بوگس شناختی کارڈ رکھنے والے افغان مہاجرین
ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترال*
افغان مہاجرین کا مسئلہ پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ پیچیدہ اور طویل المیعاد انسانی و انتظامی چیلنجوں میں سے ایک رہا ہے۔ یہ معاملہ صرف سرحدی نقل مکانی یا پناہ گزینی تک محدود نہیں بلکہ اس نے پاکستان کے سماجی، معاشی، سکیورٹی اور شناختی نظام پر گہرے اثرات ڈالے ہیں۔ حالیہ سرکاری اعلان میں کہا گیا ہے کہ بوگس شناختی کارڈ رکھنے والے افغان مہاجرین کے خلاف یکم ستمبر 2025 سے عملی کارروائی کا اعلان کیا گیا ہے، یہ حکم دراصل ایک تاریخی تسلسل کی کڑی ہے جو 1979ء کے افغان جہاد سے شروع ہو کر آج کے ڈیجیٹل شناختی عہد تک پہنچ چکی ہے۔
1979ء میں سوویت یونین کے افغانستان پر حملے کے بعد لاکھوں افغان شہری ہجرت کر کے براستہ آرندو چترال اور براستہ چمن بارڈر پاکستان آئے۔ اس وقت کی حکومت نے انسانی ہمدردی کے تحت ان مہاجرین کو پناہ دی، مگر ان کی رجسٹریشن، قانونی حیثیت اور واپسی کے مؤثر منصوبے پر کبھی جامع حکمتِ عملی نہ بن سکی۔ وقت کے ساتھ افغان مہاجرین پاکستانی شہروں، دیہاتوں، کاروباروں اور حتیٰ کہ سرکاری محکموں میں بھی ضم ہوتے چلے گئے۔
1990ء کی دہائی میں جب نادرا کا قیام عمل میں آیا، تو شناختی نظام کو منظم کرنے کی کوشش کی گئی، مگر کرپشن اور کمزور نگرانی نے کئی افغان شہریوں کو جعلی پاکستانی شناختی کارڈ حاصل کرنے کا موقع دیا۔ سیاسی سرپرستی، رشوت اور سفارش نے اس عمل کو مزید خطرناک بنا دیا۔
آج نادرا کے ڈیٹا بیس میں ہزاروں ایسے ریکارڈ موجود ہیں جن میں افغان شہریوں نے خود کو پاکستانی ظاہر کیا ہوا ہے۔ ان میں سے بعض نے زمینیں خریدیں، کاروبار کیے اور کچھ نے سیاسی وابستگیاں بنا کر اثر و رسوخ حاصل کیا۔ رپورٹوں کے مطابق پشاور اور کوئٹہ جیسے علاقوں میں یہ رجحان سب سے زیادہ ہے، جہاں کئی افغان خاندانوں نے جعلی رشتہ داریوں (والد یا والدہ کا نام بدل کر) کے ذریعے شناختی کارڈ حاصل کیے۔
حکومت پاکستان نے اب جو فیصلہ کیا ہے، وہ نہ صرف ایک انتظامی قدم ہے بلکہ قومی سلامتی کے تناظر میں ایک فیصلہ کن مرحلہ بھی ہے۔ ایسے تمام افراد کے لیے پیغام واضح ہے کہ جعلی شناخت یا غیرقانونی رہائش اب برداشت نہیں کی جائے گی۔
حکومت پاکستان کا یہ اعلان کئی اہم سوالات کو جنم دیتا ہے۔ اول یہ کہ کیا حکومت کے پاس وہ عملی صلاحیت موجود ہے کہ وہ لاکھوں مشتبہ ریکارڈز کو مکمل طور پر صاف کر سکے؟
دوم یہ کہ ان جعلی کارڈز کے اجراء میں ملوث نادرا کے سرکاری اہلکاروں اور سیاسی شخصیات کے خلاف بھی کیا واقعی کارروائی ہوگی؟
سوم یہ کہ اگر یہ افغان مہاجرین واپس بھیجے گئے تو کیا افغانستان کی موجودہ غیر مستحکم صورت حال انہیں قبول کرنے کی پوزیشن میں ہے؟
ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ کئی افغان خاندان اب دوسری اور تیسری نسل میں پاکستان میں پیدا ہو چکے ہیں۔ ان کی سماجی و ثقافتی وابستگیاں پاکستانی معاشرے کے ساتھ جڑ چکی ہیں۔ ان کے لیے "ملک بدر” ہونا محض قانونی نہیں بلکہ انسانی المیہ بھی بن سکتا ہے۔
یہ کہنا درست ہوگا کہ ریاست نے کئی دہائیوں تک اس مسئلے کو سیاسی مصلحتوں، انسانی ہمدردی اور وقتی انتظامات کے درمیان دبائے رکھا۔ اب جبکہ صورتحال ایک بحرانی شکل اختیار کر چکی ہے، حکومت کو سخت فیصلے لینے پڑ رہے ہیں۔ مگر اصل سوال یہ ہے کہ کیا صرف افغان مہاجرین کو قصوروار ٹھہرانا انصاف ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ بوگس شناختی کارڈ کے اجراء میں ملوث نادرا اہلکار، بااثر سیاسی رہنما اور مافیا طرز کے دلال اصل ذمہ دار ہیں جنہوں نے چند ہزار روپے کے بدلے ریاستی سلامتی کو خطرے میں ڈالا۔ اگر ان کے خلاف شفاف اور غیرجانبدار کارروائی نہیں کی گئی تو یہ مہم بھی محض ایک وقتی دعویٰ بن کر رہ جائے گی۔
پاکستان کی ریاست کے لیے اب یہ لمحہ فیصلہ کن ہے۔ جعلی شناخت کا خاتمہ صرف افغان مہاجرین کے اخراج سے ممکن نہیں بلکہ پورے نظام کی اصلاح سے وابستہ ہے۔ اگر حکومت واقعی سنجیدہ ہے تو اسے دو سطحوں پر کام کرنا ہوگا جن میں سرفہرست قانونی و انتظامی سطح ہے۔ نادرا، ایف آئی اے اور داخلہ اداروں کو بااختیار بنا کر ملوث اہلکاروں کے خلاف بلا تفریق کارروائی کی جائے۔
ان افغان خاندانوں کے لیے باعزت واپسی اور بین الاقوامی اداروں کے تعاون سے بحالی کا پروگرام شروع کیا جائے۔
پاکستان کا مفاد اسی میں ہے کہ وہ اپنے شناختی اور سلامتی کے ڈھانچے کو شفاف، مضبوط اور انسانی اصولوں کے مطابق بنائے۔ افغان مہاجرین کے بوگس شناختی کارڈ کا معاملہ دراصل ایک بڑے ریاستی امتحان کی علامت ہے جہاں قانون، انصاف اور انسانیت تینوں کا توازن برقرار رکھنا ضروری ہے۔
Title Image by Mohamed Hassan from Pixabay
رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق چترال خیبرپختونخوا سے ہے، اردو، کھوار اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ آپ کا اردو ناول ”کافرستان”، اردو سفرنامہ ”ہندوکش سے ہمالیہ تک”، افسانہ ”تلاش” خودنوشت سوانح عمری ”چترال کہانی”، پھوپھوکان اقبال (بچوں کا اقبال) اور فکر اقبال (کھوار) شمالی پاکستان کے اردو منظر نامے میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں، کھوار ویکیپیڈیا کے بانی اور منتظم ہیں، آپ پاکستانی اخبارارت، رسائل و جرائد میں حالات حاضرہ، ادب، ثقافت، اقبالیات، قانون، جرائم، انسانی حقوق، نقد و تبصرہ اور بچوں کے ادب پر پر تواتر سے لکھ رہے ہیں، آپ کی شاندار خدمات کے اعتراف میں آپ کو بے شمار ملکی و بین الاقوامی اعزازات، طلائی تمغوں اور اسناد سے نوازا جا چکا ہے۔کھوار زبان سمیت پاکستان کی چالیس سے زائد زبانوں کے لیے ہفت پلیٹ فارمی کلیدی تختیوں کا کیبورڈ سافٹویئر بنا کر عالمی ریکارڈ قائم کرکے پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں۔ آپ کی کھوار زبان میں شاعری کا اردو، انگریزی اور گوجری زبان میں تراجم کیے گئے ہیں ۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |