غوثِ اعظمؒ — ولایت کی روشن قندیل
تحریر: مظہر علی کھٹڑ مہورہ
تاریخِ اسلام کی تابندہ شخصیات میں جو نام سب سے زیادہ عقیدت و محبت سے لیا جاتا ہے، وہ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کا ہے، جنہیں دنیا بھر میں غوثِ اعظم، محی الدین، پیرانِ پیر کے القابات سے یاد کیا جاتا ہے۔ آپ کی زندگی کا ہر پہلو، چاہے وہ علم ہو، تقویٰ ہو، یا تبلیغ، سب کچھ اس امت کے لیے مشعلِ راہ ہے۔
آپ کا زمانہ سیاسی و دینی لحاظ سے ایک ہنگامہ خیز دور تھا۔ بغداد، جو علم و حکمت کا مرکز تھا، وہاں باطل نظریات اور فتنوں نے سر اٹھا رکھا تھا۔ ایسے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت عبدالقادر جیلانیؒ کو علم و معرفت کی روشنی دے کر میدانِ عمل میں اتارا، اور آپ نے نہ صرف گمراہ عقائد کا رد کیا بلکہ لاکھوں دلوں کو اللہ کے قرب کی طرف مائل کیا۔
آپ کا تعلق سادات حسنی و حسینی گھرانے سے تھا، یعنی والد کی طرف سے حضرت امام حسنؓ اور والدہ کی طرف سے حضرت امام حسینؓ کی نسل سے تھے۔ اس طرح آپ کو "جامع نسب” بھی کہا جاتا ہے۔
علم و کردار کا حسین امتزاج
حضرت غوثِ اعظمؒ کا علمی مقام اتنا بلند تھا کہ بغداد کے ہزاروں علما و طلبہ آپ کے حلقہ درس میں شریک ہوتے۔ آپ فقہِ حنبلی کے جید عالم تھے لیکن دیگر فقہی مکاتب پر بھی مکمل دسترس رکھتے تھے۔ آپ نے قرآنی تفسیر، حدیث، فقہ، اصولِ فقہ، تصوف، منطق اور فلسفہ جیسے مضامین میں جو خدمات سرانجام دیں، وہ آج بھی مدارس و جامعات کا علمی سرمایہ ہیں۔
لیکن اصل جوہر آپ کے کردار میں تھا — وہ کردار جو زہد، اخلاص، صبر اور عاجزی سے لبریز تھا۔ آپ راتوں کو قیام کرتے، دن کو روزہ رکھتے، اور ہمیشہ اپنے رب کی رضا میں مگن رہتے۔
تبلیغ و اصلاح کا بے مثل انداز
حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کی تبلیغی مجالس بغداد کے بڑے اجتماعات میں شمار ہوتی تھیں۔ مؤرخین لکھتے ہیں کہ ایک ایک اجتماع میں ستر ہزار افراد شریک ہوتے، جن میں صرف عوام نہیں، بلکہ علما، صوفیا اور امراء بھی شامل ہوتے۔ آپ کا اندازِ بیان دلوں کو نرم کر دیتا اور گناہگاروں کو توبہ پر آمادہ کر دیتا۔
آپ کا مشہور جملہ
"قَدَمِیْ ہٰذِہٖ عَلٰی رَقَبَۃِ كُلِّ وَلِیٍّ اللّٰہِ”
(میرا قدم ہر ولی اللہ کی گردن پر ہے)
اس وقت فرمایا گیا جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو مقامِ غوثیت عطا فرمایا۔ اس جملے کی تصدیق کئی اولیائے کرام نے بھی روحانی طور پر کی۔
کرامت نہیں، رسالت کی خدمت
حضرت غوثِ اعظمؒ کی کرامات کے بے شمار واقعات کتبِ تصوف میں موجود ہیں، جن میں دلوں کا پلٹ جانا، بیماروں کا شفا پانا، دشمنوں کا ایمان لانا وغیرہ شامل ہیں۔ لیکن آپ نے کبھی ان کرامات کو اپنی شناخت کا ذریعہ نہیں بنایا، بلکہ فرمایا:
"میری سب سے بڑی کرامت یہ ہے کہ میں نے اپنے نفس کو تابعِ شریعت بنا دیا۔”
یہ بات ہمیں سکھاتی ہے کہ دین کی اصل خدمت سنتِ مصطفی ﷺ کی پیروی میں ہے، نہ کہ محض روحانی دعووں میں۔
ہماری ذمہ داری
آج جب دین کو محض رسوم و رواج تک محدود کر دیا گیا ہے، حضرت غوثِ اعظمؒ کی سیرت ہمیں دین کے حقیقی پیغام کی طرف بلاتی ہے۔ ان کی تعلیمات ہمیں بتاتی ہیں کہ:
اللہ پر توکل رکھو،
شریعت سے وابستہ رہو،
لوگوں کے ساتھ نرمی سے پیش آؤ،
نفس کی مخالفت کرو،
اور دین کی خدمت اخلاص سے کرو۔
حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کا وصال 561 ہجری میں بغداد میں ہوا، اور آپ کا مزار آج بھی روحانیت کا مرکز ہے، جہاں لاکھوں زائرین حاضر ہو کر روحانی سکون پاتے ہیں۔
اختتامیہ
غوثِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی ہم سب کے لیے ایک سبق ہے علم ہو، عمل ہو یا روحانیت — اصل کامیابی اس میں ہے کہ انسان خود کو اللہ کا بندہ سمجھے، اور اس کے دین کا سچا خدمت گزار بنے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں غوثِ اعظمؒ کی تعلیمات کو سمجھنے، اپنانے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |