آئینی و آرمی ایکٹ ترامیم اور عہدوں کا ٹائم بم
پاکستان کی تاریخ میں پہلے چیف آف ڈیفنس فورسز (سی ڈی ایف) اور چیف آف آرمی اسٹاف (سی او اے ایس) کے طور پر فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کا تقرر کر دیا گیا ہے۔ افواج پاکستان کے یہ دونوں عہدے ان کے پاس 5 سال تک رہیں گے۔ فیلڈ مارشل جہاں پہلے چیف آف ڈیفنس فورسز (سی ڈی ایف) تعینات ہوئے ہیں وہاں یہ پہلا موقع ہے کہ ایک آرمی چیف کی مدت ملازمت 3 سے بڑھا کر 5 سال کی گئی ہے۔ یہ اقدام 27ویں آئینی ترمیم اور آرمی ایکٹ میں کی گئی تبدیلیوں کے بعد اٹھایا گیا ہے۔ افواج پاکستان میں اس پیش رفت سے جہاں طاقت کا توازن اسٹیبلشمنٹ کے حق میں پہلے سے کئی گنا زیادہ ہو گیا ہے وہاں فوج کی سیاست میں مداخلت کے حوالے سے، "ایک کریلا دوسرا نیم چڑھا” کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔
اس اقدام سے اب پاکستان صحیح معنوں میں ایک "فوجی ریاست” بن گیا ہے۔ گزشتہ دنوں فوج کے تعلق عامہ کے ادارے "آئی ایس پی آر” کی طرف سے ایک بات کہی گئی تھی جس کا مفہوم یہ تھا کہ "فوج ریاست ہے”، تو بعض حلقوں کی طرف سے یہ اعتراض اٹھایا گیا تھا کہ ریاست کا ایک ادارہ "پوری ریاست” کیسے ہو سکتا ہے؟ حقیقت یہ ہے اس اقدام کے بعد اب فوج سیاست میں مداخلت کرنے کی بجائے خود سیاست کرنے کی پوزیشن میں آ گئی ہے۔
پہلے حکومتی اتحاد چیف آف ڈیفنس فورسز کا نوٹیفکیشن جاری کرنے میں تاخیر کر رہا تھا۔ ذرائع کے مطابق نواز شریف نوٹیفکیشن کے اجراء میں رکاوٹ بنے ہوئے تھے۔ ایسا لگتا تھا کہ نواز شریف آرمی چیف یا فوج کے بڑھتے ہوئے اثر ورسوخ سے خوش نہیں تھے لیکن بھائی اور بیٹی کی حکومتیں بچانے کے لئے انہیں نوٹیفکیشن کے اجرا پر تیار ہونا پڑ گیا۔ اگر میاں محمد نواز شریف کے اندر "اینٹی اسٹیبلشمنٹ” کی تڑپ ہے بھی تو اس کی وقعت اپنے خاندان کا اقتدار بچانے سے زیادہ نہیں ہے۔ کرسی کے بھوکے ہمارے یہ سیاستدان اگر اقتدار کے لالچ سے باہر نہیں نکل سکتے ہیں تو انہیں اسٹیبلشمنٹ کو براہ راست حکومت کرنے کی اجازت دے دینی چایئے یا ایک اور آئینی ترمیم لا کر فوج کو حکومت میں ایک مستقل کردار تفویض کر دیا جانا چایئے۔ 28ویں آئینی ترمیم کا بھی چرچا ہے۔ اس سے اگر ملک میں نیم فوجی بادشاہت بھی قائم ہو جائے تو وہ "سول سپریمسی” سے بدرجہا بہتر ہو گی کیونکہ فوج کی سیاست میں مداخلت کا سیاست دانوں کو آئندہ ڈھنڈورا پیٹنے کا موقع نہیں مل سکے گا جس کی آڑ میں وہ عوام کو "بیڈ گورننس” اور "بدعنوانی” کا چونا لگاتے ہیں۔ اگر خلیجی ممالک کی بادشاہتوں اور مثالی ترقی کو دیکھا جائے تو پاکستان میں "فوجی بادشاہت” اتنا بھی گھاٹے کا سودا نہیں ہو گا۔ پاکستان کی معاشی بدحالی کے باوجود دنیا بھر میں پاکستان کے حق میں ہموار حالات و واقعات اس بات کی طرف مراجعت کر رہے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کو حکومت کرنے کا آئینی حق دینے کے آثار نظر آ رہے ہیں جبکہ پہلے ہی "اسٹیبلشمنٹ”، ان طاقتور جرنیلوں کے مجموعہ کو کہتے ہیں جو فوج اور ملکی صورتحال پر اہم فیصلہ جات کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔ اگر یہ معاملہ طے ہو گیا تو فوج اور سول کے ان دونوں مقتدرہ اداروں میں جہاں بہتر کارکردگی دیکھنے کو مل سکتی ہے وہاں سول ملٹری تعلقات میں بھی مکمل اتحاد اور ہم آہنگی پیدا ہو جائے گی۔
ان سطور سے میری یہ ہرگز مراد نہیں ہے کہ میں فوج کی سیاست میں مداخلت کے حق میں دلائل پیش کر رہا ہوں لیکن میں دیگر پاکستان بھر کی طرح یہ جانتا ہوں کہ ہمارے ہاں کی اکثریت میں یہ تاثر راسخ ہو چکا ہے کہ فوج کے تعاون کے بغیر کوئی حکومت خیر سکھیلی نہیں چل سکتی ہے۔ اگر پاکستان کی تقریبا آدھی عمر میں مارشل لاء رہے اور باقی کی اسٹیبلشمنٹ کی حمایت یافتہ نیم جمہوری حکومتیں رہی ہیں تو اس پیچیدہ اور رائج مقتدرہ کی بجائے ایک واضح اور شفاف نظام حکومت تشکیل دے لیا جانا چایئے۔ موجودہ صورتحال میں آرمی کی مضبوط ترین طاقت کو دیکھتے ہوئے پاکستان کو اس چوں چوں کے مربہ اور گومگو کے نظام حکومت سے باہر نکلنے کی ضرورت ہے۔
قومی اسمبلی سے منظور شدہ آرمی ایکٹ ترمیمی بل کے اہم نکات پر غور کریں تو پتہ چلے گا کہ اب آرمی اسٹیبلشمنٹ کی مقتدرہ طاقت پہلے سے کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ سیکشن 176 سی میں ترمیم کے تحت چیف آف ڈیفنس فورسز کی سفارش پر وائس چیف آف آرمی اسٹاف، ڈپٹی چیف آف آرمی کا تقرر کیا جائے گا۔ وفاقی حکومت یہ تقرریاں چیف آف ڈیفنس فورسز کی سفارش پر کرے گی۔ بل کے متن میں کہا گیا ہے کہ وائس آرمی چیف اپنے اختیارات اور فرائض آرمی چیف کی ہدایات کی روشنی میں انجام دیں گے، سیکشن بی میں حکومت کا لفظ تبدیل کر کے آرمی چیف کی سفارش پر تقرری کی جائے گی لکھا گیا ہے۔ شق نمبر 8جی میں بھی ترمیم کر دی گئی ہے جس کے مطابق چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی کا عہدہ وزیراعظم چیف آف ڈیفنس فورسز کی سفارش پر 3سال کیلئے لگائیں گے اور یہی اطلاق کمانڈر آف نیشنل اسٹریٹجک کمانڈ کے تقرر پر ہو گا۔کمانڈرنیشنل اسٹریٹجک کمانڈ کی تقرری، دوبارہ تقرری یا توسیع کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکے گا، آرمی ایکٹ میں ریٹائرمنٹ کی عمر، سروس کی معیاد اور ان کو ہٹانا کمانڈر نیشنل اسٹریٹجک کمانڈ پر لاگو نہیں ہو گا، کمانڈر نیشنل اسٹریٹجک بطور جنرل پاکستان آرمی میں اپنی خدمات سرانجام دیں گے۔ چیف آف ڈیفنس فورسز کی مدت اس دن سے شروع ہو گی جس دن سے نوٹیفکیشن ہو گا اور آرمی چیف ہی چیف آف ڈیفنس فورسز ہوں گے، جس پر فیلڈ مارشل عاصم منیر کو ترقی دے دی گئی ہے۔ وفاقی حکومت آرمی چیف (چیف آف ڈیفنس فورسز) کے فرائض اور ذمہ داریوں کا تعین کرے گی، وفاقی حکومت ملٹی ڈومین ایریاز میں انکی ذمہ داریوں اور فرائض کو محدود نہیں کر سکے گی۔ وفاقی حکومت کو اختیار ہو گا کہ کسی افسر کو فیلڈ مارشل، مارشل آف دی ایئر فورس یا ایڈمرل آف دی فلیٹ کے عہدے پر ترقی دے، اور ان عہدوں پر فائز افسران کو تاحیات وردی اور مراعات فراہم کی جائیں گی۔ آرٹیکل 248 کے تحت صدر کو حاصل استثنیٰ بھی ان فوجی عہدوں پر لاگو ہو گا، جبکہ وفاقی حکومت ان عہدوں کی ذمہ داریاں اور مراعات ریاستی مفاد کے مطابق متعین کرے گی۔
آئین کی 27ویں ترمیم سے جہاں 73 کے متفقہ آئین کو شاہی آئین میں بدلا گیا وہاں آرمی ایکٹ میں ترامیم نے سونے پر سہاگے کا کام کیا ہے۔ سیاست میں شریک اقتدار رہنے کا یہ گٹھ جوڑ یکطرفہ ہے جو عوام کو جمہوریت کے نام پر دھوکہ دہی کا شکار کرنے کے مترادف ہے۔ اس کے منفی اثرات ہماری زندگی کے نہ صرف تمام شعبوں پر پڑتے ہیں بلکہ ہماری کردار بافتہ قوم کی اخلاقیات پر مرتب ہوتے ہیں۔ ہمارے تمام ریٹائرڈ آرمی چیفس پاکستان کو چھوڑ کر ترقی یافتہ ممالک میں زندگیاں گزارتے ہیں۔ خاص طور پر متحدہ عرب امارات اور ریاست دبئی کو ہی لے لیں جہاں سابق آرمی چیف صدر جنرل پرویز مشرف نے زندگی گزاری اور قمر جاوید باجوہ صاحب "ریڈ سنگنل” پر افسردہ کھڑے نظر آئے۔ متحدہ عرب امارات وہی ملک ہے جہاں بادشاہت ہے اور جو اپنے "واضح اور شفاف نظام حکومت” کی وجہ سے دنیا کی ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں اولین نمبر پر ہے۔ فیلڈ مارشل، آرمی چیف اور چیف آف ڈیفینس فورسز جنرل سید عاصم منیر کا شمار پاکستان کی تاریخ کے اُن معتبر ترین فوجی رہنماؤں میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنے عسکری کیریئر کے دوران نہ صرف میدانِ جنگ بلکہ خفیہ امور، انتظامی اصلاحات اور قومی سلامتی کے حساس ترین محاذوں پر نمایاں قیادت پیش کی۔ وہ پاکستان کی تاریخ کے پہلے اور واحد فوجی سربراہ ہیں جنہوں نے بیک وقت دونوں بڑے خفیہ اداروں "ملٹری انٹیلیجنس” اور "انٹر سروسز انٹیلیجنس” کی سربراہی کی۔ اُن کی کامیابیوں اور اعزازات نے انہیں ایک منفرد اور مضبوط سپہ سالار کے طور پر روشناس کروایا ہے لیکن خود ان کے بقول "مادر وطن” اور "نظام” سے زیادہ کوئی چیز اہم نہیں ہے۔ ملک کا نظام یونہی سدا چلتا رہنا ہے مگر عاصم منیر کو ایک دن ان عہدوں سے سبکدوش ہونا ہے۔ فیلڈ مارشل کی اس غیر معمولی طاقت کا حصول سول مارشل کی حیثیت اختیار کر گیا ہے جس کا کوئی بھی ناخوشگوار نتیجہ نکل سکتا ہے۔ جس طرح پیپلزپارٹی کا "ووٹ بنک” ضیاءالحق کے مارشل سے بھی ختم نہیں ہوا تھا اسی طرح تحریک انصاف جتنی بھی مشکلات میں ہے اس جماعت اور اس کے بانی عمران خان کی جمہوری طاقت وقتی طور پر دب گئی لیکن وہ مکمل طور پر ختم نہیں ہوئی ہے اور نہ کبھی ہو سکتی ہے۔
حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو چایئے کہ وہ ان آئینی ترامیم اور عہدوں کی طاقت کو بھول کر ایک ایسا مستقل نظام حکومت ترتیب دے لیں جو "ٹائم بم” کے ثابت ہونے کے خطرات سے پاک ہو۔
Title Image by tomwieden from Pixabay

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |