تربیت والدین
تحریرمحمد ذیشان بٹ
یقین جانیں، آج کل کے ماں باپ کو دیکھ کر دل کرتا ہے کہ بچوں کی نہیں، والدین کی تربیت کے لیے کسی تربیتی کیمپ کا بندوبست کیا جائے۔ بندہ بچپن سے سنتا آیا ہے کہ بچے قوم کا مستقبل ہوتے ہیں، لیکن آج محسوس ہوتا ہے کہ ماں باپ اگر حال کا بگاڑ بن جائیں تو مستقبل کا سنوارنا ناممکن ہو جاتا ہے۔
کل شام جب ہمارے محترم استاد جناب ابو حفص طاہر کلیم صاحب (خطیب مرکز اہل حدیث سرکلر روڈ) کا درس تھا تو ہم بھی اپنی خراب طبیعت اور بوجھل دل کے ساتھ، آدھے ایمان، چوتھائی نیت اور مکمل موبائل لے کر ابرہیم مسجد جا پہنچے۔ درس کا عنوان تھا "تربیت اولاد”، لیکن استاد محترم نے جیسے ہی فرمایا: "اصل ضرورت تربیت والدین کی ہے!” تو دل نے کہا، سبحان اللہ! آخر کسی نے تو سچ بولا۔
آپ دیکھیے ناں، ابا جی بچوں کے سامنے یوٹیوب پر "پٹھان بمقابلہ خالصہ” دیکھ رہے ہیں اور امی جان گھر کے کام چھوڑ کر ترکی ڈرامہ کی قسط نمبر 311 دیکھ رہی ہیں، اور پھر شکوہ کرتے ہیں کہ بچہ قرآن کیوں نہیں پڑھتا؟ ارے حضور! جس گھر میں سبق ہورر فلموں اور قسط وار محبتوں سے ملے گا، وہاں سمیّہ رضی اللہ عنہا اور عمار بن یاسر کہاں سے نکلیں گے؟
ذرا سمیّہ بنت خُبّاط رضی اللہ عنہا کو یاد کریں، جنہوں نے اسلام کے ابتدائی دور میں حق کو قبول کیا اور مشرکینِ مکہ کی بدترین اذیتوں کا سامنا کیا۔ ابو جہل نے جب اُن سے کہا کہ اپنے رب سے منکر ہو جاؤ تو انہوں نے انکار کیا۔ پھر ان کے جسم کو بانسوں سے باندھ کر نیزے سے شہید کر دیا گیا۔ وہ اسلام کی پہلی شہیدہ بنیں۔ لیکن دیکھیے، ایسی ماں نے کیسی اولاد چھوڑی؟ عمار بن یاسر، جنہوں نے کفر کے انتہائی دباؤ میں ایک بار زبان سے کلمۂ کفر کہہ دیا، لیکن دل ایمان سے بھرا رہا، اور اللہ نے قرآن میں ان کی سچائی کی گواہی دی:
"إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمَانِ”
(سوائے اس کے جس پر زبردستی کی گئی اور اس کا دل ایمان پر قائم تھا)
عمار جیسے نوجوان اس تربیت سے نکلتے ہیں جو مائیں سمیّہ رضی اللہ عنہا جیسی ہوں، اور آج ہماری مائیں بچوں کو صبر سکھانے کے بجائے صابن کی خوشبو اور شیمپو کی چمک میں الجھا رہی ہیں۔
اب آئیے ایک اور عظیم ماں کا واقعہ سنیں: ام سُلیم رضی اللہ عنہا۔ ان کا چھوٹا سا شیر خوار بچہ تھا، ابھی بولنا سیکھ رہا تھا۔ ان کی خواہش تھی کہ ان کے بچے کی زبان سے پہلا لفظ "اللّٰہ” نکلے۔ وہ ہر وقت اس کے کان میں "اللّٰہ” کا ورد کرتیں، دہراتیں، اور اس کے ننھے سے ذہن میں اللہ کی عظمت بٹھاتیں۔ دیکھیے! وہ ماں جس کے دل میں دنیا کی چکا چوند نہیں، بلکہ بچے کی زبان پر اللہ کا نام لانے کا جذبہ ہو، وہی ماں سچا سرمایہ چھوڑتی ہے۔
لیکن آج ہماری مائیں چاہتی ہیں کہ بچہ پہلا لفظ "ماما” کہے، اور ماما کہنے کے بعد فوراً "یوٹیوب” اور "کارٹون” بولنا سیکھ جائے۔ افسوس! ہم کہاں سے کہاں آ گئے۔
اور اب تو ماں باپ کے نام رکھنے کے ذوق بھی بدل گئے ہیں۔ بچے کا نام کیا رکھیں؟ ارطغرل؟ حلیمہ؟ یا پھر "مایا علی کی بہن کے شوہر کا دوست”؟ بچہ اسکول جائے یا فلم کے آڈیشن میں، کچھ پتا نہیں چلتا۔ استاد محترم نے کیا خوب فرمایا: "نام بھی ایمان کی علامت ہوتے ہیں۔”
اصل مسئلہ یہ ہے کہ والدین خود علم حاصل نہیں کرتے، صحابہ کرام کی سیرت نہیں پڑھتے، اور تربیت کا ٹینڈر مدرسے کو دے دیتے ہیں۔ جیسے کوئی مرغی انڈہ دے کر خود فیس بک پر مصروف ہو جائے اور انڈے سے مرغی نکلنے کا خواب دیکھے۔
استاد محترم نے بڑی کڑوی مگر سچی بات کی: "آپ خود اللہ کے ساتھ مخلص نہیں تو اولاد کیسے آپ سے مخلص ہو گی؟” ارے بھئی! جب ابا جی کا رشتہ اللہ سے بس اس وقت جڑتا ہے جب موبائل میں نیٹ نہیں چل رہا ہو، اور امی جان صرف رمضان میں نعت سننے والی ایپس کھولتی ہوں، تو پھر بچے بھی بقرعید کو صرف قربانی کی چھٹی سمجھیں گے، عبادت کا موقع نہیں۔
والدین کی سوشل میڈیا ہسٹری اگر خود پڑھ لیں تو کئی کو خود ہی بچوں سے معافی مانگنی پڑ جائے۔ آج کل ماں باپ کو تربیت سے زیادہ “ٹیگ” کی فکر ہے۔ بچہ کہتا ہے: امی، دعا کریں۔ جواب آتا ہے: "بیٹا دعا بعد میں، پہلے یہ پوسٹ شیئر کر دو، #MyCuteSon لکھنا نہ بھولنا۔”
ہماری دادی اماں کہا کرتی تھیں: “بیٹا! وہی بچہ آگے نکلتا ہے جس کی ماں پیچھے نہیں ہٹتی۔” اور آج کل مائیں صرف AC کی ریموٹ پیچھے رکھتی ہیں، بچے کا ٹیبلٹ اور ٹک ٹاک آگے!
ہم سن سن کے سن ہو چکے ہیں، جیسے لاؤڈ اسپیکر کے پاس بیٹھا ہوا بچہ اذان سنتے سنتے بہرا ہو جائے۔ تربیت پر اتنی باتیں ہوئیں، کہ اب تو والدین بھی تربیت کو "پرانا موضوع” سمجھنے لگے ہیں، جیسے کسی درسی کتاب کا بورنگ باب۔ استاد محترم نے جو فرمایا، وہ سن کر دل میں بجلی کوندی، لیکن عمل کی نوبت آئی تو بیٹری ختم ہو گئی۔
اور سب سے اہم بات: "ادھار وہی دے سکتا ہے جو خود صاحبِ مال ہو۔” والدین اگر اخلاق، دین، اور ایمان کے مالک نہیں تو بچوں کو کیا تربیت دیں گے؟ خالی ہاتھ سے صدقہ تو نہیں ہو سکتا، تربیت کیسے ہوگی؟
اولاد کو اللہ والا بنانا ہے تو پہلے خود اللہ سے جڑیں۔ صحابہ کرام کی زندگیاں پڑھیں۔ رسول اللہ ﷺ کی تربیت کو اپنا آئیڈیل بنائیں۔ صرف اسکول فیس دینا کافی نہیں، اپنی نیت، عمل، اور عادتیں بھی دینا ہوں گی۔
آخر میں اپنے ان والدین سے بھی گزارش ہے جنہیں یہ پڑھ کر غصہ آ رہا ہے کہ خدارا، کچھ لمحے سیرتِ صحابہ پڑھنے میں لگائیں، خود سیکھیں، تاکہ بچوں کو سکھا سکیں۔ بچے وہی سیکھتے ہیں جو وہ دیکھتے ہیں۔ اگر وہ اپنے والدین کو وقت کی پابندی، سچائی، علم دوستی اور نرمی میں دیکھیں گے، تو وہ کبھی خراب نہ ہوں گے۔ لیکن اگر بچہ ہر وقت والدین کو آپس میں جھگڑتے، گالیاں دیتے، یا دنیا کے پیچھے بھاگتے دیکھے گا، تو پھر اس کا دل مسجد نہیں، میوزک کلب کی طرف مائل ہو گا۔
یہ چند سطور اگر کسی والد کے دل میں چبھی ہوں، تو سمجھ لیں کہ استاد محترم کا درس کامیاب رہا… باقی تربیت کا سبق ابھی باقی ہے، والدین تیار رہیں!

محمد ذیشان بٹ جو کہ ایک ماہر تعلیم ، کالم نگار اور موٹیویشنل سپیکر ہیں ان کا تعلق راولپنڈی سے ہے ۔ تدریسی اور انتظامی زمہ داریاں ڈویژنل پبلک اسکول اور کالج میں ادا کرتے ہیں ۔ اس کے علاؤہ مختلف اخبارات کے لیے لکھتے ہیں نجی ٹی وی چینل کے پروگراموں میں بھی شامل ہوتے ہیں
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |