مقبول ذکی مقبول ( شخصیت اور فن)
ریاض ندیم نیازی ( سبی)
پاکستان کے چھوٹے بڑے شہروں سے تو مختلف شاعر و ادیب ادبی منظر نامے پر آتے رہتے ہیں اور اپنے فن کا لوہا منواتے رہتے ہیں ۔ اِس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اُن کو اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کے لیے بے شمار مواقع میسر آتے رہتے ہیں اور وہ اپنے فن کے سہارے دُنیائے اُردو ادب کی اسکرین پر نظر آتے رہتے ہیں تو مزید شہرت کماتے ہیں اور ہر خاص و عام کے لیے مشہور نام بن جاتے ہیں ، مگر مقبول ذکی مقبول وہ شخص و شاعر ہیں جنہوں نے بھکر جیسے مضافات میں رہ کر اپنا منفرد نام اُردو ادب میں اعلیٰ مقام پیدا کیا ہے ۔ یہ سب کچھ اُن کی محنتِ شاقہ کی بدولت ہوا ہے کہ وہ دن رات عرق ریزی سے سرائیکی اور اُردو ادب کا تخلیقی و تحقیقی اور تدوینی و ترتیبی کام کرتے رہتے ہیں ۔ اُن کی لگن وجستجو کا یہ حال ہے کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اُنہوں نے اپنے آپ کو سرائیکی اور اردو ادب کے کاموں کے لیے وقف کیا ہوا ہے ، کیونکہ آج تک اُن کا جو بھی کام زیورِ طباعت سے آراستہ ہو کر مظر عام پر آیا ہے ، اُس سے محسوس ہوتا ہے کہ اُنہوں نے اپنے آپ کو کارِ ادب کے لیے وقف کر دیا ہے ، ورنہ انسان کو غمِ روزگار بھی ہوتا ہے اور غمِ دُنیا بھی ، غمِ جاناں میں بھی وہ مبتلا رہتا ہے اور اُمورِ اہلِ و عیال بھی اُس کا پیچھا نہیں چھوڑتے ۔
مقبول ذکی مقبول کے ادبی کاموں کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ یقیناً وہ بھی کوئی نہ کوئی کوئی کام تو کرتے ہوں گے ۔ گھر والوں کو وقت دیتے ہوں گے ، دوست احباب سے ملتے ہوں گے اور عزیز و اقارب سے رشتہ داراں بھی نبھاتے ہوں گے ، مگر اِن تمام وجوہات کے باوجود اُنہوں نے جو نمایاں ادبی کام سر انجام دیئے ہیں اُن کو دیکھ کر خوش گوار حیرت میں مبتلا ہوئے بغیر نہیں رہا جا سکتا ۔ کبھی اُن کا رثائی کلام سامنے آرہا ہے ، کہیں وہ نوحے میں مصائب اور مسائل پیش کرتے نظر آتے ہیں ، کہیں اُن کے قطعات سامنے آ کر رئیس امروہوی اور اعجاز رحمانی کی یاد دلاتے ہیں ، کبھی غزل اور اشعار کا انتخاب اُن کو داد دینے پر اُکساتا ہے ، کبھی وہ میانوالی کے نمائندہ شاعر و افسانہ نگار پروفیسر عاصم بخاری پر کتابیں تحقیق و تنقید ( کیفِ منظوم ) لکھ رہے ہیں اور پھر اُن کی اشاعت کے لیے کوششیں کرنا بھی اُنہی کے حصے میں آتی ہیں اور جو وہ مرتب و مدون کتاب کرتے ہیں تو پاکستان بھر کے شعرا و ادبا اور ناقدین و مشاہیر اُردو ادب سے بھی اُن کے تعلقات بہت اچھے ہیں ، وہ اُن کتابوں پر شعرا و ادبا اور ناقدین و مشاہیر اُردو ادب سے پیش لفظ ، تقریظ ، مضامین ، حرفِ اوّل اور مقدمات لکھوا لیتے ہیں جس سے کتاب اور صاحبِ کتاب کے ساتھ ساتھ مرتب و مدون کا بھرپور تعارف بھی سامنے آ جاتا ہے ۔
مقبول ذکی مقبول کا سارا کام میری نظر کے سامنے ہے ۔ اُن کے مرتب و مدون کردہ کُتب بھی اور اُن کی اپنی تخلیقاتی و تصانیفی کُتب بھی ۔ اُنہوں نے سرائیکی اور اُردو ادب کے دامن کو اپنی تخلیقات و تصانیف نظم و نثر سے مالا مال کر رکھا ہے اور مرتب و مدون کردہ کُتب سے اُنہوں نے کتاب اور صاحبِ کتاب کو بھی پاکستان بھر میں منظرِ عام پر لائے ہیں ۔
مقبول ذکی مقبول کی شاعری بھی قابلِ توجہ ہے ۔ وہ عصرِ حاضر کی بات کرتے ہیں اور اپنے آپ کو دقیانوسی خیالات کو منظوم کرنے سے بچاتے ہیں ۔ وہ قدامت پسند نہیں ہے بلکہ اُن کے کلام میں جدت نظر آتی ہے ۔ وہ جدید فکر و خیالات کے علمبردار ہیں اور دوسروں کو بھی اِسی روش پر چلنے کی ترغیب دیتے ہیں ، کیونکہ اُنہیں پتا ہے کہ شاعری وہی اچھی ہے جو اپنے زمانے سے ہم آہنگ ہو ، اپنے معاشرے کی عکاسی کرتی ہے اور اپنے سماج کی ترجمان ہو ۔ مقبول ذکی مقبول کی شاعری میں عصرِ حاضر کے تمام تقاضے موجود ہیں ۔ میں نے اِس سے قبل اُن کو منظوم خراجِ تحسین پیش کیا تھا اور یہ سطور بھی اُن کی ادبی خدمات کے صلے میں لکھ رہا ہوں اور دعا گو ہوں کہ اللّٰہ تبارک و تعالیٰ اُن کو صحت و سلامتی کے ساتھ عمرِ دراز عطا فرمائے تا کہ وہ اِسی طرح سرائیکی سے اور اُردو ادب سے جڑے رہیں اور اپنے کارِ ادب سے ایسے کام سر انجام دیتے رہیں جو آنے والی نسلوں کے بھی کام آئے اور اہلِ قلم اُن کے ادبی قد و قامت سے تادیر استفادہ کرتے رہیں ۔
***
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |