اُمّہ کے ‘زوال’ کی اصل وجہ؟

اُمّہ کے ‘زوال’ کی اصل وجہ؟

dubai naama

اُمّہ کے ‘زوال’ کی اصل وجہ؟

آج تک دنیا میں جتنی بھی اقوام نے ترقی کی ہے یا اقتدار کے سنگھاسن پر برا جمان ہوئی ہیں وہ اپنے عہد کی سب سے زیادہ اخلاق یافتہ اقوام تھیں، کیونکہ ‘حسن اخلاق’ کردار کا ایسا اہم ترین جوہر ہے جو ایک احسن معاشرے کی تشکیل میں بنیادی رول ادا کرتا ہے۔ اخلاق غیروں کو بھی ایک مقناطیسی طاقت کی طرح آپکی طرف کھینچتا ہے۔ جب بھی کسی قوم نے عروج پایا وہ سب سے پہلے اعلی اخلاق کی حامل قوم بنی، اور جب بھی کسی قوم کو زوال آیا تو پہلے اس قوم کے اخلاق میں بگاڑ پیدا ہوا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حسن اخلاق انسانی معاشرے میں بھائی چارے اور اتحاد و اتفاق کی بنیادی اساس ہے جس سے نہ صرف مسلمانوں بلکہ پوری انسانیت کے لئے سرکار دو عالم ﷺ کی اس حدیث مبارکہ پر رکھی گئی ہے: ‘کونو عباد اللہ اخوانا’ جس کا ترجمہ ہے کہ اے اللہ کے بندو تم بھائی بھائی بن جاؤ۔ اس ارشاد نبوی ﷺ میں انسانیت کے درمیان مذہب و ملت، رنگ و نسل یا علاقے کی کوئی تفریق نہیں، بلکہ پوری بنی نوع انسانیت کو آپس میں ‘بھائی بھائی’ کی ایک لڑی میں پرویا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نبی پاک ﷺ کی پوری زندگی اعلی ترین اخلاق و اطوار، مہمان نوازی، خدمت خلق، صلہ رحمی اور ایفائے عہد جیسے اعلی ترین اوصاف سے مزین تھی۔

ایک دفعہ ایک صحابی نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی سے نبی پاک ﷺ کے اخلاق کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ ‘کیا آپ نے قرآن نہیں پڑھا ہے؟’ یعنی نبی ﷺ کی پوری زندگی قرآن پاک کا عملی نمونہ تھی جس کے بل بوتے پر نبی مکرم ﷺ نے زندگی بھر کبھی کسی سے غصہ اور ناراضگی اختیار نہیں کی، کبھی کسی پر ہاتھ نہیں اٹھایا، عمر بھر کسی کو دھوکہ نہیں دیا، کبھی کسی سے بدعہدی نہیں کی اور ساری زندگی کبھی کسی سے جھوٹ نہیں بولا۔ نبی آخرالزمان ﷺ ہمیشہ دوسروں سے رحم دلی اور شفقت سے پیش آتے اور مہمانوں کی خدمت مسجد نبوی میں ٹھہرا کر فرماتے۔
جب نبی کریم ﷺ کی محفل میں مہمان آتے تو آپ انہیں بیٹھنے کے لئے اپنی کالی کملی پیش فرماتے تھے۔

اللہ تبارک وتعالی نے حضور ﷺ کی ایک اہم اور بنیادی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا: وإِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ (القلم:۴) ترجمہ: اور بیشک آپ نبی آخرالزمان ﷺ اخلاق حسنہ کے اعلی ترین پیمانے پر ہیں۔ اس آیت کریمہ میں اللہ رب العزت نے دین اسلام، شریعت مطہرہ اور قرآنی تعلیمات کو ‘خلق عظیم’ قرار دیا ہے، گویا حضور ﷺ قرآن کریم کی ہر ایک آیت کا عملی نمونہ تھے کہ ایک دفعہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے کسی صحابی نے نبی پاک ﷺ کے اخلاق حسنہ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے ارشاد فرمایا کہ، ‘کیا آپ نے قرآن کریم نہیں پڑھا ہے؟’ یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے تصدیق فرمائ کہ نبی اکرم ﷺ کے اخلاق حسنہ قرآن کی تفسیر و تعبیر ہیں یعنی قرآن کریم جن اعلی اعمال و اخلاق کی تعلیم دیتا ہے آپ ﷺ ان سب کا عملی نمونہ ہیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ‘خلق’ سے مراد دین عظیم ہے کہ اللہ تعالی کے نزدیک دین اسلام سے زیادہ کوئی محبوب دین نہیں ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا کہ خلق عظیم سے مراد آداب القرآن ہیں یعنی وہ آداب جو قرآن نے سکھائے ہیں جن سب کا حاصل تقریبا ایک ہی ہے۔ رسول کریم ﷺ کے وجود مبارکہ میں حق تعالی نے تمام ہی اخلاق فاضلہ بدرجہ کمال جمع فرما دیئے تھے۔ آپ ﷺ کے اس حسن اخلاق، عفو ودرگزر اور نرم طبیعت ہونے کی وجہ ہی سے صحابہ عظام کو آپﷺ سے محبت اور انسیت پیدا ہوئی اور وقت کے ساتھ یہ اتنی بڑھتی چلی گئی کہ تمام صحابہ کرام آپ کے ‘جان نثار’ بن گئے۔ اللہ تعالی حضور ﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاہِلِیْنَ“ (الأعراف:۱۹۹) ترجمہ: اے محمد ﷺ آپ معافی کو اختیار کیجیے، بھلی باتوں کا حکم کیجیے اور جاہلوں سے منھ پھیر لیجیے!
ایک اور جگہ اللہ تعالی فرماتے ہیں: ”فَاعْفُ عَنْہُمْ وَاصْفَحْ إنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ“ (المائدة: ۱۳) ترجمہ: تو آپ ﷺ ان کو معاف کیجیے اور درگزر سے کام لیجیے۔ بیشک اللہ تعالی نیکی کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ اللہ تعالی پھر ایک اور جگہ فرماتے ہیں: ”وَلْیَعْفُوْا وَلْیَصْفَحُوْا أَلاَ تُحِبُّوْنَ أَنْ یَغْفِرَ اللّٰہُ لَکُمْ“(النور:۲۱) ترجمہ: اور چاہیے کہ لوگ معاف کریں اور درگزر سے کام لیں، کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تعالی تمھاری مغفرت فرمائے۔ ایک بار پھر اللہ تعالی فرماتے ہیں: ”وَاصْبِرْعَلیٰ مَا أَصَابَکَ إِنَّ ذٰلِکَ مِنْ عَزْمِ الأُمُوْرِ“(لقمان:۱۷) ترجمہ: اور برداشت کیجیے ان (تکلیفوں) کو جو آپ کو پیش آئیں۔ بیشک یہ ہمت کے کاموں میں سے ہے۔ اللہ تعالی پھر فرماتے ہیں: ”وَالْکَاظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ الْنَّاسِ وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الْمِحْسِنِیْنَ“ (آل عمران:۱۳۴) ترجمہ: اور غصہ کو پی جانے والے اور لوگوں کو معاف کرنے والے اور اللہ تعالی نیکی کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔

مذکورہ بالا آیات اور اس طرح کی دیگر آیات میں اللہ تعالی نے آپ ﷺ کو عفو و درگزر کرنے کا حکم فرمایا ہے، صابرین اور کاظمینِ غیض کی تعریف فرمائی ہے اور اسے ہمت کے کاموں میں سے بتایا ہے اور یہ سب حسنِ اخلاق کے مختلف شعبے اور مرحلے ہیں جن کو اختیار کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔ اسی بنیاد پر حضور ﷺ نے پوری زندگی اخلاق حسنہ، حسن معاشرت، عمدہ طرز زندگی اور زندگی کے ہر شعبہ میں اچھے برتاو اور حسن سلوک کا عمدہ نمونہ اور عملی پیکر پیش فرمایا، حتی کہ نبی مکرم ﷺ نے اخلاق حسنہ کی تعلیم، ترویج و اشاعت اور اس کی دعوت و تبلیغ کو اپنی بعثت کی ذمہ داری قرار دیتے ہوئے فرمایا: ”بُعِثْتُ ِلأُتَمِّمَ حُسْنَ الأخْلَاق“ (الموطا للإمام مالک، ص:۷۰۵) یعنی میری بعثت ہی اس لیے ہوئی ہے کہ میں حیاتِ انسانی میں اخلاق حسنہ کے فضائل کی تکمیل کروں اور اسے کمال و عروج پر پہنچاؤں چنانچہ آپ ﷺ نے امت کو اخلاق فاضلانہ و کریمانہ سے متصف اور مزین کرنے کے لیے عملی نمونہ بھی پیش کیا اور مختلف مواقع پر قولی تعلیم بھی دی۔ حضور ﷺ کے بہت سارے محاسن اخلاق میں چند ایک یہ ہیں کہ آپ ﷺ لوگوں میں سب سے زیادہ بردبار، سب سے زیادہ بہادر، سب سے زیادہ انصاف پسند، سب سے زیادہ پاکدامن اور سب سے زیادہ سخی تھے، یہاں تک کہ کوئی رات ایسی نہیں تھی جس میں آپ ﷺ کے پاس کوئی درہم یا دینار بچتا ہو کہ آپ ﷺ رات آنے سے پہلے سب مستحقین میں خرچ کر دیتے تھے۔ آپ ﷺ اتنے با حیا تھے کہ اپنی نظریں کسی چہرے پر نہیں جماتے تھے، خود ہی اپنا نعل مبارک سی لیتے، کپڑوں میں بیوند خود ہی لگا لیتے، گھریلو کام کاج میں ازواج مطہرات سے تعاون فرماتے، غلام اور آزاد سب کی دعوت قبول فرماتے، ہدیہ قبول فرماتے خواہ دودھ کا ایک گھونٹ ہو، باندیوں اور مسکینوں کی حاجت روائی میں تکبر نہ فرماتے، ولیمہ کی دعوت قبول فرماتے، بیماروں کی عیادت کرتے، جنازوں میں تشریف لے جاتے، فقراء کے ساتھ بیٹھتے، مسکینوں کے ساتھ کھانا تناول فرماتے، مزاح فرماتے، ہنستے، لیکن قہقہہ نہ لگاتے، کسی پر ظلم نہ کرتے، معذرت خواہ کا عذر قبول فرماتے، کسی کو حقیر نہ جانتے اور نہ ہی کسی پر برتری اختیار فرماتے۔ خلاصہ یہ کہ اللہ تبارک و تعالی نے آپ ﷺ کی ذات اقدس میں تمام محاسن اور خوبیان جمع کر دی تھیں۔

لیکن آج نبی پاک ﷺ کے پیروکار مسلمانوں کے اخلاق و اطوار کو دیکھیں تو ایسا لگتا ہے کہ یہ امت وہ امت ہی نہیں جس کے لئے نبی پاک ﷺ نے ایک احسن مسلم معاشرہ قائم کرنے کی یہ مثالیں قائم کیں، شائد ہم مسلمانوں کے زوال کی ایک اصل وجہ ہی ان کا اخلاقی زوال ہے۔ ہم عبادات نہ کرنے یا فرائض انجام نہ دینے کی وجہ سے مطمعون نہیں ہو رہے بلکہ اس وجہ سے ہو رہے کہ ہم بددیانت ہیں، ایفائے عہد نہیں نبھاتے اور ان اخلاق و اطورار کا مظاہرہ نہیں کرتے جس کا مظاہرہ ہمارے نبی مکرم ﷺ نے فرمایا اور جس کے ہم ‘امتی’ ہونے کا دعوی کرتے ہیں!

سینئیر کالم نگار | [email protected] | تحریریں

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت" میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف" میں سب ایڈیٹر تھا۔

روزنامہ "جنگ"، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

اسٹیشن کی لائبریری اور گِرائیں اِن لاء

بدھ مئی 31 , 2023
لائبریرین تاج برج ( فتح جنگ) کا تھا۔اس کی ملهووالا میں شاید سسرالی رشتے داری تھی ۔اس طرح وہ ہمارا گرائیں ان لا بنتا تھا
اسٹیشن کی لائبریری اور گِرائیں اِن لاء

مزید دلچسپ تحریریں