹ ” کنفرم” کرلی۔ میرا دوست اس دھوکہ بازی پر سخت پیچ و تاب کھاتا ہوا میرے پاس آیا تو میں نے اُسے یہ سمجھاتے ہوئے لاجواب کردیا کہ ” جنگ اور محبت میں سب جائز ہے”۔ میں بھی چونکہ معاشرتی ناہمواری کے خلاف جنگ کے ارادے سے نکلا تھا اس لئے میرا یہ اقدام بالکل جائز تھا۔
آپ جب کالج کی گھٹن فضا سے نکل کر رنگ برنگی یونیورسٹی کی فضا میں داخل ہوتے ہیں تو دل و دماغ کا معاملہ بالکل دوسرا ہوجاتا ہے۔ میں کیل کانٹوں سے لیس جب کلاس لینے کے ارادے سے ڈیپارٹمنٹ میں داخل ہوا تو سامنا ایک سینئر سے ہوگیا جس نے ابتدائی تعارف کے بعد مجھے بانہوں سے پکڑا اور ملحقہ گارڈن میں لے آیا جہاں رنگ برنگی تتلیوں اور اُن کے اردگردمنڈلاتے بھنوروں کو دیکھ کر دل گارڈن گارڈن ہوگیا۔ میں اس رنگین فضا کے مست ماحول میں ڈوبا مستقبل کے سماجی نقشے اور اُس کے عناصر کی باہمی ترتیب پر غور کر ہی رہا تھا کہ اُس نے مجھے ٹہوکا” اے سن! اس سے بچ کر رہنا۔ بڑا ہی کوئی ڈرائی قسم کا انسان ہے”۔ میں نے حیرت سے آنکھیں جھپکاتے ہوئے دیکھا تو ایک سفید شلوار قمیص میں ملبوس انسان نگاہیں جھکائے قدم سے قدم ملائے اندر جا رہے تھے جن کا نام مجھے” ڈاکٹر اللہ یار المعروف ڈاکٹر ڈرائی” بتایا گیا جو یہاں کے سینئر پروفیسر تھے۔وہ جب اندر داخل ہوگئے تو کچھ دیر بعد پھر ایک ” ینگ مین” قسم کے صاحب تشریف لاتے دکھائی دیے جن کے بارے میں ” راوی” نے بتایا کہ ان کا نام ” ڈاکٹر ماڈ شاٹ ” ہے اور کئی سالوں سے ” بھنورالوجی” میں ” پی ایچ ڈی” کرنے کی کوشش میں لگے ہیں مگر ابھی تک ” نشانہ” ٹھکانے پر نہیں بیٹھ رہا ۔اُن سے مل کر احساس ہوا کہ ” دل سے دل ملا زندگی مسکرا دی” ۔ میں چونکہ پہلے ہی کالج کی ” خشک” فضا سے اکتا چکا تھا اس لئے اپنے سینئر کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے پورے دو سال ” ڈاکٹر اللہ یار” صاحب سمیت تمام اساتذہ سے اتنا دور رہا کہ اُن کے علمی افکار کے ایک ” چھینٹے” سے بھی اپنے دامن کو آلودہ نہیں ہونے دیا ۔ اس کے برعکس سر ” ماڈ شاٹ” کی محافل میں ہمہ وقت خشو ع و خضوع کے ساتھ باجماعت حاضر رہتا اور اُن کی خدمتِ عالیہ میں رہ کر سماجی خدمت کے طریقے جیسے ،” تتلیوں کی اقسام، تتلیوں کو شکار کرنے کے طریقے، تتلیوں کی مدد کرنے میں پیش پیش رہنے کا ہنر، ایک سے زائد تتلیوں پر نظر رکھنے کے فوائد، بھنورا بازی کے ابتدائی اسباق، بھنورا بازی کی راہ میں حائل رکاٹیں اور اُن کا حل، بھنورا بازی اور سماجیات میں تعلق، بھنورا بازی میں سریلے گلے کا استعمال ،بھنورا بازی اور پولیس کی لاٹھی کا تقابلی جائزہ "وغیرہ شامل تھے جن میں ابتداء کے اندر مجھے کچھ مسائل کا سامنا کرنا پڑا جیسے ” ہائی ہیلز سے ٹھکائی ، کتابوں سے دھلائی” کے علاوہ ” تین چار مرتبہ تھانے شریف کی پابجولا حاضری” بھی شامل ہے۔ میں پہلی مرتبہ جب تھانے شریف ” پابجولا” حاضر ہوکر ” شب گزاری” کی نعمت سے سرفراز ہوا اُس وقت مزید تین ہم مکتب ” بھنورے” بھی میرے ساتھ تھے اور اگلے دن جب ” مسٹر ماڈ شاٹ” اپنی ٹیم کے ساتھ ملنے آئے تو ہم سب اپنے جسموں کو سہلا رہے تھے اور درد سے کراہ رہے تھے۔اُنہوں نے ہم سے کمال شفقت اور محبت سے پوچھا،” رات کوئی تکلیف تو نہیں ہوئی؟”۔ ہم سب نے گریہ زاری کرتے ہوئے صرف اتنا شکوہ کیا،” حضور! ہمیں بس یہاں سے لے چلیے۔ بخدا کوئی تکلیف نہیں ہے سوائے آپ کی جدائی کے۔ آپ کی فرقت میں جو گھڑیاں گزر رہی ہیں اُن کا ملال ستائے جارہا ہے اور قلب ِ مضطر اب تقاضا کر رہا ہے کہ جلد سے جلد یہاں سے کوچ کرو۔ یہ منزل نہیں بلکہ عارضی پڑا ؤ ہے”۔ مسٹر ” ماڈ شاٹ” نے سُن کر تسلی دیتے ہوئے فرمایا،” راہِ بھنورا بازی میں یہ صعوبتیں قدم قدم پر درپیش آتی ہیں جوطالبِ صادق کی روحانی ترقی کا سبب بنتی ہیں ۔اگر یہ مسائل اور مشکلات نہیں آئیں گی تو جیل کی آنے والی منازل کو کیسے طے کروگے۔ پس عاشقِ صادق کیلئے لازم ہے کہ وہ استقامت اختیار کرے اور شکوہ شکایت سے اجتناب برتتے ہوئے لبوں کو یوں سی لے کہ چالیس چالیس ” چھتر” کھانے کے بعد بھی م” اوئی میں مرگیا” جیسے کلماتِ ناخوشگوار منہ سے ادا نہ ہونے پائیں”۔ ہم سب ” سالکانِ صادق ” نے اُن کی پند و نصیحت کو گرہ سے ایسا باندھا کہ پھر کئی کئی چھتر ، ہیلز اور چماٹ کھانے کے بعد بھی عزم و استقلال میں سرِ مو فرق نہ آیا۔ اسی استقلال ، جرات ، عزم اور لگن کا نتیجہ تھا کہ پانچویں مرتبہ ” تھانےشریف” کی ہوا کھانے اور روحانی منازل طے کرنے کیلئے ” چھتر شریف” سے ” تشریف شریف” کو رنگوانے کے بعد جب ڈیپارٹمنٹ پہنچے تو ” مسٹر ماڈشاٹ” سمیت پوری ” جماعتِ بھنوریہ” کا بوریا بستر گول کرنے کا نوٹس ” مناسب مقام پر آویزاں” تھا جسے دو مرتبہ پورے ہوش وحواس سے پڑھ کرگھر کی راہ لی اور اب اُس دوست کے موٹر سائیکل کا قرض اتارنے کیلئے ” بائیکیا” چلا رہا ہوں اور سماج کی خدمت میں اپنا حصہ ڈال رہا ہوں۔

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |