صمود فلوٹیلا پر احتجاج اور پاکستانیوں کی رہائی کا امکان
یہ پہلا موقعہ ہے کہ جب ایک پاکستانی سینیٹر اور ایک عام پاکستانی شہری گرفتاری کے بعد اسرائیل کی قید میں ہیں۔ سینیٹر مشتاق احمد خان کا تعلق صوابی سے ہے جو سنہ 2014ء میں سینیٹر بنے تھے۔ وہ فلسطینی کاز کے لیئے کئی بار گرفتار ہوئے۔ ان پر دہشت گردی کے مقدمات بھی قائم ہوئے، انہوں نے امریکی سفارت خانہ کی طرف مارچ کیا اور کچھ عرصہ قید و بند کی سعوبتیں بھی برداشت کیں۔ جبکہ سیہونیوں کے ہاتھوں دوسرے گرفتار ہونے والے پاکستانی شہری کا نام سید عزیر نظامی ہے جن کی عمر 32 سال ہے۔ ان کا تعلق لاہور سے ہے اور وہ پرفیومز کے کاروبار سے وابستہ ہیں۔ وہ بھی دعوت دین اور فلسطین بھائیوں سے ہمدردی میں مصروف کار رہے ہیں اور اس مد میں انہوں نے بھی کئی بار تکالیف برداشت کی ہیں۔
اسرائیل نے عالمی دباؤ کے پیش نظر گلوبل صمود فلوٹیلا کی کشتیوں سے تحویل میں لئے گئے 50 ممالک کے 470 افراد کو ڈی پورٹ کرنے کا عمل شروع کر دیا ہے، جنہیں دو روز قبل تحویل میں لے کر اسرائیل منتقل کیا گیا تھا۔ اسرائیلی وزارتِ خارجہ نے تصدیق کی ہے کہ تحویل میں لئے گئے 4 اطالوی شہریوں کو ڈی پورٹ کر دیا گیا ہے اور باقی افراد کو ڈی پورٹ کرنے کا عمل بھی جاری ہے۔ تاہم ابھی اس قافلے میں گرفتار ہونے والے دو پاکستانی شہریوں کو ڈپورٹ کرنے کے بارے میں کوئی اطلاعات موصول نہیں ہوئی ہیں۔
یہ قافلہ دنیا بھر کی انسانی حقوق کی تنظیمیں پر مشتمل تھا جس کی سربراہی پاکستانی سینیٹر مشتاق احمد خان کر رہے تھے۔ امن کے سفراء اور انسانی حقوق کے کارکنان کا یہ قافلہ تقریباً 45 کشتیوں (اور جہازوں) پر مشتمل تھا۔ ان کشتیوں پر مشتاق احمد کے علاوہ سویڈن کی ماحولیاتی مہم چلانے والی معروف شخصیت گریٹا تھنبرگ بھی سوار تھیں۔ یہ قافلہ گذشتہ ماہ سپین سے روانہ ہوا تھا تاکہ فلسطینی علاقے کی مسلسل اسرائیلی ناکہ بندی کو توڑا جا سکے، جہاں اقوام متحدہ کی اطلاعات کے مطابق قحط پڑ چکا ہے۔ یہ قافلہ امدادی سامان لے کر غزہ کی طرف رواں دواں تھا جب اسے اسرائیل کی بحری فوج نے روک لیا۔ پہلے ان کشتیوں پر اسرائیلی فوجیوں نے ڈرونز گرائے، پانی کی پوچھاڑ کی اور پھر انہوں نے کشتیوں میں داخل ہو کر اور عالمی انسانی قوانین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اس امدادی قافلے پر بندوقیں تان کر اسے گرفتار کر لیا۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے دو روز قبل غزہ کے لئے انسانی امداد لے جانے والے کشتیوں کے قافلے’صمود غزہ فلوٹیلا‘ پر اسرائیلی سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں گرفتار ہونے والے پاکستانی شہریوں کی واپسی کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ حکومتِ پاکستان انسانی جان کے احترام، محفوظ رسائی اور بلا تعطل امداد کے اصولوں کی حمایت کرتی ہے اور اپنے شہریوں کی واپسی کا بھرپور مطالبہ کرتی ہے۔ اس قافلے میں سینیٹر مشتاق احمد خان صاحب، مظہر سعید شاہ صاحب، وہاج احمد صاحب، ڈاکٹر اسامہ ریاض صاحب، اسماعیل خان صاحب، سید عزیز نظامی صاحب اور فہد اشتیاق صاحب سمیت دیگر پاکستانیوں نے انسانی ہمدردی کے اصولوں کے عین مطابق اس عظیم امدادی مشن میں حصہ لیا تھا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے ایکس پر ایک بیان میں کہا کہ، "میں صمود غزہ فلوٹیلا میں پاکستان کے شہریوں کی باوقار شرکت کو سراہتا ہوں۔
انہوں نے مزید کہا کہ "یہ اقدام پاکستانی عوام کی امن پسند امنگوں، انصاف کے لئے جدوجہد، اور ضرورت مندوں کی مدد کے جذبے کی نمائندگی کرتا ہے۔ حکومتِ پاکستان انسانی جان کے احترام، محفوظ رسائی، اور بلا تعطل امداد کے اصولوں کی حمایت کرتی ہے اور اپنے شہریوں کی واپسی کا بھرپور مطالبہ کرتی ہے اور ان کی سلامتی، وقار اور جلد از جلد وطن واپسی کے لیے دعاگو اور کوشاں ہے۔” پاکستان کے نائب وزیر اعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے گذشتہ روز بتایا کہ غزہ کے لئے انسانی امداد لے جانے والے کشتیوں کے قافلے ’صمود فلوٹیلا‘ پر اسرائیلی فورسز کے ہاتھوں گرفتار ہونے والے سابق سینیٹر مشتاق احمد اور سید عزیر نظامی کی واپسی کے لئے پاکستان نے ایک یورپی ملک سے مدد مانگی ہے۔
وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے قومی اسمبلی کو آگاہ کیا چونکہ پاکستان کے اسرائیل سے سفارتی تعلقات نہیں ہیں لہٰذا ہم نے اس معاملے میں ایک یورپی ملک کی مدد مانگی ہے۔ انہوں نے کہا کہ "جیسے ہی یہ خبر آئی، ہم نے ایک بااثر یورپی ملک سے رابطہ کیا اور اس سے کہا کہ وہ اسرائیل سے رابطہ کر کے پاکستانیوں کی جلد از جلد رہائی کو یقینی بنائے۔ اس یورپی ملک کے وزیر خارجہ نے پاکستان کو بتایا کہ یہودیوں کے سبت (ہفتے کا دن) کی وجہ سے وہ اس دن کام نہیں کرتے، لہٰذا وہ اتوار تک ہمیں اس بارے میں آگاہ کریں گے۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ پاکستان کی وزارت خارجہ اس معاملے میں پوری طرح سرگرم ہے اور "ہم بھرپور کوشش کر رہے ہیں کہ دونوں پاکستانیوں کو جلد از جلد اور عزت و احترام کے ساتھ وہاں سے نکال کر واپس لایا جائے۔”
جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر مشتاق احمد نے گرفتاری سے پہلے اپنے آخری ٹیلیفونک پیغام میں کہا تھا کہ اچھی خبر ہے کہ ڈھائی تین ہزار کلو میٹر کا سفر 20 دن اور 20 راتوں میں طے کرتے ہوئے ہم غزہ کے بہت قریب پہنچ چکے ہیں، غزہ کے ساحل سے اب ہمارا فاصلہ 2 ہندسوں میں ہے۔ اب ہم سر زمین جہاد، غزہ پہنچ رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی حادثہ پیش نہ آیا تو اگلے 6 سے 7 گھنٹوں میں ہم غزہ پہنچ جائیں گے۔ سابق سینیٹر کا کہنا تھا کہ اسرائیل کے بحری جہازوں نے ہمیں گھیرے میں لیا ہوا ہے، اسرائیلی ڈرونز ہمارے سروں کے اوپر ہیں، ہم پوری رات سو نہیں سکے، لیکن ہم بےخوف ہیں، ہم موت کے اوپر حاوی ہو چکے ہیں، ہم موت سے آگے اور موت ہمارے پیچھے ہے، الحمدللّٰہ ہم اللّٰہ کی مدد سے غزہ پہنچ کے رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری اس کشتی کا نام "یافا” ہے لیکن میں اسے "یحیحیٰ سنوار” کہتا ہوں، جس کے اوپر "سبز ہلالی پرچم” لگا ہوا ہے۔ ایک اور ویڈیو میں سابق سینیٹر مشتاق احمد نے کہا جب آپ یہ ویڈیو دیکھ رہے ہوں گے اس وقت تک اسرائیل نے ہم پر جارحیت کی ہو گی، ہم گرفتار ہو چکے ہوں گے یا قتل کر دیئے گئے ہوں گے۔ ہمیں اپنی گرفتاری اور قتل کا کوئی خوف نہیں اللّٰہ نے ہمیں ہر خوف سے آزاد کر دیا ہے۔”
گزشتہ روز جماعت اسلامی اور جمیعت علمائے پاکستان نے سینیٹر مشتاق احمد اور سید عزیر نظامی سمیت تمام یرغمالیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ سینیٹر مشتاق احمد کی زوجہ حمیرا طیبہ نے بتایا کہ ان کے شریک حیات نے آخری پیغام میں کہا کہ،
"میں مر جاؤں تو مجھے فلسسطین میں کسی خوبصورت پھول کے سائے میں دفن کر دینا۔” سینیٹر مشتاق احمد نے اسلام آباد میں فلسسطینی عوام کے لئے کئی بار احتجاج کیا۔ اب وہ اسرائیل کے قبضے میں ہیں، اسرائیل ان کے ساتھ کیا سلوک کرے گا، اس کے بارے میں ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے۔ بعض ممالک کے سربراہان نے باقاعدہ اعلان کیا ہے کہ اگر اسرائیل نے ہمارے لوگوں کے ساتھ کچھ کیا تو ہم باقاعدہ کارروائی کریں گے۔ اب دیکھتے ہیں کہ ہمارے حکمران کیا کرتے ہیں؟ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم سب گھروں سے نکلیں اور مشتاق احمد صاحب اور ان کے ساتھ دیگر پچاس ممالک کے رضاکاروں کی فوری رہائی کے لئے آواز بلند کریں۔ آئیے اس میں حصہ لیں اور پاکستان کے حکمرانوں کو آواز بلند کرنے پر مجبور کریں۔
صمدد فلوٹیلا پر اسرائیلی حملہ انسانیت کی سراسر خلاف ورزی ہے”، ان خیالات کا اظہار مختلف تنظیموں، طلبا اور اساتذہ نے کیا۔ انہوں نے غزہ سے اظہار یکجہتی اور ٹرمپ امن منصوبہ کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کے دوران میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اسرائیلی حملے کی شدید مذمت کی۔ جمیعت علمائے اسلام اور جماعت اسلامی کے رہنماوں نے کہا کہ اسرائیل نے ظلم کی تمام حدود پار کر دی ہیں امت مسلمہ بالخصوص پاکستان کو اس مسئلے پر بھرپور کردار ادا کرنا چاہئے۔ غزہ میں اسرائیلی بربریت انسانی حقوق کی سراسر خلاف ورزی ہے۔ ریلیوں میں تنظیمی ذمہ داران، طلبا اور اساتذہ سمیت شہریوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔
صائمہ کامران نے سینیٹر مشتاق احمد کے لیئے ہدیہ توفیق لکھا ہے:
لگتا ہے اک صاحب کردار تمہی ہو،
ہر حرف ستائش کے بھی حق دار تمہی ہو۔
اس قوم کی جانب سے کیا فرض کفایہ
بے خوف نڈر صاحب اسرار تمہی ہو۔
کس شان سے چلتے ہو تم مقتل کی فضا میں،
حیدرؑ کی سناں, سعد کی تلوار تمہی ہو۔
لرزاں ہے دلیری پہ نیزہ یزیدی،
اس دور میں شبیر کا انکار تمہی ہو۔
مشتاق ترے نام کو تاریخ لکھے گی,
بے بس کے لیئے سچے عزادار تمہی ہو۔

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |