عاصم بخاری کی رومانوی شاعری
محقق۔۔۔مقبول ذکی مقبول بھکر
سینے میں اسکے بھی ، دھڑکتا دل
رو میں جذبات کی، بھی بہتا ہے
تیرا شاعر بخاری ، یہ عاصم
شعر رومانوی ، بھی کہتا ہے
عاصم بخاری کا غالب تعارف ان کے اسلوب ان کے شعری مزاج رویوں اصلاح اخلاق اور طنز وغیرہ کے حوالے سے زیادہ ہے لیکن ایک گوشہ جو کہ تاحال شعر و ادب کے شائقین کے سامنے لانا باقی تھا جو کہ پیش ِ خدمت ہے۔
عاصم بخاری ذوق ِ لطیف کی مالک نستعلیق شخصیت ہیں ترنم و تغزل سے خوب آشنا ہیں۔زمانہ ء طالب علمی سے مترنم نعت کلام ِ اقبال ملی نغمے اور غزل وغیرہ پر اثر ترنم سے اپنے حصے میں رکھتے ہیں۔ان کے اندر بھی دھڑکتا دل موجود ہے۔ان کے اندر بھی فطرت مناظر وطن دیس علاقہ کی محبت کے جذبات اور خیالات پاۓ جاتے ہیں۔قدرتی مناظر انہیں متاثر کرتے ہیں اور اپنے جذبات کے اظہار کے لیے انہیں شعری اظہار کی دولت سے مالامال کیا ہے۔
حسن کی تاثیر کی کس خوب صورت پیرائے میں تصویر پیش کرتے ہیں۔
قطعہ ملاحظہ ہو۔
یوں ہی بد نام ہیں ، فقط ڈاکو
لوٹ لیتے ہیں حسن ، والے بھی
پَلے ککھ بھی نہ چھوڑتے عاصم
تِل یہ رخسار ، والے کالے بھی
میانوالی کے قدرتی مناظر کابیان کن خوب صورت الفاظ میں کرتے ہیں۔شعر دیکھیۓ۔
قدرتی حسن تیرا ” کالا باغ”
تو میاں والی کا سوئٹزر لینڈ
شاعر کا وجدان اوعر تخیل کی بلند پروازی قاری کو وہ کچھ محسوس کراتی ہے جس سے کہ وہ صرف ِ نظر کر چکا ہوتا ہے۔
تتلیاں پھول کب سدا بھنورے
جلوے رہتے نہیں ، اداؤں کے
بات یہ ذہن میں ، مری رکھنا
رخ بدلتے بھی ہیں ہواؤں کے
گاؤں کا فطری حسن اور فضا بڑی مسحور کن ہے عاصم بخاری
اس کی سادگی خلوص اور فطری و قدرتی فضا کو بہت پسند کرتا ہے۔گاؤں کی قناعت پسندی اور فرصت کا ذکر اچھے لفظوں میں کرتا ہے کہ گاؤں میں ابھی احترام ِ آدمیت و انسانیت باقی ہے جوکہ اس کا بہت بڑا وصف ہے۔
قطعہ ملاحظہ ہو۔
پیار الفت خلوص ، پائے گا
فطری سب اہتمام ، گاؤں میں
پیسہ شہروں میں ہے بہت مانا
عزت و احترام ، گاؤں میں
ماظر ِ فطرت میں دریا پہاڑ چاندنی بادل عاصم بخاری کے ذوق ِلطیف کو بہت متاثر کرتے ہیں۔جس پر ان کے دل کے تار فورا”چھڑ جاتے ہیں اور اس مضوع پر بے ساختہ شعر چھلک پڑتے ہیں
دریا کنارے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فردوس کی خوشبو ہے کہ ، جنت کے نظارے
ساحل کی ہوا اور ، کھلے گیسو تمہارے
بے تاب نہیں چاند ، فقط دید کی خاطر
جھک جھک کے تجھے تکتے ہیں افلاک کے تارے
اے حسن کی دیوی ، تری تعظیم کی خاطر
دریا کی ہر اک لہر ، قدم چومے تمہارے
قاتل ہیں مری جان ، تری ساری ادائیں
اس دل کو لبھائیں ترے ، ابرو کے اشارے
اس دل نے تو ہر حال ، یہی ٹھان لیا ہے
جینا ہے تو جینا ہے ، فقط تیرے سہارے
دل کہتا ہے ساتھ ، اس کا ہو اور چاندنی راتیں
آ عمر بِتا دیں سبھی اِس ” دریا کنارے”
عاصم بخاری حسن اور اس چند روزہ پھول کے جیسی عارضی اور مختصر زندگی سے فنا کا کس چابک دستی سے درس دیتے دکھائی دیتے ہیں۔قطعہ ملاحظہ ہو
یہ حسیں مَہ جبین، بھی عاصم
دائمی نیند سو ، ہی جائیں گے
ایک دن دودھیا ، بدن یہ بھی
خاک میں خاک ہو ہی جائیں گے
خاری کو فطرت سے پیار ہے۔موسم اسے بھاتے ہیں۔ ہر موسم میں یہ اپنے جذبات کر اظہار اپنے رنگ میں ہر بار نئے انداز سے کرتا دکھائی دیتا ہے۔بہار کاموسم کی مناسبت سے اشعار دیکھیۓ
زندگی کا نکھار ، کا موسم
تیرے جوبن سنگھار ، کا موسم
ہرطرف سبزہ پھول خوشبوئیں
کتنا پیارا بہار ، کا موسم
ایک اور قطعہ اسی مزاج کا قارئین کی نذر
ہے یہ فطری نکھار ، کا موسم
تیرے جوبن سنگھار ، کا موسم
ہرطرف سبزہ پھول خوشبوئیں
کتنا پیارا بہار ، کا موسم
محبوب کا سراپا حسن کا پیکر مجسم اور جزیات نگاری میں عاصم بخاری اوج ِ کمال پر دکھائی دیتے ہیں۔فظ مہ جبیں کو انھوں نے کس شاعرانہ قدرت سے فصاحت و بلاغت کا کیا خوب ذائقہ پیش کیا ہے
یوں ہی پڑھتے رہے ، کتابوں سے
معنی اس لفظ کے ، مرے بھائی
تیری پیشانی جب سے دیکھی ہے
مہ جبیں لفظ کی ، سمجھ آئی
فطرت کا حسن چاہے جس صورت میں بھی ہو عاصم بخاری متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ پاتے اور پر آمد کاسلسلہ جاری ہو جاتا ہے۔کیا دل کش منظر کشی اور محاکات نگری دیکھیں۔
“دریا کنارے”
۔۔۔۔۔۔
(عاصم بخاری میانوالی)
فردوس کی خوشبو ہے کہ جنت کے نظارے
ساحل کی ہوا اور ، کھلے گیسو تمہارے
۔۔۔۔۔۔۔۔
بے تاب نہیں چاند ، فقط دید کی خاطر
جھک جھک کے تجھے تکتے ہیں افلاک کے تارے
۔۔۔۔۔۔۔
اے حسن کی دیوی ، تری تعظیم کی خاطر
دریا کی ہر اک لہر ، قدم چومے تمہارے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قاتل ہیں مری جان ، تری ساری ادائیں
اس دل کو لبھائیں ترے ابرو کے اشارے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اِس دل نے تو ہر حال ، یہی ٹھان لیا ہے
جینا ہے تو جینا ہے ، فقط تیرے سہارے
۔۔۔۔۔۔۔۔
دل کہتا ہے ساتھ اس کا ہو اور چاندنی راتیں
آ ، عمر بِتا دیں ، سبھی اس “دریا کنارے”
Title Image by Melk Hagelslag from Pixabay
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔