میڈیا نوعمر خاتون انفلوئنسر کا قتل
ہمارے خاندانی معاشرے کی معروف سوچ ہے کہ، "بیٹیاں گھر میں رحمت لے کر آتی ہیں۔” لیکن کسے معلوم کہ کل ان کی کوئی معصوم بیٹی کسی نوجوان کی مریضانہ سوچ کی نذر ہو کر قتل ہو جائے گی۔ ہمارے ہاں شادی کے کچھ سالوں بعد اولاد نہ ہو تو لوگ فورا پریشان ہوتے ہیں، اور جس شادی شدہ جوڑے کو پہلی بیٹی پیدا ہو اسے "خوش قسمت” گردانا جاتا ہے۔ اب ایسا وقت آ گیا ہے کہ ثناء یوسف جیسے قتل کے واقعہ کہ بعد کچھ جوڑوں کو اولاد کی تمنا بھی کم ہو گئی ہو گی، چہ جائیکہ والدین گھر میں بیٹی جیسی "رحمت” کے آنے کا انتظار کریں۔ اس ملک میں جہاں ہر قدم پر ہمارے لئے موت کے راستے کھلے ہیں وہاں اولاد پیدا کرنے سے بھی خوف آتا ہے۔ کیا خبر کہ کل ایک اور بیٹی "ثناء” بن جائے۔
لیکن وہ کون والدین ہیں کہ جو کسی کی بیٹیوں کو کھیلتا دیکھتے ہیں تو ان کے دل میں بیٹی کے آنے کا خواب نہ جاگتا ہو کہ کاش میری بھی ایک بیٹی ہوتی۔ آپ آج بھی کسی بیٹی کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھتے ہیں تو آپ کا سر بھی آسمان کی طرف اٹھ جاتا ہے کہ مالک صرف ایک بیٹی عطا فرما دے۔ لیکن اس اندوہناک واقعہ کے بعد کتنے لوگ ہوں گے جن کے دل سے خدا سے بیٹی مانگنے کی تمنا نکل گئی ہو گی کہ بیٹیاں قتل کرنے کے لئے نہیں ہوتی ہیں؟
سوشل میڈیا جہاں علمی، کاروباری اور سماجی روابط کے فروغ کا ذریعہ ہے وہاں ہمارے جیسے ترقی پذیر ملک میں قتل ایسے انسانیت سوز جرائم کا باعث بھی بنتا جا رہا ہے۔ 17سالہ کامیاب ٹک ٹاکر ثناء یوسف کا قتل پہلی واردات نہیں جو حسد اور ٹک ٹاکری کی وجہ سے ہوئی ہے اور جس نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے، بلکہ اس سے پہلے بھی ملک بھر میں اس سے ملتے جلتے واقعات پیش آئے۔ تھل کی معروف سوشل میڈیا انفلوئنسر اقراء کو گزشتہ ہفتے آٹھویں فیل کزن نے اس لئے قتل کر دیا تھا کہ انتہائی غربت میں زندگی بسر کرنے والی یتیم لڑکی اب پیسے کمانے لگی تھی۔ لاہور کی معروف سوشل میڈیا انفلوئنسر ایات مریم کو چند ماہ پہلے شادی کے بعد نوکری چھوڑ دینے والے شوہر سعد نے اس لئے قتل کیا کہ وہ کاروبار کیلئے تیس لاکھ مانگ رہا تھا جو اس نے نہیں دیئے تو بیوی کو گلہ دبا کر قتل کیا اور اس کی گاڑی لے کر بھاگ گیا۔ جب وہ گرفتار ہوا تو اس نے اپنی مقتولہ بیوی پر غیر مردوں سے تعلقات کا الزام لگا دیا۔ جبکہ ملتان کی قندیل بلوچ نے بھائی کو موبائل شاپ بنا کر دی تھی، گھر کے سارے اخراجات اٹھاتی تھی لیکن پانچویں فیل بھائی نے غیرت کا نام لے کر اسے اس لئے قتل کر دیا تھا کہ وہ دوکان میں مزید "سامان” ڈالنے کیلئے اس کو دس لاکھ روپے نہیں دے رہی تھی۔
آئی جی اسلام آباد کی پریس کانفرنس سے وضاحت ہو گئی ہے کہ قاتل 17سالہ نوجوان میڈیا انفلوئنسر ثناء یوسف کی قربت حاصل کرنا چاہتا تھا جس میں ناکامی کے بعد اس نے اسے اس روز قتل کیا جب وہ چند گھڑیاں پہلے اپنی 17ویں سالگرہ کی خوشیاں منانے میں مصروف تھی۔ 22 سالہ قاتل عمر خود بھی کم فالورز رکھنے والا ٹک ٹاکر تھا۔ اس نے ثناء کو ملنے کی بارہا کوشش کی مگر وہ ہر دفعہ انکار کرتی رہی جس کے بعد عمر کے دل میں حسد اور مریضانہ انتقام پیدا ہوا جس کا نتیجہ اس نوجوان کے ہاتھوں ظالمانہ قتل کی صورت میں نکلا۔
سوشل میڈیا کی ترقی اور جدید موبائل فونز کے بعد جرائم میں اضافے اور اس نوع کی قتل جیسی وارداتوں میں اضافہ انتہائی تشویشناک صورتحال ہے۔ اس قسم کے جتنے بھی قاتل ہیں وہ ان پڑھ، جاہل اور ناکام زندگی گزارنے والے ہیں، وہ خود تو زندگی میں کچھ نہیں بن سکے تھے مگر انہوں نے اپنی جان پہچان والی خواتین یا خونی رشتوں والی کامیاب عورتوں کے قریب ہونے کی کوشش کی یا ان سے مالی مدد لینا چاہی مگر جب وہ کامیاب نہیں ہوئے تو انہوں نے قتل جیسے قبیح فعل کا ارتکاب کیا۔ کوئی اپنی ناکام زندگی پر ان خواتین کی کامیابیوں سے حسد کرتا تھا اور کوئی ان کے زریعے امیر ہونا چاہتا تھا۔ایات مریم کے شوہر، قندیل بلوچ کے بھائی اور اقرا کے کزن نے قتل کی وجہ غیرت بتائی۔ ثنا کے میٹرک پاس قاتل نے بیان دیا کہ، "وہ مجھ سے دوستی نہیں کرنا چاہتی تھی” ثنا یوسف کے قاتل عمر حیات عرف کاکا کی تصویر بھی سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے۔ عمر حیات کا کہنا ہے کہ میں ثنا یوسف سے حد سے زیادہ محبت کرتا تھا، لیکن وہ اسے خاطر میں نہیں لاتی تھی، جس کے باعث وہ جنون میں مبتلا ہو کر یہ انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور ہوا۔ لیکن قاتل کی ناہموار ذہنی سوچ کے پیچھے ہمارے معاشرے کا اجتماعی نفسیاتی رجحان کارفرما نظر آتا ہے کہ یہ سارے قاتل جھوٹے اور غلیظ ذہنیت رکھنے والے ذہنی مریض ہیں۔ اگر ایف آئی اے سائبر کرائم میں درج شکایات اور ایف آئی آرز کا تجزیہ کیا جائے تو لگتا ہے کہ پاکستانی نوجوانوں میں حسد، منافقت اور راتوں رات امیر بننے کی آگ کچھ زیادہ ہی لگی ہوئی ہے۔ہمارے ملک میں بدقسمتی سے کریکٹر بلڈنگ کے الگ سے ادارے ہی نہیں ہیں۔ یہ ہمارا ہی ملک و معاشرہ ہے جہاں بیویوں کی چوری چھپے ویڈیو بنانے اور انکی بنیاد پر سسرال والوں کو بلیک میل کرنے والے بھی موجود ہیں، یہاں دھوکہ سے نشہ اور شربت پلا کر عریاں ویڈیو بنانے والے ہیں، جو محبت کے جال میں پھنسا کر گندی ویڈیوز بناتے ہیں اور پھر "بلیک میل” کرتے ہیں۔ یہاں کسی لڑکی کو ویڈیو کے جال میں پھنسا کر اسے مزید غلیظ کام کرنے پر مجبور کرنے والے سفاک لوگ بھی ہیں۔ یہ وہی پاکستان ہے جہاں بہاولپور یونیورسٹی جیسے شرمناک واقعات پیش آتے ہیں۔
ہمارا ملک سوشل میڈیا کی ترقی کے دوران ایسا خطرناک معاشرہ بنتا رہا ہے جہاں تعلیمی اداروں میں جانے والی نیک اور پرہیز گار لڑکیاں بھی خوف محسوس کرنے لگی ہیں۔ دوسری طرف دینی مدارس میں بچوں اور بچیوں کے ساتھ جو زیادتیاں یا ریپ وغیرہ ہوتے ہیں اس کا یہ جواز پیش کیا جاتا ہے کہ یونیورسٹیوں اور کالجوں میں بھی تو یہی کچھ ہوتا ہے۔ یہ ایسی جاہلانہ اور غیرذمہ دارانہ اجتماعی نفسیات ہے جو وقت کے ساتھ جڑ پکڑتی جا رہی یے۔ہمارے ملک میں عورت اور مرد کے رشتہ کو ایک غیرسنجیدہ موضوع بنایا جا رہا ہے حالانکہ اس رشتے نے ازل سے ہے ابد تک قائم رہنا ہے۔ کسی بھی ملک و معاشرے کے قوانین اور معاشرتی بندھن انسانوں نے طویل سفر کے تجربات کے بعد قائم کیئے ہوتے ہیں، اگر ان کو میڈیا کی ترقی اور آزادی کے نام پر سبوتاژ کرنے کی کوشش کی جاتی یے تو امکان ہے کہ ثناء کے قتل جیسی مزید وارداتیں بھی ہوں گی۔ پاکستانی معاشرہ اس لئے بدترین ہے کہ یہاں مذہب اور سیاست کو بطور ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے۔ سری لنکن مینجر کو زندہ جلانے جیسے واقعات بھی ہمارے ہی ملک میں پیش آتے ہیں اور ثناء یوسف کے قتل جیسے خوفناک واقعات بھی اسی ملک میں رونما ہوتے ہیں، اس لیئے کہ مجرمین کو فوری انصاف کے کٹھہرے میں کڑی سزا نہیں دی جاتی ہے۔ کوئی خاتون عربی زبان کے الفاظ والا لباس پہن لے، بھلے اس پر کچھ بھی لکھا ہوا ہو تو شدت پسند بھرے بازار میں اس پر توہین مذہب کا الزام لگا کر اسے گھیر لیتے ہیں۔
ہمارے ملک کی اس سطحی اور بھیانک نفسیات کو اسی صورت میں روکا جا سکتا ہے کہ اس نوع کے واقعات میں مجرمان کو فوری اور کڑی سے کڑی سزا دی جائے جس کے وہ مرتکب ہوئے ہوں۔ ثناء کے قاتل کی فوری گرفتاری پولیس کی قابل تحسین کارکردگی کو ظاہر کرتی ہے۔ انتظامیہ اور پولیس نے تو ثناء کے قاتل کو گرفتار کر لیا اب عدلیہ کی باری ہے کہ وہ قاتل کو کیفر کردار تک پہنچا کر لواحقین کو جلد سے جلد اور بروقت انصاف فراہم کریں، اور مجرم کو عبرت کا نشان بنائیں تاکہ آئیندہ ایسے واقعات کے تدارک کو ممکن بنایا جا سکے۔

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |