چھانگلا ولی اور پرندے

چھانگلا ولی اور پرندے


حضرت سید رحمت اللہ شاہ بخاریؒ المعروف چھانگلا ولی موج دریا کا سلسلہ ٕ نسب پچیس پشتوں کے بعد حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے جا ملتا ہے آپ میں بچپن سے ہی ولایت کی خوشبو آتی تھی کیونکہ آپ میں وہ تمام صفات موجود تھیں جو قرآن نے مومن کی شان میں بیان کی ہیں
حضرت محمد اقبال نے چار صفات مسلمان کی یہ بیان کی ہیں
قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت
یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلماں

حضرت سید رحمت اللہ شاہ بخاریؒ قدوسی صفت کو پانے کے لیے اللہ کے نام یا سبوحُ یا قدوسُ کے ورد کے ساتھ غذا کا بہت کم استعمال کرتے تھے بزرگ بتاتے ہیں کہ وہ غذا میں دودھ کا استعمال کرتے تھے اور ہفتہ میں ایک دن یا کبھی کبھار دو دن کھانا تناول فرماتے تھے اور زیادہ تر روزہ کی حالت میں ہوتے تھے
پیغمبر اکرم ﷺکا ارشاد پاک ہے۔
اپنے شکموں کو بھوکا رکھو، حرص کو چھوڑ دو، اور اپنے جسموں کو ننگا رکھو، امیدوں کو کم کردو اور اپنے جگروں کو پیاسا رکھو دنیا چھوڑ دو تاکہ تم اللہ کو اپنے دل کے دیکھ سکو۔
اس کے علاوہ آپﷺ نے ارشاد فرمایا۔
یعنی اللہ کی عبادت ایسے کرو کہ گویا تم اللہ کو دیکھ رہو ہو اور اگر تم اسے نہیں دیکھ سکتے تو وہ تمھیں دیکھ رہا ہے۔
آنحضورﷺ کی دو احادیث مبارکہ بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ شکموں کا بھوکا رکھنا سنت الٰہی ہے کیونکہ اللہ پاک کھانے پینے کی صفت سے پاک ہے بندے میں جب اللہ کی محبت اور عشق پیدا ہوتا ہے تو وہ جس چیز سے بھی ہم کلام ہوتا ہے اسے جواب ملتا ہے۔ حضرت رحمت اللہ شاہ بخاریؒ پرندوں کی زبان بھی سمجھتے تھے۔ اور ان سے ہم کلام بھی ہوتے تھے۔ ہمارے خاندان کے بزرگ فرماتے ہیں کہ
جب حضرت سید رحمت اللہ شاہ بخاریؒ کے مرشد اپنے مریدین سے تصوف کے موضوع پر خطاب کر رہے تھے تو ایک کوا قریب آ کر بیٹھ گیا اور زور زور سے کاٸیں کاٸیں کرنے لگا ۔ کوے کے اس طرح کاٸیں کاٸیں کرنے پر مرشد نے مریدین سے استفسار فرمایا کہ یہ کوا کیا کہہ رہا ہے؟
اس پر سارے مرید خاموش رہے تو حضرت رحمت اللہ شاہ بخاریؒ نے اپنا ہاتھ کھڑا کیا کہ حضور مجھے جواب دینے کی اجازت دی جاۓ تو میں عرض کرتا ہوں مرشد نے کہا کہ آپ بتا دیں آپ کھڑے ہوۓ اور ارشاد فرمایا
” یہ کوا کہہ رہا تھا کہ غدر آنے والا ہے اپنا سامان سمیٹو اور گاوں سے نکل جاو کیونکہ بادشاہ بہت سارے لوگوں کو قتل کر دے گا “
کوے کی یہ پیش گوٸ سچ ثابت ہوٸ اور کچھ عرصہ کے بعد اکبر بادشاہ نے گاوں پر حملہ کر دیا
حضرت سید رحمت اللہ شاہ بخاریؒ
کا مرشد کو سوال کا جواب دینا ثابت کرتا ہے کہ آپ پرندوں سے بھی ہم کلام ہوتے تھے
ایک دوسرے بزرگ جن کا تعلق زیارت گاوں تحصیل جنڈ سے ہے وہ سید الطاف شاہ ہے وہ فرماتے ہیں۔ جب کوے کے بارے میں مرشد نے پوچھا تو آپ نے جواب دیا کہ اکبر بادشاہ بلوٹ پر حملہ کرنے آ رہا ہے
حضرت سید رحمت اللہ شاہ بخاریؒ کا جواب سن کر مرشد نے فرمایا بالکل ایسے ہی ہے۔ اس کے بعد مرشد نے کہا کہ
آپ کوے کو دانہ پینا دو۔ اور بلوٹ گاٶں کے سارے گھروں میں بتا دو کہ گھروں سے نکل کر پہاڑوں پر چڑھ جاٸیں لوگوں نے ایسے ہی کیا آپؒ دریا کے کنارے بیٹھ گۓ اکبر بادشاہ کے سپاہی جب گاٶں میں آۓ تو کوٸی بندہ نہ پا کر واپس پلٹ گۓ اور بادشاہ کو کہا کہ یہاں تو کوٸی بندہ نہیں ہے تو بادشاہ نے کہا کہ میں خود دیکھوں گا۔ اور اس نے گاوں کی طرف رخ کیا گاٶں میں کسی کو نہ پا کر اکبر بادشاہ واپس پلٹا تو حضرت سید رحمت اللہ شاہ بخاریؒ کو راستے میں بیٹھے پایا تو پوچھا آپ کون ہیں؟ آپ نے اپنا تعارف کرایا تو اس نے گاوں کے بندوں کی بابت پوچھا آپ نے کہا کہ آپ کے ڈر کی وجہ سے لوگ بھاگ گۓ اکبر بادشاہ نے کہا انہیں کس نے بتایا ؟ تو آپ مسکراۓ اور کہا کہ میں نے
اکبر نے پھر سوال کیا کہ آپ کو کس نے بتایا ؟
آپؒ نے فرمایا کہ کوے نے اس پر بادشاہ حیران ہوا اور آپ کا معتقد ہو گیا۔بلوٹ کی بہت ساری زمین آپ کے نام کردی اور واپس چلا گیا۔ لیکن آپ نے فقر کو ترجیح دی اور زمین دوسرے لوگوں کو دے دی اور خود زیارت گاوں تحصیل جنڈ میں آکر آباد ہوگۓ ۔

چھانگلا ولی اور پرندے


ہمارے بزرگ آپؒ کے مرشد کا نام سید عبدالوہاب بخاریؒ بتاتے ہیں جب کہ تاریخ کے طالب علم اس سے اتفاق نہیں کرتے کیونکہ جو اچ شریف شجرے میں حضرت سید رحمت اللہ شاہ بخاریؒ کی تاریخ وفات 1604 عیسوی لکھی گٸ ہے اس کے مطابق حضرت سید عبدالوہابؒ کا دور بہت پہلے کا ہے۔ واللہ اعلم کیا درست ہے یا شجرے میں لکھی گٸ تاریخ وفات غلط ہے یا بزرگوں کا کہنا درست نہیں
آج کے دور کے ہم مسلمانوں کو بھی چاہیے کہ کہ ہم اپنے کردار میں مومن کی صفات پیدا کریں تاکہ پرندے ہم سے بھی ہم کلام ہوں کیونکہ یہ کام آج بھی ہو سکتا ہے بقول شاعر مشرق حضرت علامہ اقبالؒ

ہے یاد مجھے نقطہ ٕ سلمان خوش آہنگ
دنیا نہیں مردانِ جفا کش کے لیے تنگ

مستقل لکھاری | تحریریں

میرا تعلق پنڈیگھیب کے ایک نواحی گاوں غریبوال سے ہے میں نے اپنا ادبی سفر 1985 سے شروع کیا تھا جو عسکری فرائض کی وجہ سے 1989 میں رک گیا جو 2015 میں دوبارہ شروع کیا ہے جس میں نعت نظم سلام اور غزل لکھ رہا ہوں نثر میں میری دو اردو کتابیں جبکہ ایک پنجابی کتاب اشاعت آشنا ہو چکی ہے

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا!

پیر دسمبر 4 , 2023
اب ایسا لگ رہا ہے کہ چار روزہ جنگ بندی کے دوران اسرائیل نے سوشل میڈیا پر مکمل کنٹرول حاصل کر لیا ہے
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا!

مزید دلچسپ تحریریں