دھرتی کے علاوہ گزارہ نہیں ہونا
اشوک کمار "خاموش” ،تھرپارکر
جناب فرہاد احمد فگار کے اس شعر سے بات آغاز کرتے ہیں۔
دھرتی کے علاوہ تو گزارا نہیں ہونا
رہنا ہے مجھے خاک ستارہ نہیں ہونا
وہ ٢٩ جون سن ٢٠٢٥ع کی ایک خوب صورت شام تھی اور بارش رُک رُک کر برس رہی تھی. موسم بالکل ایسا ہی تھا جیسے محبوب اپنی شرارتی اور نخریلی نگاہوں سے دیکھتا ہو.
ہم وادئ کشمیر کے محبوب دریائے جہلم کے کنارے پر آباد شہر مظفر آباد کی سپریم کورٹ چوک چھتر کے قریب ایک پہاڑی پر موجود مہربان طبیعت میڈم خضرا منظور کے بہت پُر آسائش اور اچھی سروس کے ساتھ بہت صاف ستھرے ماحول والے سیون الیون گیسٹ ہاؤس میں موجود تھے۔گیسٹ ہاؤس کا سارا اسٹاف بہت مہرباں تھا اور نئے آدمی سے ایسے پیش آتے جیسے صدیوں پرانا تعلق جڑا ہوا ہے. خیر……!
آزاد جموں کشمیر میں میرا یہ پہلا بسیرا تھا۔سیون الیون گیسٹ ہاؤس میں ہم یہاں کشمیر کے ایک معروف اور بڑے شاعر ، نقاد، محقق اور نام ور استاد محترم ڈاکٹر فرہاد احمد فگار صاحب کا انتظار کر رہے تھے۔
فرہاد احمد فگار صاحب کا اردو ادب میں بڑا نام ہے۔آپ گورنمنٹ بوائز انٹر کالج ٹھیریاں ضلع مظفرآباد میں اردو کے لیکچرار ہیں۔ اردو غزل کے بہترین شاعر کے ساتھ نقاد اور محقق بھی ہیں۔آپ کی نعت کا ایک شعر ہے کہ :
گاؤں آباد ہوئے، شہر بسے، آپؐ آئے
دشت گلزار بنے، پھول کھلے، آپؐ آئے
جیسے ہی بارش تھوڑی سی رکی تو محترم فگار صاحب تشریف لائے۔ گیسٹ ہاؤس کےباہر رک کر مجھے کال کی اور کہا کہ موسم بہت اچھا ہے اور چلیں باہر کہیں چائے پیتے ہیں.
میں نے اپنے دوستوں کو بھی باہر بلایا اور آپ کے ساتھ چل پڑے۔
سبز پہاڑیوں اور دریائے جہلم کی بانہوں میں بسے ہوئے شہر مظفرآباد کی خوب صورت سڑکوں پر گذرتے ہوئے شہر سے باہر چرواہا کے مقام پر دریا کے کنارے ایک خوب صورت ہوٹل "مہمان سرائے” پر آ پہنچے۔
چائے کا آرڈر دے کر ہم گفت گو میں محو ہو گئے۔ تھوڑی دیر بعد چائے اور باقرخانی آئی۔ ہم نے چائے کے ساتھ باقرخانی بھی کھائی۔ باقرخانی کشمیر کی مشہور سوغات ہے جو پراٹھے کی طرح ہوتی ہے اور چائے کے ساتھ کھائی جاتی ہے۔ یہ بہت لذیذ اور مزے دار ہوتی ہے۔
اس سے بھی جو زیادہ مزے دار بات تھی وہ یہ تھی کہ قریب ہی سے دریائےجہلم کی لہروں کا ہلکا سا شور تھا اور ساتھ میں سر فرہاد احمد فگار صاحب کی پُر وقار گفت گو تھی۔ آپ کے اندازِ گفت گو میں قدرت نے ایک ایسی موسیقی رکھی ہے بس کیا کہیں………!
آپ بات کرتے ہیں تو لگتا ہے کہ جیسے ہوا کے جھونکے کے ساتھ پہاڑوں سے گرتے ہوئے چشمے کی مدھم آواز آ رہی ہو۔ ہر بات ایک دلیل کے ساتھ اور ہر دلیل ایک خوب صورت شعر کے ساتھ۔
اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ آپ نے اردو ادب کا وسیع مطالعہ کیا ہے۔ اردو کے بہت پرانے اشعار زبانی یاد ہیں۔
مطالعے کے ساتھ حافظہ بھی کمال کا ہے۔
جنت کے ٹکڑے جیسی خوب صورت وادئ کشمیر کے مشکوک موسم اور رک رک کر برستی بوندوں کے ساتھ ہم بھی واپس گیسٹ ہاؤس پر آ ٹھہرے۔
حضور آپ پہ قربان ہے یہ تن، من، دھن
زبان ہی سے نہیں، دل سے ہم یہ کہتے ہیں
فرہاد احمد فگار
رات ہوتے ہی ایک اور دوست سالک محبوب اعوان بھی تشریف لائے۔ آپ بھی دو تین کتب کے خالق ہیں۔ آپ میرے لیے بھی کتب کا تحفہ لائے۔ نہ صرف ان کے نام میں محبوب لفظ ہے بل کہ آپ ایک محبوب شخصیت کے مالک بھی ہیں۔ آپ کے اندازِ گفت گو سے محبوبیت کی خوش بُو آ رہی تھی۔ فرہاد صاحب کا ایک شعر ہے کہ :
میں کنارے پہ رات کاٹوں گا
شجرِ غم کے پات کاٹوں گا
اب رات کے کھانے کا وقت ہو چکا تھا اور ہم ساتھ میں گیسٹ ہاؤس کی پہاڑی سے اترے اور لوئر چھتر دریا کے کنارے پر آئے۔ رات کی مدھم روشنی اور دور دور تک پھیلی ہوئی بتیوں کی بارش، کہیں اوپر تو کہیں نیچے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے ہم آسمان پر سفر کر رہے ہیں۔ ہم دریا کے کنارے ایک ایسی جگہ پر رکے جہاں پہاڑ کے اندر سے بنائی ہوئی سرنگ سے دریائے کنہار آ کہ دریا جہلم سے ایسے چھپ چھپ کر مل رہا تھا جیسے ایک عاشق چھپ چھپ کر اپنے محبوب سے ملتا ہے۔ لہروں کا ہلکا سا شور جیسے کہ کوئی ستار کی تاروں سے راگ پہاڑی چھیڑ رہا ہو…..!
یہ تصور ہی تسلی مجھے دیتا ہے فگارؔ
چھٹیاں ہوں گی تو جاؤں گا حسن کی جانب
فرہاد احمد فگار
سارا نظارا دیکھ کر ہم سر فرہاد احمد فگار صاحب کے گھر پہنچے۔ آپ کے والد صاحب، بڑے بھائی شہزاد احمد اور چھوٹے چھوٹے بچوں نے ہمارا خیر مقدم کیا۔
ہم نے اکٹھے بیٹھ کر کھانا کھایا۔ گھر کا بنا ہوا بہت لذیذ کھانا کھا کر اور کشمیری بھائیوں کا اپنا پن دیکھ کر بہت سکون محسوس ہوا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے ہمارا صدیوں پرانا تعلق ہے۔
کھانا کھانے کے بعد سالک صاحب اور فگار صاحب ہمارے ساتھ گیسٹ ہاؤس تک آئے اور آتے وقت ہم نے پہاڑی کے اوپر پی سی ہوٹل سے مظفرآباد شہر کا نظارہ کیا۔ ہم لوگ بہت لطف اندوز ہو کر واپس آئے۔
صبح جیسے ہی آنکھ کھلی تو ایک اور دوست کی کال آئی اور کہنے لگے کہ سر جی آپ سے ملنا بھی ہے اور ناشتا ہمارے ساتھ کرنا ہے۔ وہ تھے عتیق الرحمان صاحب!
ہم کمرے سے نیچے آئے اور عتیق الرحمان صاحب سے ملاقات کی.
کچھ دیر گپ شپ کے بعد فگار صاحب بھی آ پہنچے۔ ہم نے ساتھ میں مل کر ناشتا بھی کیا۔
وہی اندازِ گفت گو، وہی شعروں کی برسات، ثقافتی باتیں، موسیقی، دریاؤں کی کہانیاں، کتابوں کے حوالے موضوع ِگفت گو تھے۔
آخر کار الوداع کا وقت آ گیا اور ہماری کچہری کے موضوعات ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔
آخر میں سر فرہاد احمد فگار صاحب نے مجھے اپنی کچھ کتابیں تحفے میں دیں.
سالک محبوب صاحب، عتیق الرحمان صاحب اور فرہاد احمد فگار صاحب نے ہمیں اتنا اپنا پن دیا کہ ہمارے پاس دینے کے لیے اجرک اور سندھی ٹوپی کے علاوہ اور کوئی بھی قیمتی چیز نہ تھی.
تو میں نے اجرک اٹھائی اور سر فرہاد احمد فگار صاحب اور عتیق الرحمان صاحب کے کندھوں پر رکھ دی.
ان کے لبوں پر ایک لافانی مسکان دیکھ کر محسوس ہوا کہ ایک ثقافت دوسری ثقافت سے بے تحاشا پیار کرتی ہے۔
میں دل میں یہ خیال لے کر الوداع ہوا کہ مجھے وادئ کشمیر ہمیشہ سندھو ماتھری کی طرح عزیز رہے گی اور دریائے جہلم مجھے سندھو دریا جیسا محبوب لگے گا.
اور ہمارا سفر دریائے جہلم سے الوداع ہو کر دریائے کنہار کے کنارے سے رواں تھا. اب ہمیں گڑھی حبیب اللہ سے ہو کر وہاں سے بالاکوٹ جانا تھا.
بلند پہاڑیاں، پہاڑیوں سے ڈبکیاں لگاتے ہوئے بادل، نانگن کی طرح بل کھاتی سڑکیں، چاروں طرف بکھرے ہوئے ہرے بھرے رنگ ، ان رنگوں میں بھری خوش بُو، ساتھ ساتھ بہتا ہوا دریا، دریا میں گنگناتا ہوا پانی، پانی میں ناچتی ہوئی لہریں، لہروں پر تیرتے ہوئے عکس، ٹھنڈی ہوائیں ، لوکل ٹرانسپورٹ کا مزا، سادہ سے لوگ، یہ سب نظارے ہمارے سفر کے ساتھی تھے. آخر میں ڈاکٹر فرہاد احمد فگار کی ایک غزل:
کوئی دیوار اٹھائی نہ کوئی در رکھا
اینٹ کو تکیہ کیا ریت کو بستر رکھا
پہلے آنکھوں میں ترا عکس اتارا میں نے
اور ان آنکھوں کو شیشے میں سجا کر رکھا
اس سے تسکین نہیں ہوگا اضافہ دکھ میں
دشت کا نام اگر ہم نے سمندر رکھا
پھول بھجوائے کبھی شعر کیے نام ترے
ہم نے اے شخص تجھے یاد ہے اکثر رکھا
درمیاں اپنے فقط روح کی دوری بچی تھی
ہم نے پھر بھی ترے پہلو میں نہیں سر رکھا
ورنہ ہر اگلا قدم پیچھے ہٹاتا مجھ کو
شکر صد شکر کہ کچھ دھیان نہ گھر پر رکھا
مشورہ چاہیے تھا کل ترے بارے میں مجھے
نہ ملا کوئی تو آئینہ برابر رکھا

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |