اسٹیشن کی لائبریری اور گِرائیں اِن لاء

اسٹیشن کی لائبریری اور گِرائیں اِن لاء – حیدر آباد   کی   ڈائری

آفیسر کالونی حیدرآباد کی مسجد میں ایک خان صاحب سے ملاقات ہوئی ۔۔کچھ دنوں بعد وہ غائب ہوگئے ۔ایک دن بازار میں ان سے ملاقات ہوئی تو مسجد سے غیر حاضری  کی وجہ پوچھی ۔ فرمانے لگے اس مسجد کا امام صیب بہت زیادتی( غلطی) کرتا ہے اس لیے میں نے ادھر جانا چھوڑ دیا ہے ۔

  میں نے تفصیل پوچھی تو ارشاد فرمایا ۔۔آپیسر کالونی کی مسجد کا امام صیب جمعے کے دن فجر کی نماز میں ایک  سجدہ زیادہ لگاتا ہے ۔میں نے ایک دوسرے مولوی صیب سے یہ مسلہ پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ ایک سجده زیادہ لگانا بہت بڑی زیادتی ھے ۔اس لیے میں اس ظالم کے پیچھے نماز نہیں پڑھتا ۔میں نے عرض کیا ،کیا آپ نے کالونی کے امام صاحب سے اس بارے میں پوچھا کہ نہیں،خان صاحب فرمانے لگے  اس سے تو نئیں پوچا۔

  مغرب کی نماز کے بعدکالونی کے خطیب مولانا حیات صاحب کو یہ ساری باتیں بتائیں ۔ وہ فرمانے لگے  جمعہ فجر کی پہلی رکعت میں سورہ سجده پڑھتا ہوں ۔جہاں سجده آتا ھے وہاں سجدہ کرکے دوبارہ کھڑا ہو کر  رکعت پوری کرتا ہوں۔ پھر دوسری رکعت میں سورہ دہر پڑھتا ہوں ۔ بخاری شریف کے مطابق یہ سنت عمل ہے ۔ پھر امام صاحب نے فرمایا کہ مولانا حسین احمد مدنی صاحب اس سنت قرآت کا بہت اہتمام کرتے تھے۔

  اگلے سال 1990 میں بیگم صاحبہ کے ساتھ حج شریف پر گیا ۔ حرمین الشریفین کے امام صاحبان کو اس سنت قرآت کا اہتمام کرتے دیکھا۔

  2015 کے بعد کبھی کبھی چھتر پارک اسلام آباد میں مفتی سعید صاحب کے ساتھ اعتکاف بیٹھنے کا اتفاق ہوا ۔ان کو بھی جمعہ کی فجر میں سورہ سجده اور سورہ دہر کا اہتمام کرتے دیکھا ۔ عسکری 14 کی مسجد کے امام صاحب سے اس سنت قرآت کو معمول بنانے کی گزارش کی ۔ بڑی مشکل سے دونوں رکعتوں میں سورہ دہر پڑھنے پر تیار ہوئے ۔اس آدھی سنت پر عمل ہو رہا ہے ۔اللّہ پاک مکمل دین پر چلنا آسان فرمائے ۔۔آمین

  حیدر آبادمیں کام تھوڑا اور فرصت زیادہ تھی ۔ ایم سی پی ایس کی تیاری شروع کردی ۔جو وقت بچتا اس میں غیر نصابی مطالعہ کرتا۔ مسجد کی لائبریری سے سیف الرحمن مبارک پوری صاحب کی سیرت پر کتاب مل گئی ۔اس کا نام تھا  الرحیق المختوم    بہت زبردست کتاب تھی ۔ جب تک ختم نہیں ہوئی کسی اور چیز کا خیال تک نہ آيا۔

  پھرا سٹیشن لائبریری کا رخ کیا۔وہاں کا لائبریرین تاج تھا ۔اس سے ڈاک خانہ ملایا تو پتہ چلا کہ وہ  برج ( فتح جنگ) کا تھا۔اس کی ملهووالا میں شاید سسرالی رشتے داری تھی ۔اس طرح وہ  ہمارا  گرائیں ان لا     بنتا تھا۔اس نے بہت خدمت کی۔بعد میں اسے  پلورسی ہو گئی اب خدمت کی زمہ داری ہماری تھی۔

 ہسپتال میں پانچ چھ سندھی بولنے والے ڈاکٹر صاحبان تھے ۔ وہ آپس میں سندھی بولتے تو عام طور پر ٹاپک اور کچھ نہ کچھ کٹنینٹ سمجھ آجاتے ۔ ان حضرات سے سندھی کے پرانے اخبار لے کر پڑھنے شروع کیے۔ اور ان حضرات سے رہنمائی بھی لی ۔کچھ تھوڑا بہت سندھی زبان سے تعارف ہو گیا۔

  سندھی زبان میں نقطوں کا کھلے دل سے استعمال ہوتا ہے۔ اردو میں زیادہ سے زیادہ تین نقطے ہیں۔ سندھی میں چار نقطوں والے حروف بھی ہیں ۔

قاف پر چار نقطے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پھ

ب۔۔۔کے نیچے چار نقطے۔۔۔ بھ

ت۔۔۔کے اوپرچار نقطے۔۔۔۔ تھ

ج۔۔۔۔کے نیچے چار نقطے۔۔۔چھ

سندھی آسان ہے ۔اردو کے لفظ کے آخری  الف یا  ہ کو  و سے بدل دیں ۔

کھوسہ۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔کھوسو

بھٹه ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بھٹو

کھیڑا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کھیڑو

 پتہ نہیں کس مخلص بزرگ نے غلطی سےپہلی دفعہ  کھیڑو کو  کھوڑو لکھ دیا کہ یہ غلطی چل پڑی اور عام ہو گئی ۔ ایوب کھیڑو  1947 کے بعدسندھ کے پہلے وزیر اعلی تھے۔ان کی بیٹی حمیدہ کھیڑو نے آکسفرڈ یونیورسٹی سے  پی ایچ ڈی کی ۔وہ سندھ یونیورسٹی میں پاکستان سٹڈی سینٹر کی سربراہ تھیں ۔

 اسی طرح  ٹالپر  کا حال ھے ۔کسی مخلص بزرگ نے اس کو انگریزی میں Talpur لکھا۔ کسی کام چور اخبار نویس نے انگریزی سے اس کی اردو بنائی تو تالپور  بن گیا اور چل پڑا۔ کام چوری کی ایک  اور روشن مثال ملاحظہ فرمائیں ۔.

 غازی بروٹھا کا پراجیکٹ شروع ہوا تو اس کو خوشخط انگریزی میں  

Ghazi Barotha

لکھا گیا ۔جب اس انگریزی نام کو اردو میں لکھا گیاتو  بروتھا  بن گیا۔ اچھے بھلے شریف آدمی   غازی بروتھا  کہتے ہوئے پکڑے گئے۔ اصل میں یہ  کوٹھا کے وزن پر  بروٹھا ھے  ۔

 1995 میں PTCL کو جوش آیا تو اردو میں ڈائریکٹری چھاپ دی ۔ اٹک کی انگلش  ڈائریکٹری کو لاہور میں بیٹھ کر کسی بابو نے اردو کا جامہ پہنا دیا۔اس کا حال وہی ہوا جو بغیر ماپ / ناپ کے پاجامے کا ہو سکتا ہے۔ اٹک چھٹی گیا  فراغت تھی  ڈائریکٹری کا مطالعہ شروع کر دیا۔۔  ایک گاؤں کا نام  شاکر  ڈیرہ  پڑھ کے دماغ چکرا گیا۔ کافی دیر بعد سمجھ آئی کہ بے چارے شکر درہ کوپہلے انگلش میں  (Shakardarra)  بنایا گیا تو بہت خوش ہوا ۔ پھر جب دوبارہ بغیر عقل استعمال کیے اردو بنائی گئی تو بن گیا۔

شاکر ڈیرہ  

  اردو الفاظ  کے  لام کو رے R بنا دیں تو سندھی بن جاتی ہے۔

کوٹلی ۔۔۔۔۔۔۔کوٹری

انگلی۔۔۔۔۔انگری

 ہالی ۔ھل چلانے والا۔۔۔۔۔۔ہاری  

1947 میں سندھ حکومت نے کسانوں کی حالت بہتر بنانے کیلئے کمیشن بنایا۔اس میں مسعود کھدر پوش بھی تھے ۔ ایک سال بعد  هاری رپورٹ چھپی هاری   یعنی هالی ۔

  ایک دفعہ کچھ جٹ مولانا حالی کے ہم سفر تھے ۔جٹوں نے مولانا حالی سے نام اور کام کا پوچھا  آپ نے بتایا  میں حالی ہوں اور پڑھنے لکھنے کا کام کرتا ہوں۔جٹوں نے فرمایا   هالی تو ھل چلاتا ہے اس کا پڑھائی سے کیا واسطہ ۔مولانا حالی فرماتے ہیں  پہلی دفعہ  حالی تخلص کی صحیح داد ملی۔

  مجھے حیرانی ہوئی کہ پوٹھواری زبان کا لفظ    اچھو   سندھی میں  اچو  بن گیا ۔ لیکن اس کا معنی وہی ہیں،آؤ   come

 شاہ مکھی پنجابی میں موٹا نون  ن لکھنا   ایک پرابلم ہے۔ اکثر سے  نڑ  لکھتے ہیں جیسے ۔۔ پانڑیں ، کچھ سالوں سے ایک بہتر حل نظر آرہا ہے۔۔نون کا نقطہ گول لکھ کر اس کو اندر سے خالی رکھتے ہیں

۔۔۔hollw circle⭕..

سندھی میں موٹا نون لکھنے کا آسان طریقہ ہے ۔۔۔ اردو ۔۔ٹ ۔۔موٹا نون ہے۔۔

  راٹا     موٹے نون والا       رانا  ( ثنا اللہ)

اور  ٹ  میں   ث  کی طرح تین نقطے ہیں۔

[email protected] | تحریریں

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

قصه یک شب در کالج کیمپبلپور

جمعرات جون 1 , 2023
کیمپبلپور شہر اپنی تاریخی اہمیت کے علاوہ میرے لئیے ہمیشہ سے خاص دلچسپی اور مرکز محبت رہا ہے ، بچپن سے اس شہر طلسمات کے قصے اور دلچسپ
قصه یک شب در کالج کیمپبلپور

مزید دلچسپ تحریریں