تقریظ : آخرِ شب کی مناجات
تقریظ نگار:۔ سید حبدار قائم
سعادت حسن آس کی تخلیق کاری، کلاسیکل روایت، جمالیاتی ذوق، ادب آموزی، ہنر مندی اور ندرت بیانی بہت سارے شعراء سے مختلف ہیں آپ اپنے تخلیقی شعور میں سہل ممتنع سلاست بلاغت اور عشق و وارفتگی رکھتے ہیں اور خوب لکھتے ہیں میرے نزدیک جس کا خیال اچھا ہے اس کا حال اچھا ہے اور حُسنِ خیال مضمون آفرینی میں چاشنی لاتا ہے اچھا خیال کائنات کے مناظر بدل دیتا ہے
اٹک کی سر زمین میں عشقِ رسول صلى الله عليه واله وسلم کا عنصر موجود ہے جس کی وجہ سے یہاں حضرت نذر صابریؒ صاحب جیسے پھول کھلے جن کی خوشبو رہتی دنیا تک ادب اور ادیب کو مہکاتی رہے گی اور ان کے طفیل عظیم نعت گو شاعر پیدا ہونا ایک واضح دلیل ہے میرے خیال میں
عاشقِ رسول صلى الله عليه واله وسلم حضرت نذر صابریؒ کے ساتھ بیٹھنے والے ایسے تخلیق کار پیدا ہونا باعثِ فخر ہیں سعادت حسن آس بھی ایسے ہی پھول ہیں جن کی خوشبو دور دور تک پھیلی ہوئی ہے اور سر زمینِ اٹک کو معنبر کرتی ہوئی دلوں کو مہکا رہی ہے
اٹک کی نعت گوئی میں آپ کا نام بہت معتبر ہے جنہوں نے 50 سال نعت کی خدمت کی ہے انہیں کئی اعزازات سے نوازا گیا اور حال ہی میں لاہور کے لوگوں نے ان کی نعتیہ خدمات پر تاج پوشی کی ہے مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ اٹک شہر کے نعت گو شعراء میں سب سے سینیئر سعادت حسن آس ہیں جنہوں نے مجھے بھی نعت کی دولت سے مالا مال کیا اور مجھے نعت لکھنے کا ہنر سکھایا نعت کے آداب سکھائے میں ان کی اس خدمت پر ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور آج ان کی نئی کتاب ”آخرِ شب کی مناجات “ پر کچھ لکھنے کی سعادت حاصل کرتا ہوں
فکر و نظر کے پھول جب الہام میں کِھلتے ہیں تو صوتی ترنگ اشعار کی صورت میں قرطاس پر بکھر جاتی ہے جو اپنی تمام تر خوشبو سے عقل و دانش والے شاہسواروں کو نئی سمت اور نئے زاویے عطا کرتی ہے کلام کے محاسن قاری کو خود بخود اپنی طرف کھینچتے ہیں اور خاص طور پر وہ کلام جو اللہ رب العزت کی جانب سے دل پر اترتا ہے ایسا کلام ضرب المثل بن جاتا ہے ہم نے دیکھا ہے کہ بہت سارے شعرا اس کیٹگری میں آتے ہیں جن کا کلام ضرب المثل بن کر ہر زباں پر جاری ہے اگر ایسے شعرا کا ذکر کیا جاۓ تو بات بہت لمبی ہو جاۓ گی سعادت حسن آس ایسے خوش نصیب شاعر ہیں جن کی شاعری عشقِ رسول صلى الله عليه واله وسلم کا طواف کرتی ہے وہ کبھی مدینہ کی گلیوں کبھی گنبد خضرٰی کبھی غارِ حرا اور کبھی آنحضورؐ کی سیرت اور حسن و جمال کے گرد گھومتی ہے آپ حضورؐ پر نور کو ہی سوچتے ہیں دیکھتے ہیں اور ان پر ہی لکھتے ہیں حمد نگاری نعت نگاری میرے نزدیک عقیدہ نگاری بھی ہے اور والہانہ عقیدت کی غماز بھی ہے سرکار کی توصیف و ثنا تقدیسی شاعری کہلاتی ہے جو دوسری تمام اصناف سے ممتاز ہے اور ان کے لکھنے والے بہت خوش نصیب ہیں زیر نظر کتاب میں میرے نزدیک جس چیز کی اہمیت ہے وہ آخرِ شب ہے جس میں یہ سارے کلام لکھے گئے ہیں آئیے ان پر طائرانہ نظر ڈالتے ہیں اور یہ فیصلہ قارئین پر چھوڑتے ہیں کہ کلام کے محاسن اور اس کا سوز و گداز آخرِ شب میں کیسا تخلیق کیا گیا ہے
سعادت حسن آس کے عشق و وجدان میں ڈھلے فن پاروں کا عکس ہاۓ جمیل درج ذیل اشعار میں ملاحظہ کیجیے:۔
تیرے محبوب کی الفت میں اٹھایا ہے قلم
میرے جذبات کی تاثیر سلامت رکھنا
آپ سے پہلے جہاں میں تیرگی کا راج تھا
آپ آئے راج رنگ و نور کا دیکھا گیا
دل ہجر کا مارا تھا یادوں کی ادا اوڑھے
شب نیم کھلے چھت پر روتا رہا دیوانہ
کوئی بھی رنج نہ بھٹکے گا آس پاس تیرے
فصیلِ حفظ و اماں پر درود جاری کر
ان کی حسین یاد سے مہکے تمام رات
ان کی ثنا سے دن کی شروعات چاہیے
اپنی روح میں جوت جگا صلِ علی محمدؐ
اپنی ذات پہ رنگ چڑھا صل علی محمدؐ
عشقِ نبیؐ کی راہ پہ چلنے کے آداب خریدے
بے زر تھے سو آنکھیں بیچ کے ان کے خواب خریدے
رحمتوں کے تاج والے رحمت العالمیں
آپ سا کون و مکاں میں با خدا کوئی نہیں
آنکھ پتھرائی رہی جب تک رہا پتھر کا دل
دل ہوا جب موم کا ان کا کرم ہونے لگا
آپ کی توصیف لکھنے کو دیا رب نے قلم
اس لیے نوکِ قلم پر مدح خوانی آپ کی
آپ سے پہلے جہاں میں در بدر تھا آدمی
آپ نے رب سے ملایا مہربانی آپ کی
تیرگی ہی تیرگی تھی آپ کی آمد سے قبل
روشنی ہی روشنی اب آپ کی آمد کے بعد
نینوں کی جھیلوں پر جو بے تاب کھڑے ہیں اڑنے کو پنکھ بکھیرو ان حرفوں کے تانے بانے کیا کہنے
کھل گیا آئینہ ء دل آپ کا ہونے کے بعد
زندگی ہے اب مکمل آپ کا ہونے کے بعد
رونقِ ارض و سما مرہونِ منت آپ کی
چاند تاروں ،کہکشاؤں میں فروزاں آپ ہیں
نور کی لے کر فرشتے آ رہے ہیں ڈالیاں
رحمتوں کا در کھلا ہے روشنی ہے رقص میں
ان کی آمد پہ ہر اک سمت اجالے پھوٹے
نور سینوں میں لیے ماہ و نجم اترے ہیں
عرشِ اعظم سے مناجات کی کلیاں اتریں
نور ہی نور کی برسات ہوئی تیرے لیے
خاموشیوں کے پہرے لگاؤ زبان پر
آنکھوں سے ہو کلام دیار رسول پر
روشنی ترا پرتو چاندنی ترا دھوون
کیا مثال دوں تیری کیا نہیں ہے، کیا ہے تو
تری نعت کے کرم نے اسے معتبر کیا ہے
کہاں آس ہے وگرنہ کہاں تری شاعری ہے
آخر میں دعاگو ہوں کہ اللہ تعالٰی سعادت صاحب کی زندگی دراز فرماۓ اور انہیں ایسے اشعار تخلیق کرنے کی مزید توفیق عطا فرماۓ۔ آمین ثم آمین
میرا تعلق پنڈیگھیب کے ایک نواحی گاوں غریبوال سے ہے میں نے اپنا ادبی سفر 1985 سے شروع کیا تھا جو عسکری فرائض کی وجہ سے 1989 میں رک گیا جو 2015 میں دوبارہ شروع کیا ہے جس میں نعت نظم سلام اور غزل لکھ رہا ہوں نثر میں میری دو اردو کتابیں جبکہ ایک پنجابی کتاب اشاعت آشنا ہو چکی ہے
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |