وزیراعظم پاکستان اور فیلڈ مارشل چیف کی خدمت میں چند گزارشات
اقوام کی زندگیوں میں ایسے مواقعہ بہت کم آتے ہیں جب وہ کٹھن امتحانات سے سرخرو ہو کر نکلتی ہیں تو اچانک انقلابی ترقی کی راہ پر فطری طور پر گامزن ہو جاتی ہیں۔ انقلاب کا ایک مفہوم بھی یہی ہے کہ جس طرح سینے میں قلب الٹا لٹکا ہوا ہوتا ہے، اسی طرح "انقلاب” بھی اقوام کی زندگیوں اور حالات کو الٹے رخ پر پھیرتا ہے۔ اگر کوئی قوم کم و بیش زندگی کے تمام شعبوں میں گرواٹ اور بدحالی کا شکار ہو تو یہ بدیہی تبدیلی ان سارے کے سارے شعبوں میں اچانک بہتری لانے لگتی ہے۔ کارگاہ فطرت نے یہ انقلابی تبدیلیوں کا ایک خود کار نظام ترتیب دے رکھا ہے جو اقوام کے ہر فرد میں لاشعوری طور پر اصلاح احوال کے لیئے بیدار ہو جاتا ہے۔ ترقی پذیر اقوام کی زندگیوں میں ایسے مواقعہ خوشی قسمتی سے آتے ہیں۔
جیسا کہ، "ہر کالے بادل میں ایک سلور لائن ہوتی ہے”، اسی طرح انڈیا اور مودی جی کے آپریشن سندور نے کرپشن جیسے بدنام زمانہ ماحول میں ڈوبے ہوئے پاکستان کو یہ موقعہ فراہم کیا کہ وہ بطور قوم اپنی "ازسرنو تشکیل” (Reconstruction) کے لیئے اندھیرے حالات میں صرف امید کی موہوم کرنوں کو تلاش کرے۔ اس موڑ پر حالات پہلے ایک قوم کو اچھی طرح جھنجھوڑتے ہیں، تاکہ اس قوم کی اپنی حالت پر آنکھیں کھل جائیں، جس کے بعد وہ قوم حوصلہ باندھ کر اٹھ کھڑی ہو تو آنے والا ہر دن اس کے لیئے کامیابی کی نوید لے کر ابھرتا ہے۔ جب 7مئی کو انڈیا نے بہاولپور سمیت پاکستان کے دیگر سات مختلف شہروں پر حملہ کیا تو پاکستان نے انتہائی صبر و تحمل کے ساتھ سٹریٹیجک وار فیئر کے ساتھ 10مئی کو "معرکہ حق بنیان مرصوص” کے زریعے ہندوستان پر حملہ کیا جس نے نہ صرف بھارت کو ہلا کر رکھ دیا بلکہ پاکستان کی جنگی مہارت اور ہوائی قوت نے پوری دنیا کے جنگی ماہرین کو بھی ششدر کر دیا کہ جس کے بعد انڈیا جنگ بندی (Cease Fire) کی بھیک مانگنے پر مجبور ہو گیا تھا۔
مئی 2025ء کی پاک بھارت جنگ سے پہلے تک دنیا بھر میں پاکستان کا قومی تشخص ایک "مفلس اور نادار معاشی ریاست” جیسا تھا جس کا بال بال قرضوں میں ڈوبا ہوا تھا، جس کے سیاست دان کرپٹ اور فوج سیاست میں ملوث ہونے کے لیئے بدنام تھی۔ دنیا بھر کے دوست ممالک میں پاکستانی حکمران "کشکول” اٹھائے پھرتے تھے، جن کو اپنے بردار اور دوست اسلامی ممالک بھی طعنے دیتے تھے کہ خودداری پیدا کرو اور اپنے معاشی حالات کو خود بہتر بناو’ یعنی پاکستان کو اس کے اپنے بھی قدر کی نگاہوں سے نہیں دیکھتے تھے۔ لیکن پھر کیا ہوا کہ انڈین جارحیت نے رات و رات پاکستانی وقت کے دھارے کو الٹا چلنے پر مجبور کر دیا۔
گزشتہ روز جب آرمی چیف حافظ عاصم منیر نے "فیلڈ مارشل” بننے پر آرمی ہاوس میں عشائیہ دیا تو میں سوچ رہا تھا کہ صدر مملکت، وزیراعظم، چاروں صوبوں کے وزرائے اعلی، ممبران کابینہ اور دیگر اعلی افسران کی موجودگی میں، سارے شرکاء بھی یہ ضرور سوچ رہیں ہوں گے کہ اب پاکستان کی تاریخ یوں لکھی جائے گی کہ جنگ 2025ء سے پہلے کا پاکستان کیسا تھا اور اب جنگ 2025ء کے بعد کا پاکستان کیسا ہونا چاہئے؟ جس قدر پاکستان کی دنیا بھر کی نظروں میں عزت اور افادیت یکدم بحال ہوئی ہے، پاکستان کے لیئے تیزترین ترقی کرنے اور معاشی بدلاو لانے کا اس سے اچھا اور نادر موقعہ پھر شائد ہی آ سکے۔ یہ عظیم ترین موقعہ، "اب نہیں تو کبھی نہیں” (Now or Never) جیسا ہے۔پاکستان واقعی اب ایک ایسے ہی نازک موڑ سے گزر رہا ہے۔ انڈیا سے مختصر مگر تاریخ ساز جنگ جیتنے کے بعد یہاں سے پاکستان ایک "عظیم الشان چھلانگ” لگا سکتا ہے کہ پاکستان زندگی کے ہر میدان میں خود کو دنیا کی ایک عظیم ترین قوم ثابت کر دے۔
پاکستان کی نہ صرف ایئرفورس نے ہندوستان کو چاروں شانوں چت کیا بلکہ پاکستان کے "سائبر اٹیک” نے پوری دنیا کے نشریاتی اداروں اور ماہرین کے کان کھڑے کر دیئے۔ پاکستان کے سائبر حملے نے جنگی حکمت عملیوں کے معیارات تک کو یکسر بدل کر رکھ دیا۔ پاک بھارت کی جنگ 2025ء کو ٹنیکوں اور پیدل فوجیوں کی نقل و حرکات، ماردھاڑ یا آسمان میں میزائلوں کی بھرمار اور لڑاکا جیٹ طیاروں کی بدمست اور تباہ کن روایتی پروازوں سے زیادہ خاموش جنگی حکمت عملی کے حوالے سے یاد رکھا جائے گا، جس کے ذریعے پاکستان نے بھارت کے خلاف یہ جنگ حیران کن طریقے سے بڑے اطمینان سے جیت لی اور 1971ء کا حساب بھی آنا فانا چکتا کر دیا۔ طاقت اور ہتھیاروں کے حوالے سے پاکستان اور بھارت کا کوئی مقابلہ نہیں تھا۔ پاکستان نے بھارت کے استعمال میں آنے والے اسرائیلی ایڈوانسڈ ڈرونز اور فرانسیسی رافیل طیاروں کو اپنی جنگی مہارت سے دھول چٹا دی۔ اس سے قبل ساوتھ ایشیاء میں سائبر وار کا استعمال نہیں کیا گیا تھا کہ جس طرح پاکستان نے انتہائی رازداری سے ایک بھی گولی چلائے بغیر سائبر حملہ کر کے بھارت کو شش و پنچ میں مبتلا کر دیا!
گلوبل سائبر انٹیلیجنس ریویو (GCIR) کے مطابق پاکستان نے بھارت کے 507 سے زیادہ حساس حیثیت کے حامل فوجی کارروائیاں کرنے والے ٹھکانوں کو جام کر دیا جس میں دفاع، اطلاعات و نشریات، الیکشن کمیشن سرورز، معاشیات کا ڈاٹا بیس، انٹیلیجنس کوآرڈینیشن گرڈز، انڈین سکاڈا سسٹمز (SCADA Systems)، پانی کا نظام، صنعت اور زراعت وغیرہ کا نظام شامل ہیں۔ یہاں تک کہ منٹوں میں بھارت کے 70 فیصد حصے میں بجلی فیل ہو گئی جس سے ہسپتالوں، میٹرو سسٹم، پیٹرول سٹیشنز، کارگو، ٹرانسپورٹ، ایئرپورٹس اور ریلوے کا نظام برباد ہوا جہاں آگ بھڑک اٹھی اور 2900 بھارتی ٹرینین راستے ہی میں رک گئیں اور جس سے 50 ملیئن سے زیادہ انڈین افراد متاثر ہوئے۔
پاکستان نے انڈیا کے تین انرجی کے مراکز کو نشانہ بنایا جس میں گجرات ونڈ فارمز اور دہلی کے سب سٹیشنز بھی شامل ہیں جبکہ پاکستان کے سائبر حملے نے اتر پردیش اور مقبوضہ کشمیر کے ٹرانسفارمرز کو بھی ہیک کر لیا یا مکمل طور پر تباہ کر دیا جس سے انڈیا کی ہمت جواب دے گئی اور اس کا مورال یکسر گر گیا جس کی تصدیق زیادہ تر عالمی نشریاتی ادرواں نے کی جس میں 10مئی کی بی بی سی ورلڈ سروس اور 20مئی کی ریکٹر اینڈ فائر آئی سائبر سیکورٹی شامل ہیں جس کی تصدیق 21مئی کو خود انڈیا نے بھی کی۔ اس دوران انڈیا کے اپوزیشن لیڈر راہول گاندھی نے لوک سبھا میں مطالبہ کیا کہ اس بات کی تحقیق ہونی چایئے کہ ہمارے سیکورٹی سسٹم اور فائر والز کو پاکستان کیسے توڑ کر بلا روک ٹوک دندانتا پھرتا رہا۔
مملکت خداداد پاکستان کے وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف، آرمی چیف آف سٹاف فیلڈ مارشل حافظ عاصم منیر اور باقی مقتدرہ کے لیئے یہ قابل فخر اور تاریخ ساز فتح "لمحہ فکریہ” ہے کہ اسے برقرار کیسے رکھنا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ آزمائش کا یہ تاریخی لمحہ ہمارے لیئے ایک "انقلاب آفریں موقعہ” ہے تو بے جا نہ ہو گا۔ پاکستان میں چاہے وہ 1965ء اور 1971ء کی جنگ تھی، زلزلے کی کوئی تباہ کاری تھی یا کوئی سیلاب اور زلزلے کا قیامت خیز وقت تھا، پاکستانی قوم نے ہمیشہ اپنے وطن کی مٹی سے پیار کرتے ہوئے وفا کی لاج رکھی اور وہ اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کے شانہ بشانہ کھڑی ہو گئی۔ اگر آج ہمارے یہ حکومتی اور مقتدری کارپرداز اس موقعہ سے فائدہ اٹھا کر زندگی کے ہر شعبے سے "کرپشن” کا خاتمہ کریں اور ان میں انقلابی تبدیلیاں لانے کا آغاز کریں تو فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر اور وزیراعظم شہباز شریف کو پاکستان کی تاریخ میں "سنہری دور” کا آغاز کرنے والوں میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا، کیونکہ قومیں اسی موڑ پر اپنے پاؤں پر کھڑی ہوتی ہیں جب وہ ایک مشکل وقت پر سرخرو ہو جائیں تو وہ باقی مشکلات سے نکلنے کے لیئے بھی تیار ہو چکی ہوتی ہیں۔

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |