پاک وزڈم ہاؤس کے قیام کی تجویز
میں ان سطور کے ذریعے اہل فکر اور ارباب اختیار کو دعوت دینا چاہتا ہوں کہ وہ اپنی صلاحیتوں اور وسائل کو پاکستان کی ترقی اور اسے دنیا کی عظیم ترین قوم بنانے کے لیئے کوئی "بڑا قدم” اٹھائیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیئے قومی سوچ و فکر اور اجتماعی لائحہ عمل کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ پاکستان اور دنیا بھر میں جہاں بھی پاکستانی آباد ہیں ان کے اندر "پاکستانی قومیت” کا یہ جذبہ پہلے ہی سے بدرجہ اتم موجود ہے، اب ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ اس قوت کو مجتمع کیسے کیا جائے؟
اس سے قبل انہی صفحات کے ذریعے 30 مئی 2025ء کو "سفیر پاکستان اک نظر اس طرف” کے عنوان سے محترم جناب فیصل نیاز ترمذی صاحب کو ایک گزارش نامہ بھجوایا تھا جس میں یہ تجویز دی تھی کہ اس نصب العین کو حاصل کرنے کے لیئے متحدہ عرب امارات میں موجود عام پاکستانیوں، لکھاریوں، دانشوروں اور ادیبوں وغیرہ کو یکجا کرنے کے لیئے ایک پلیٹ فارم کا قیام عمل میں لایا جائے جہاں بیٹھ کر یہ پاکستانی مادر ملک کو درپیش مسائل اور ان کے حل کے بارے میں سوچیں، بحث و مباحث، مزاکرے اور کانفرنسز وغیرہ کریں اور پھر ان کی روشنی میں حکومتوں کو ترقی کرنے کی سفارشات، سمریاں اور لائحہ عمل وغیرہ بھجوایا کریں۔ سفیر پاکستان نے تو اس سلسلے میں تاحال کوئی مثبت جواب نہیں دیا ہے، لیکن امارات اور سعودی عرب سے چند خواتین نے اس منصوبے کو عملی شکل دینے کے حوالے سے بڑی حوصلہ افزائی فرمائی اور تعاون کا مکمل یقین دلایا۔ اس معاملے کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ سفیر پاکستان کے علاوہ میرے مرد قارئین میں سے بھی کسی نے رابطہ نہیں کیا۔ تاہم جن خواتین نے تعاون کرنے کی پیشکش کی ان میں سعودی عرب سے ڈاکٹر محترمہ سمیرا عزیز، کراچی سے صائمہ صمیم، شارجہ سے ڈاکٹر نورالصباح اور دبئی سے اسماء جان محمد سرفہرست ہیں۔ ڈاکٹر سمیرا عزیز سعودی نیشنل ہیں۔ انہوں نے کراچی یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی اور وہ اردو زبان کی اعلی پائے کی لکھاری، ادیبہ اور شاعرہ ہیں۔ محترمہ صائمہ صمیم فکشن رائٹر اور شاعرہ ہیں اور کراچی میں آئے روز ادبی تقریبات منعقد کرواتی ہیں، جبکہ اس مد میں وہ متحدہ عرب امارات میں بھی کافی دفعہ آ چکی ہیں۔ ڈاکٹر نورالصباح پیشے کے اعتبار سے متحدہ عرب امارات میں عجمان کے ایک ہسپتال میں ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہیں اور نامور کاروباری شخصیت بھی ہیں۔ وہ اپنے "چائے شائے ریسٹورنٹس” کی برانچوں میں ہر دوسرے تیسرے ماہ کوئی نہ کوئی ادبی تقریب منعقد کرواتی ہیں اور خاص طور پر وہ شعراء کی جی بھر کر حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔ وہ بہترین مقرر بھی ہیں اور انہیں پاکستانی سکول دبئی، پاکستان ایسوسی ایشن دبئی اور پاکستان سوشل سنٹر شارجہ میں کئی دفعہ سن چکا ہوں۔ جبکہ محترمہ اسماء جان محمد پیشے کے اعتبار سے تو دبئی کی کسی فرم میں چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ ہیں مگر وہ ابھرتی ہوئی نوجوان موٹیویشنل رائٹر ہیں جنہوں نے انگریزی زبان میں "مایاز پیراڈاکس”، "شور” اور "ریفلیکشنز” جیسی مشہور اور بیسٹ سیلر کتابیں لکھی ہیں۔
یہ قانون فطرت ہے کہ چیزیں اگر ایک جگہ اکٹھی ہو جائیں یا انہیں ایک مقام پر جمع کر دیا جائے تو وہ اپنے اندر ایک عظیم الشان طاقت کو جنم دیتی ہیں۔ کسی بھی ملک، قوم اور معاشرے کے ذہین طبقہ کو اکٹھا کر کے ترقی کا یہ راز افشا کیا جا سکتا ہے کہ ملکی ماحول، مواقع اور ذہانت کو مدنظر رکھ کر ترقی کیسے کی جا سکتی ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ دنیا میں کچھ مزہبی، سیاسی اور تعلیمی انقلابات ایسے بھی آئے ہیں کہ جن کی بنیاد رکھنے اور لیڈ کرنے والی عظیم ہستیاں اپنے آبائی ملک سے باہر تھیں۔ خاص طور پر الہامی پیغام رسانی اور اصلاح معاشرہ کے لیئے انبیاء کرام اور بزرگان دین کو ہجرت جیسے تکلیف دہ تجربات سے گزرنا پڑا جب انہوں نے ایمان لانے اور اپنے چاہنے والوں کی تلاش میں اپنے آباء و اجداد کے ملک اور شہر کو خیر آباد کہا۔ اس کی تاریخ ساز مثال نبی مکرم ﷺ کی ہجرت مدینہ ہے جہاں سے پورا عرب فتح ہوا اور جس کے بعد اسلام کی روشنی پوری دنیا میں پھیلانا شروع ہوئی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مقام اور جگہ کوئی بھی ہو اللہ تعالی کی ذات جب کسی قوم کو نوازتی ہے تو اس میں کچھ خاص شخصیات کا انتخاب کرتی ہے، جو ایسے انقلابی قدم اٹھانے کی ابتداء کرتے ہیں۔
انسانی ترقی کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ کوئی بھی بڑی "تبدیلی” یا "انقلاب” لانے کے لیئے پہلا قدم اٹھانا ہی مشکل ہوتا ہے جس کے بعد لوگ آنا شروع ہو جاتے ہیں اور "قافلہ” بنتا چلا جاتا ہے۔ ایک جرمن فلاسفر کا قول ہے کہ جب وہ گہرا غوروخوض کرتے تھے تو دنیا کے حقائق ان کے سامنے ننگا ناچنے لگتے تھے۔ پاکستان سے باہر بیٹھے اور ملک کے لیئے درد دل رکھنے والے پاکستانیوں کو اکٹھے بیٹھ کر سوچنے اور دنیا کے اسرار و رموز منکشف کرنے کا موقع ملنا چایئے۔ میں ملک سے باہر ذہانت کی منتقلی پر اکثر لکھتا رہتا ہوں۔ تاہم سمندر پار پاکستانی پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرتے ہیں جو سالانہ اربوں ڈالرز کا زرمبادلہ پاکستان بھجواتے ہیں۔ لیکن ان کی اجتماعی ذہانت اور صلاحیتوں کو معیشت کی مضبوطی کے علاوہ بھی کیش کرنے کی کوئی سبیل نکالی جانی چایئے جس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ان کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کا آغاز کیا جائے۔
پاکستان کی محبت سے سرشار سعودی عرب کی قومیت رکھنے والی ڈاکٹر سمیرا عزیز کے علاوہ اماراتی نیشنل ڈاکٹر محمد زبیر فاروق بھی پاکستان سے بہت محبت کرتے ہیں۔ انہوں نے کراچی میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کیا اور وہیں سے اردو سیکھی۔ انہوں نے اردو شاعری کی درجنوں کتابیں تحریر کی ہیں۔ ڈاکٹر زبیر فاروق کو 2013ء میں حکومت پاکستان نے "نشان امتیاز” سے نوازا تھا۔ اس وقت پاکستان کے صدر آصف علی زرداری صاحب تھے اور آج بھی اتفاق سے پاکستان کے صدر آصف علی زرداری صاحب ہیں۔ میں انہی کالموں میں ڈاکٹر زبیر فاروق اور ڈاکٹر سمیرا عزیز کی خدمات کا پہلے بھی زکر کر چکا ہوں۔ پاکستان سے خصوصی لگاؤ رکھنے والی ان دو عرب شخصیات کے علاوہ متحدہ عرب امارات، دیگر خلیجی ریاستوں اور حتی کہ دنیا بھر میں بہت سے دوسرے غیرملکی بھی ہیں جو پاکستان سے بہت زیادہ محبت کرتے ہیں جن کو آرگنائزر کر کے پاکستان کے حق میں بہترین "سفارت کاری” کا فریضہ انجام دیا جا سکتا ہے۔
گزشتہ اظہاریہ لکھنے کے بعد اس مد میں ڈاکٹر سمیرا عزیز نے خصوصی دلچسپی ظاہر کی تھی اور مجھے تجویز دی تھی کہ "پاکستان وذڈم ہاوس” کی طرز پر پاکستان اور دنیا بھر میں ایسے "دانش سنٹرز” قائم کیئے جانے چایئے۔ پاکستانی سفارت خانوں کے پاس پاکستانی ترقی کے لیئے ایسے منصوبوں پر خرچ کرنے کے لیئے خصوصی فنڈز ہوتے ہیں۔ اگر اس تجویز پر عمل کر لیا جاتا ہے تو یہ پاکستان کی ترقی اور اسے واقعی عظیم قوم بنانے کے لیئے ایک بہت بڑی پیش رفت ہو گی۔
دنیا میں ترقی کی جست لگانے کے لیئے پہلا قدم اٹھانا ہی مشکل ہوتا ہے پھر چاہے ایک ملین مائلز کا سفر ہی کیوں نہ ہو وہ اسی ایک قدم کے اٹھانے کے بعد ہی طے ہوتا ہے۔ یہ پہلا قدم پاکستانی ترقی کی تاریخ میں ایک "سنگ میل” کی حیثیت اختیار کر سکتا یے۔ میں ارباب اختیار اور اہل دانش طبقہ سے امید کرتا ہوں کہ وہ میری اس گزارش پر ضرور ہمدردانہ غوروفکر کریں گے۔ ایسی مثبت اور تعمیری تجاویز پر عمل کرنے ہی سے قوموں کی تقدیر بدلتی ہے۔ "اے بسا آرزو کہ خاک نہ شدہ۔” اللہ کرے کہ اس بار اس تجویز کو شرف باریابی حاصل ہو۔

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |