اور ایران پر جارحیت کے بدلے نوبل پرائز
گزشتہ روز امریکی بی ٹو بمبار طیاروں نے تین ایرانی نیوکلیئر سائٹس فردو، نتانز اور اصفہان کو حملہ کر کے تباہ کر دیا. اس سے اسرائیل کو فیس سیونگ تو مل گئی، لیکن جنگ بندی کے امکانات محدود ہو گئے ہیں جس کے لیئے اسرائیل نے خود کو مزید تباہی سے بچانے کے لیئے امریکی صدر کا ترلا کیا تھا۔ اس حملے سے فیلڈ مارشل عاصم منیر کے امریکی دورے کے پس پردہ مقاصد کی بلی بھی تھیلے سے باہر آ گئی ہے کہ یہ چاند چڑھانے سے قبل امریکی صدر پاکستان کے فیلڈ مارشل کو اعتماد میں لینا چاہتے تھے۔
اس جارحیت کا انتہائی تشویشناک پہلو یہ ہے کہ امریکہ آخر کب تک بلاوجہ دوسرے ممالک پر براہ راست حملے کر کے دنیا کے امن و سکون کو تہس نہس کرتا رہے گا۔ اس حملے سے چند روز ہی پہلے ماسکو کے چینی سفارت خانے نے ان ممالک کی فہرست شائع کی تھی، جن پر جنگِ عظیم دوم کے بعد امریکہ نے بمباری کی تھی جس میں
جاپان، کوریا، چین، گواتی مالا، انڈونیشیا،
کیوبا، کانگو، لاؤس، ویتنام، کمبوڈیا، گریناڈا، لبنان، لیبیا، ایل سلواڈور،
نکاراگوا، ایران، پاناما، عراق، کویت، صومالیہ، بوسنیا، سوڈان، افغانستان، یوگوسلاویہ، یمن، پاکستان اور شام وغیرہ شامل ہیں۔
یہ فہرست 20 سے زائد ممالک پر مشتمل ہے۔ چین نے اس رپورٹ کو شائع کرنے کے بعد اس بات پر زور دیا تھا کہ "ہمیں کبھی نہیں بھولنا چاہئے کہ دنیا کے امن و شانتی کے لئے اصل خطرہ کون ہے۔”
اس شدید اور تاریخی امریکی جارحیت کے پس منظر میں پاکستان کی امریکی صدر کو نوبل پرائز کی سفارش کرنے کا بھی کوئی جواز نہیں بنتا تھا۔ حالانکہ امریکی صدر ٹرمپ نے ایران پر یہ حملہ اسے دو ہفتوں کی مہلت دینے سے "یو ٹرن” لیتے ہوئے کیا یعنی امریکہ نے واضح طور پر وعدہ خلافی اور دھوکہ دہی کا مظاہرہ کیا، جس سے مشرق وسطیٰ ایک بڑی اور تباہ کن جنگ کے دہانے پر پہنچ گیا ہے۔
اس حملے کے بعد صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بڑے فخر سے اعلان کیا کہ امریکہ نے ایران کے تین اہم جوہری مراکز پر کامیاب بمباری کی۔ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ تمام امریکی طیارے ایرانی فضائی حدود سے محفوظ باہر نکل کر واپس آ گئے، اور اب وقت آ گیا ہے کہ "امن قائم ہو”۔ یہ کس قدر حیرت انگیز ڈھٹائی ہے کہ ایک ملک پر آپ حملہ کر کے اس کی سلامتی کے ضامن کیمیائی ہتھیاروں کو بھی تباہ کریں اور ساتھ میں اسے امن کا پیغام بھی دیں؟
اس حملے سے چند روز پہلے کنگز کالج لندن میں سیکورٹی سٹڈیز کے ایسوسی ایٹ پروفیسر آندریاس کریگ نے خبردار کیا تھا کہ اگر امریکہ براہ راست ایران کے خلاف جنگ میں شامل ہوا تو خلیجی خطے میں شدید نوعیت کی کشیدگی بھڑک اٹھے گی۔
ایران کی طرف سے اس حملے کے بعد تادم تحریر فوری ردعمل تو سامنے نہیں آیا، مگر سرکاری خبر رساں ایجنسی آئی آر این اے نے ایک نشریاتی ادارے کے افسر کے حوالے سے بتایا ہے کہ ان تینوں جوہری مراکز سے تابکار مواد پہلے ہی نکال لیا گیا تھا، جس کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ ایران کو پہلے سے اس حملے کا خدشہ تھا۔ ادھر الجزیرہ کی رپورٹر ڈورسا جباری نے قطر سے رپورٹ کیا کہ امریکہ کی طرف سے جن تین مراکز پر حملہ کیا گیا وہ ایران کے جوہری پروگرام کے بنیادی ستون تھے۔ فورڈو اور نطنز وہ مراکز ہیں جہاں ایران 60 فیصد تک یورینیم افزودہ کر رہا تھا، جبکہ اصفہان میں یورینیم کو افزودہ شکل میں تبدیل کیا جاتا تھا۔ سنہ 2022ء کی آئی اے ای اے رپورٹ کے مطابق 90 فیصد افزودہ یورینیم اصفہان ہی میں ذخیرہ کیا گیا تھا۔ ایران میں کل چھ جوہری مراکز ہیں اور امریکہ نے جن تین پر حملہ کیا وہ سب سے اہم شمار ہوتے ہیں۔
اسی دوران ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے آفیشل ٹیلیگرام اکاؤنٹ پر ان کا ایک پرانا وارننگ ویڈیو دوبارہ شیئر کیا گیا، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اگر امریکہ اس جنگ میں اسرائیل کے ساتھ شریک ہوتا ہے تو "سب سے زیادہ نقصان خود امریکہ کا ہو گا۔” جبکہ ایران پر براہ راست امریکی حملے کی صورت میں چین اور روس نے بھی وارننگ دی تھی کہ وہ ایران کے دفاع اور مشرق وسطی کے امن کو تباہ کرنے کی اجازت نہ دیتے ہوئے نہ صرف ایران کا مکمل دفاع کریں گے بلکہ خلیجی ممالک میں امریکی اڈوں کو بھی نشانہ بنائیں گے۔ اب دیکھنا یہ ہے امریکی صدر کے امن کا یہ جنگجوعانہ پیغام کیا رخ اختیار کرتا ہے۔
اپنے طور پر تو امریکی صدر دنیا بھر کے اپنے ناپسندیدہ ممالک پر جارحانہ حملے کر کے امن قائم کرنے کی خواہش رکھتے ہیں اور اس کے بدلے خود کو نوبل پرائز کا حقدار بھی ٹھہراتے ہیں مگر یہ طریقہ اپناتے ہوئے امن قائم نہیں کیا جا سکتا۔ امن قائم کرنے کا ایسا جارحانہ رویہ فریب اور مغالطے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اس سے دنیا میں امن قائم کرنا اور خاص طور پر مشرق وسطی میں جنگ بندی کی لوری دینے کی بین بجانا دھوکہ دینے کے علاوہ کوئی اہمیت نہیں رکھتی ہے۔ یہ طریقہ جنگ کو ہوا تو دے سکتا ہے اسے جنگ بندی یا امن قائم کرنے پر آمادہ نہیں کر سکتا ہے۔ امریکی صدر کو حقیقی دنیا میں رہ کر سوچنا چاہئے۔ جنگ نفع و نقصان کا کاروباری عمل نہیں، بلکہ یہ وسائل اور انسانی زندگیوں سے کھیلنے کی نفرت انگیز سوچ یے۔
Title Photo by Pixabay

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |