نئی سرد جنگ کا ہولناک خطرہ
ایک بار پھر سرد جنگ کا آغاز ہوا چاہتا ہے۔ پہلی سرد جنگ ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور سویت یونین کے درمیان تھی جو 1940ء سے 1991ء تک جاری رہی۔ یہ سرد جنگ نظریاتی، سیاسی اور معاشی تناؤ کے طور پر جاری رہی، جس میں براہِ راست جنگ کی بجائے پراکسی جنگوں اور سفارتی دباؤ کا استعمال کیا گیا. جبکہ حالیہ سرد جنگ چین اور امریکہ کے درمیان شروع ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ چائنا ایک ابھرتی ہوئی معاشی، فوجی اور سیاسی "سپر پاور” کے طور پر ابھر رہا ہے، جو دنیا بھر میں امریکہ کو زندگی کے ہر شعبے میں چیلنج کر رہا ہے۔
جنگ عظیم دوم (1939-1945) کے بعد کم و بیش آدھی صدی سے زیادہ عرصے تک جاری رہنے والی یہ پہلی سرد جنگ دونوں سپر پاورز اور اس کے اتحادیوں کے درمیان تھی۔ اس پورے عرصے میں یہ دو عظیم قوتیں مختلف شعبہ ہائے حیات میں ایک دوسرے کی حریف رہیں جن میں عسکری اتحاد، نظریات، نفسیات، جاسوسی، فوجی قوت، صنعت و حرفت، تکنیکی ترقی، خلائی دوڑ، دفاع پر کثير اخراجات، روایتی و جوہری ہتھیاروں کی دوڑ اور کئی دیگر شعبہ جات شامل ہیں۔ اگرچہ یہ جنگ امریکہ اور روس کے درمیان براہ راست عسکری مداخلت کی جنگ نہ تھی، مگر یہ عسکری تیاری اور دنیا بھر میں اپنی حمایت کے حصول کے لئے سیاسی جنگ تھی۔ حالانکہ امریکہ اور سوویت یونین دوسری جنگ عظیم میں جرمنی کے خلاف متحد تھے۔ اس کے باوجود جنگ عظیم دوم کے اختتام پر تعمیر نو کے حوالے سے ان دونوں طاقتوں کے نظریات اور مفادات بالکل جدا ہو گئے۔ چند دہائیوں میں سرد جنگ یورپ اور دنیا کے ہر خطے میں پھیل گئی۔ امریکہ نے اشتراکی نظریات کی روک تھام کے لئے خصوصاً مغربی یورپ، مشرق وسطٰی اور جنوب مشرقی ایشیا میں کئی ممالک سے اتحاد قائم کئے۔ اس دوران کئی مرتبہ ایسے تنازعات پیدا ہوئے جو دنیا کو "تیسری عالمی جنگ” کے دہانے پر لے آئے، جن میں برلن ناکہ بندی (1948-1949)، جنگ کوریا (1950ء -1953)، جنگ ویتنام (1959-1975)، کیوبا میزائل بحران (1962) اور سوویت افغان جنگ (1979-1989) قابل ذکر ہیں۔ ان بحرانوں کے علاوہ ایسے ادوار بھی آئے جس میں دونوں ممالک کے درمیان تناؤ میں کمی واقع ہوئی۔ 1980ء کی دہائی کے اواخر میں سرد جنگ اس وقت اختتام پزیر ہونے لگی جب سوویت رہنما میخائل گورباچوف نے امریکی صدر رونالڈ ریگن سے متعدد ملاقاتیں کیں اور ساتھ ساتھ اپنے ملک میں اصلاحاتی منصوبہ جات کا اعلان کیا۔
پہلی سرد جنگ کے دوران سویت یونین مشرقی یورپ میں اپنی فوجی اور سیاسی قوت کھوتا رہا اور بالآخر سنہ 1991ء میں ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا جس کے بعد پہلی سرد جنگ کا بھی خاتمہ ہو گیا۔ سرد جنگ کے منفی اثرات تو تھے مگر اس کے ختم ہونے پر اس کے مثبت اثرات "سامراجی نظام کے خاتمہ” اور دنیا کے نقشے پر ابھرنے والے نئے آزاد ممالک کی شکل میں سامنے آئے۔ پہلی جنگ عظیم (1914-1918) چار سال تک جاری رہی جس میں 32 ممالک نے حصہ لیا اور مجموعی طور پر 2 کروڑ 30 لاکھ انسان لقمہ اجل بنے۔ جنگ عظیم دوم (1939-1945) چھ سال جاری رہی اس میں 62 ممالک نے حصہ لیا اور دنیا کی 80 فیصد آبادی نے یہ جنگ جھیلی، اور اس میں براہ راست حصہ لیا. یہ دو عظیم جنگیں تاریخ کا "ٹرننگ پوانٹ” ثابت ہوئیں. پہلی جنگ میں سلطنت عثمانیہ کا جبکہ دوسری جنگ میں سلطنت برطانیہ اور جرمنی کا شیرازہ بکھرا. اس کے نتیجے میں امریکہ اور روس 2 بڑی سپر پاور بن گئے.
ان دو عظیم جنگوں کے باعث یورپ کا پورا نظام تباہ و برباد ہو گیا کیونکہ یہ جنگیں سرزمین یورپ پر لڑی گئیں، پانی بجلی، گیس ٹرانسپورٹ اور ہر قسم کا انفراسٹرکچر تباہ و برباد ہو گیا اور ہر گھر میں صف ماتم بچھ گئی۔ اس جنگ کے باعث کافی عرصہ تک اہل یورپ کو سورج کی کرنیں دیکھنا نصیب نہ ہوئیں، دھویں کے بادل چھائے رہے، بیماریاں پھیل گئیں، لوگ ملبے تلے دب کے مر گئے، الغرض ان دو بڑی جنگوں نے یورپ کے لوگوں کی عقل کو ٹھکانے لگا دیا، ان جنگوں کے بعد ایک دوسرے کے خون کے پیاسے یورپی ممالک بھائی بھائی بن کر رہنے لگے، یہاں تک کہ "یورپی یونین” نام کا ایک گروپ بنا لیا گیا۔
اکتوبر 2025ء میں شروع ہونے والی نئی سرد جنگ بنی نوع انسان کی بقا اور سلامتی کے لیئے ایک نیا خوفناک ترین خطرہ ہے۔ پہلی سرد جنگ جنگ عظیم دوم کے دو اتحادیوں روس اور امریکہ کے درمیان تھی مگر حالیہ سرد جنگ چین اور امریکہ کے درمیان ہے جو جنگی، دفاعی اور معاشی لحاظ سے ایک دوسرے کے غیر روایتی حریف ہیں۔ اگرچہ روئے زمین پر انسان اپنی ابتداء ہی سے خطرات سے دوچار رہا ہے، مگر یہ تازہ خطرہ اس لحاظ سے زیادہ خوفناک ہے کہ پہلے انسان کو ماحول، قدرتی آفات اور جنگلی درندوں وغیرہ سے خطرات لاحق تھے، جبکہ اس بار اس کا پالا اپنے جیسے ان بنی نوع انسانوں سے پڑا ہے جو پہلے سے سو گنا زیادہ خطرناک کیمیائی ہتھیاروں سے لیس ہیں۔
تاریخ انسانی کا یہ ایسا نیا ہولناک موڑ ہے جہاں پر پہنچ کر بنی نوع انسان کی زندگی روئے زمین سے مکمل طور پر بھی نیست و نابود ہو سکتی ہے۔ ایک طرف مشرق وسطی میں قیام امن کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو رہا ہے۔ اسرائیل اپنی ہٹ دھرمی قائم رکھے ہوئے ہے اور غزہ میں "ہیومن جینوسائڈ” کا مسئلہ پیدا ہو چکا ہے۔ دوسری طرف "مسئلہ کشمیر” پاکستان اور بھارت کے درمیان باعث نزع ہے۔
اس پس منظر میں چین کے ایک دفاعی ترجمان نے امریکہ کو وارننگ جاری کرتے ہوئے چند روز پہلے اپنی ایک پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ چائنا اپنے جدید میزائل نظام سے 20 منٹ کے اندر دنیا کے کسی بھی حصے کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ اس چینی ترجمان کے بیان میں کہا گیا ہے کہ اگر امریکہ نے چین پر کوئی کیمیائی حملہ کرنے کی کوشش کی تو اسے صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے گا۔ انسانی تاریخ کا یہ وہ خطرناک ترین موڑ ہے جہاں یہ دوسری نئی سرد جنگ خدا نہ کرے "تیسری جنگ عظیم” کا پیش خیمہ بھی ثابت ہو سکتی ہے۔
امریکہ چین کو اپنے لیئے ایک بڑا خطرہ سمجھتا ہے. امریکہ نہیں چاہتا کہ اسے کبھی زوال آئے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں کہ چین کو مزید طاقت حاصل کرنے سے روکا جائے اور اس کے مقابلے میں امریکہ کو دفاعی، فوجی اور سیاسی طور پر مزید مضبوط کیا جائے۔ اس کے برعکس چین کی ہر ممکن کوشش ہے کہ امریکہ سے بلاشرکت غیرے "سپر پاور” کا خطاب چھین لیا جائے. دفاعی لحاظ سے امریکہ کی برتری کافی حد تک ابھی بھی واضح ہے مگر اب چین امریکہ سے آگے نکلنے کی کوشش کرتا نظر آ رہا ہے۔
چند روز پہلے کے چینی ترجمان کے اس بیان نے دنیا بھر میں ہلچل مچا دی ہے جس پر دفاعی تجزیہ کار کہہ رہے ہیں کہ چین نے جدید دفاعی میزائل نظام میں امریکہ پر سبقت حاصل کر لی ہے۔ چائنا نے ایسا میزائیل سسٹم ایجاد کر لیا ہے جو اس سے پہلے دنیا بھر میں موجود نہیں تھا۔ اس خبر کے بعد امریکہ سمیت کئی مغربی ممالک میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ امریکہ نے اپنے "گولڈن ڈوم” دفاعی نظام کو مزید مستحکم کرنا شروع کر دیا ہے جس سے یہ دوڑ ایک نئی سرد جنگ میں بدلتی نظر آتی ہے۔ چہ جائیکہ کہ ابھی چین اور امریکہ میں براہ راست کیمیائی جنگ کے خطرات نہیں ہیں۔ اس کے باوجود یہ سرد جنگ آگے چل کر تیسری عالمی جنگ میں بدل سکتی ہے۔ اس مرحلے پر دنیا میں امن قائم کرنے کے لیئے دیگر عالمی طاقتوں کو اپنا کردار ادا کرنے کے لیئے آگے بڑھنا چایئے۔
Title Image by Joachim Schnürle from Pixabay

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |