PEOPLE OF DETERMINATION

“PEOPLE OF DETERMINATION”

Dubai Naama

PEOPLE OF DETERMINATION

جب پاکستان ایجوکیشن اکیڈمی دبئی کی روح رواں محترمہ صائمہ نقوی نے 3محرم 22جولائی کے “پیرا سپورٹس سیمنار” کا دعوت نامہ بھیجا تو اس کی اہمیت کا اندازہ نہیں تھا۔ اسی روز شام 5 بجے عجمان میں بھی ایک عشایہ تھا مگر جونہی پیپل آف ڈیٹرمینیشن کے بارے میں کچھ معلومات ملیں تو اس ایونٹ کو اٹینڈ کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ پروگرام شام 3بجے شروع ہونا تھا مگر بچے، جوان، طلباء اور فیملیاں دو بجے ہی آنا شروع ہو گئیں۔ یہ پروگرام پاکستان اکیڈمی کی پرنسپل شمائلہ احمد کے تعاون سے اس تین منزلہ عمارت کے سیکنڈ فلور کے ایک بہت بڑے ہال میں منعقد ہو رہا تھا جہاں کم و بیش 300 افراد کے بیٹھنے کی گنجائش موجود تھی۔ یہ ہال بہت
خوبصورت تھا جس کے سٹیج کی بیک گراونڈ میں مہمانان خصوصی کے بیٹھنے کی جگہ تھی، اور اس کے آگے دائیں بائیں دو سپیکرز ڈیسک اور پرفارمرز کی جگہ بنائی گئی تھی، جبکہ سٹیج کے نیچے بھی تقریبا 400 سکوئر فٹ سے زیادہ کی خالی جگہ تھی جہاں ان باہمت افراد نے اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنا تھا۔

“پیپل آف ڈیٹرمینیشن” (people of determination) کی اصطلاح زندگی کی بعض تلخ اور بدنما حقیقتوں کو اپنی ان تھک ہمت اور حوصلے سے خوبصورت بنانے کا عمل ہے۔ ان افراد کے لئے اس مخصوص اصطلاح کو دنیا میں پہلی بار متعارف کروانے کا کریڈٹ متحدہ عرب امارات کی حکومت کو جاتا ہے جس نے ان عظیم لوگوں کو متعارف العام الفاظ سے پکارنے کے عمل کو ایک قانونی جرم قرار دیا۔ اب متحدہ عرب امارات اور دبئی میں انہیں اس نام سے پکارنا قانونا جرم ہے۔حکومت نے ان غیرمعمولی افراد کو تعلیم، صحت، ملازمت اور دیگر سہولیات کی فراہمی کے لئے ایک خصوصی پورٹل قائم کر رکھا ہے جس کا افتتاح گزشتہ ماہ متحدہ عرب امارات کے وزیراعظم اور ریاست دبئی کے حکمران عزت مآب شیخ محمد بن راشد المکتوم
نے، نہ صرف متحدہ عرب امارات بلکہ دنیا بھر سے ایسے افراد کو بلا کر اور انہیں خصوصی مراعات و انعامات دے کر کیا تھا جس کی نگرانی زاید ہائیر آرگنائزیشن فار پیپل آف ڈیٹرمینیشن (ZHO) بھی کر رہی ہے، تاکہ ایک قومی پالیسی کے تحت ان افراد اور ان کے خاندانوں کی ضروریات کو پورا کرتے ہوئے انہیں طاقتور بنایا جا سکے۔ یہ سیمنار بھی متحدہ عرب امارات کی اسی حکومتی پالیسی کا تسلسل تھا جس کا احتمام پاکستانی اوورسیز کمیونٹی گلوبل (POCG) نے کیا تھا جس کے صدر سید سلیم اختر ہیں۔ پروگرام کا باقاعدہ آغاز ڈاکٹر اکرم شہزاد صاحب نے تلاوت قرآن پاک سے کیا اور پھر نعت شریف پڑھی: “یہ سب تمہارا کرم ہے آقا کہ بات اب تک بنی ہوئی ہے۔
کوئی سلیقہ ہے آرزو کا نہ بندگی میری بندگی ہے۔
میں اس کرم کے کہاں تھا قابل یہ حضور کی بندہ پروری ہے۔” سٹیج سیکرٹری کے فرائض سید سلیم اختر اور مشہور ٹک ٹاکر فہد اسد نے ادا کیئے جنہوں نے اپنی بذلہ سنجی اور چٹخلوں سے حاضرین کی توجہ مبذول کروائے رکھی۔ پاکستان سے تشریف لائ ہوئ قابل فخر شخصیت ڈاکٹر طاہر شہزاد نے “پی او سی جی” اور “پیرا سپورٹس” کا تعارف کروایا۔ دبئی میں مقیم ڈاکٹر نورا الصباح نے بہت خوبصورت لب و لہجے میں پیپل آف ڈیٹرمینیشن کی وضاحت کی کہ وہ کس طرح دکھی انسانیت کے سفیر ہیں اور ان کے بارے میں ہمارا اخلاقی رویہ کس سطح کا ہونا چایئے۔ پروگرام کے پہلے مہمان خصوصی ملک منیر ہنس نے بھی اسی موضوع پر دھیمے اور مدلل انداز میں تقریر کی۔ اس پروگرام میں صحافی معین صمدانی، آغا نیامت، مسٹر کاشف، سمیرا صاحبہ، فرزانہ منظور، صدیق یاسین اور حافظ عبدالروف کے علاوہ دیگر کاروباری شخصیات نے خصوصی طور پر شرکت کی۔ پروگرام کے دوران شرکاء میں سے چار عمرے کے ٹکٹ نکالے گئے، حاضرین میں سے دنیا میں پاکستان کی بہترین نمائندگی کرنے کے تین نکات بتانے پر تین خصوصی انعامات بھی دیئے گئے۔ پروگرام کے درمیان میں پاکستان سے آئ ہوئ “پیرا سپورٹس فاو’نڈیشن” کی ٹیم نے اپنے جسمانی دفاع کی ٹیکنیکس، لکڑی کی چھڑیوں کی فائٹ اور ایک ہاتھ سے چینی کی پلیٹیں اور اینٹیں وغیرہ توڑنے کے فن کا مظاہرہ کیا جس میں اس ٹیم کے ساتھ پاکستان سے آئ ہوئ یونیورسٹی کی طالبہ اور مارشل آرٹ کی ماہر اور عالمی کھلاڑی منام ماہ رخ نے بھی اپنے فن کا حیران کن مظاہرہ پیش کیا۔ اس پوری ٹیم کو پروگرام کے مہمان خصوصی ملک منیر ہنس صاحب، ڈاکٹر نور صاحبہ، ڈاکٹر فردوس صاحبہ اور وائس پرنسپل صائمہ نقوی صاحبہ نے شیلڈز، ٹرافیاں اور ٹریک سوٹس پیش کئے جبکہ آخر میں شرکاء کی ڈاکٹر نور الصباح کی “چائے شائے” اور ریسٹورنٹ برانچز کی طرف سے کے ایف سی اور چائے سے تواضع کی گئ۔ تمام منتظمین اور ممبران کامیاب پروگرام کروانے پر خوش تھے جن میں ظہیر احمد، ندیم پراچہ، آصف پراچہ، رانا انیس، اسلم سرکانی، عمر بلوچ، ڈاکٹر نسیم فردوس، میڈم خالدہ بخاری، زبیدہ خانم اور مسٹر عرفان سرفہرست ہیں۔

اس پروگرام کی خاص اور اصل بات “پاکستانیت” تھی جو تمام حاضرین میں بدرجہ اتم پائی جا رہی تھی۔ متحدہ عرب امارات میں امارات کے علاوہ کسی ملک کا قومی ترانہ بجانے کی قانونا اجازت نہیں ہے۔ سیمنار کا آغاز متحدہ عرب امارات کا ترانہ بجا کر کیا گیا تھا، ہونا بھی یہی چایئے تھا کہ دوسرے ممالک کے قوانین کا احترام کسی بھی پاکستانی کا طرہ امتیاز ہونا چایئے۔ متحدہ عرب امارات ان سمندر پار پاکستانیوں کا دوسرا بڑا گھر ہے۔ لیکن ترانے کے فورا بعد اماراتی مہمانوں کی خصوصی اجازت سے “پاکستان زندہ باد” کا فلک شگاف نعرہ لگایا گیا۔ اس پروگرام کی دوسری اہم اور نمایاں بات اس پروگرام کے دوسرے مہمان خصوصی تھے جو پاکستانی کونسلیٹ کے ایکٹنگ کونسل جرنل رحیم اللہ خان تھے، انہوں نے قومی زبان اردو کی بجائے انگریزی میں تقریر کی اور پیرا سپورٹس کے ان کھلاڑیوں اور بقول امارات “PEOPLE OF DERMINATION” کی حوصلہ افزائی کئے بغیر ہی فوٹو سیشن کروایا اور کسی ضروری کام سے باہر تشریف لے گئے۔۔۔!!!

سینئیر کالم نگار | [email protected] | تحریریں

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت" میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف" میں سب ایڈیٹر تھا۔

روزنامہ "جنگ"، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

اسلامیہ یونیورسٹی سکینڈل اور قانون کی بالادستی

جمعرات جولائی 27 , 2023
یورپ جیسے غیر اسلامی ممالک میں ریپ اور اس نوع کی بلیک میلنگ پر قتل جیسے انتہائی جرم کے ہم پلہ سزا دی جاتی ہے
اسلامیہ یونیورسٹی سکینڈل اور قانون کی بالادستی

مزید دلچسپ تحریریں