استاد استاد ہی ہوتا ہے
تحریر: محمد ذیشان بٹ
؎
چراغِ علم جلا کر جو اندھیروں کو مٹاتے ہیں
وہی استاد ہیں جو انسان کو انسان بناتے ہیں
استاد کی تعریف یوں تو کتابوں میں ہزاروں ملتی ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ استاد وہ ہستی ہے جس کا ذکر زبان پر آتے ہی دل میں احترام کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے
کہہ دیجیے: کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے برابر ہو سکتے ہیں؟
یہ آیت اپنے اندر وہی حقیقت چھپائے ہوئے ہے جس نے استاد کو ہر دور میں مقامِ فضیلت پر فائز کیا۔ رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا:
"اِنما بُعثتُ مُعلماً”
(مجھے معلّم بنا کر بھیجا گیا ہے)۔
یعنی استاد کا منصب اتنا بلند ہے کہ سرورِ کائنات ﷺ نے خود کو استاد قرار دیا۔
حضرت علیؓ کا قول ہے: "جس نے مجھے ایک لفظ سکھایا وہ بھی میرا استاد ہے”۔ اور خلیفہ ہارون الرشید کے بچوں کی یہ روایت تاریخ میں محفوظ ہے کہ وہ اپنے استاد کی جوتیاں اٹھانے کا مقابلہ کرتے تھے۔ سوچنے کی بات ہے کہ آج کے بچے استاد کو موبائل پر "ٹیچر جی، نوٹ بھیج دیں” لکھ کر پیغام کرتے ہیں اور وہ بھی بغیر سلام کے۔
یہ زمانہ سوشل میڈیا کا ہے، یہاں استاد کی عزت ماپنے کا پیمانہ لائکس اور کمنٹس بن گیا ہے۔ پانچ اکتوبر کو یومِ اساتذہ آتا ہے تو ہم سب اپنے استاد کی تصویر لگا کر سمجھتے ہیں کہ حق ادا کر دیا۔ مگر سچ تو یہ ہے کہ استاد کی عزت فیس بک کے فریمز سے نہیں بلکہ کردار سے جڑی ہوتی ہے۔
یوسفی صاحب نے استاد کو یوں بیان کیا تھا کہ "استاد وہ ہستی ہے جو شاگرد کو اس کے حال اور مستقبل دونوں سے ڈرا دیتا ہے۔” اور یہ ڈر کبھی کبھی اتنا شدید ہوتا ہے کہ شاگرد نصاب سے زیادہ استاد کے چہرے کی طرف دیکھتا ہے۔ لیکن استاد کی اصل کامیابی اس وقت ہے جب وہ ڈر کو پیار میں بدل دے۔ اشفاق احمد نے کہا تھا: "استاد وہ ہے جو اپنے شاگرد کو یقین دلا دے کہ وہ کچھ کر سکتا ہے۔” یقین مانیں، استاد اگر صرف یہ ہنر دے دے تو ساری دنیا فتح ہو جاتی ہے۔
"ڈی پی ایس کے انچارج اور ماہرِ تعلیم محمد افضال نے کہا کہ حقیقی استاد وہی ہے جو بچے کے دل سے خوف کو نکال کر اعتماد پیدا کرے۔”
ہمارے اسلاف میں امام ابو حنیفہؒ نے پچیس سال اپنے استاد امام حمادؒ کی خدمت میں گزارے، پھر جا کر "امام اعظم” کہلائے۔ امام شافعیؒ فرماتے تھے: "میں اپنے استاد کے سامنے ایسے بیٹھتا تھا جیسے زمین پر چڑیا، کہ کہیں استاد کے ادب میں کمی نہ ہو جائے۔” آج کے دور میں شاگرد کرسی پر ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بیٹھا ہوتا ہے اور استاد وائٹ بورڈ پر چیخ چیخ کر پسینے پسینے ہو رہا ہوتا ہے۔
ادب کے بغیر علم ویسا ہی ہے جیسے بغیر نمک کے سالن۔ استاد کی عزت میں کمی اسی وقت محسوس ہوتی ہے جب استاد صرف "ڈیوٹی ٹیچر” بن جائے اور "مخلص معلم” نہ رہے۔ پطرس بخاری نے کہا تھا: "ہمارے ہاں استاد کی پہچان یہ ہے کہ وہ نصاب کے علاوہ سب کچھ پڑھا سکتا ہے۔” مگر آج کل کے استاد بعض اوقات نصاب کے اندر بھی گم ہو جاتے ہیں۔
کرنل محمد خان نے طنزاً لکھا کہ "ہم نے ہمیشہ استاد کی بات اس لیے مانی کہ اگر نہ مانتے تو امتحان میں فیل ہو جاتے۔” لیکن فیل ہونے کا خوف بھی عجیب نعمت ہے، اسی خوف نے کئی شاگردوں کو کامیاب کر دیا۔
استاد کی شان یہ ہے کہ شاگرد چاہے وزیر بن جائے، ڈاکٹر ہو یا انجینئر، وہ کبھی نہیں کہہ سکتا کہ یہ میرے "سابقہ استاد” تھے۔ میاں بیوی الگ ہو جائیں تو "سابقہ شوہر” یا "سابقہ بیوی” کہلاتے ہیں، لیکن استاد ہمیشہ استاد ہی رہتا ہے۔
یقیناً آج کے استاد کو بھی محنت کرنی ہوگی۔ اپنے علم پر عبور، بچوں سے محبت، وقت کی پابندی، اور سب سے بڑھ کر اپنا کردار—یہی وہ اوزار ہیں جو عزت کو جنم دیتے ہیں۔ ہمارے استاد محبوب صاحب کا انداز یہ تھا کہ چاہے لباس سادہ ہو، مگر نفاست نمایاں ہو۔ شاگردوں کی عزتِ نفس کا اس حد تک خیال رکھتے کہ کلاس میں کبھی کسی کو ذلیل نہ کرتے۔ وہ فرقہ واریت اور لسانیت سے پاک استاد تھے۔ شاید اسی لیے ان کا وقار آج بھی دلوں میں زندہ ہے۔
استاد اور شاگرد کا رشتہ بالکل قمیض کے بٹن جیسا ہے۔ اگر استاد بٹن نہ لگائے تو شاگرد کی زندگی بے ڈھنگی لگتی ہے۔ اور اگر شاگرد ضد کرے تو بٹن ٹوٹ بھی سکتا ہے۔
کچھ طلبہ یہ بھی کہتے ہیں کہ آج کے استاد بہت "کمرشل” ہو گئے ہیں۔ بھائی! یہ زمانہ ہی ایسا ہے۔ بجلی کا بل جمع کروانا ہو تو لگتا ہے انڈیا سے میچ جیت گئے۔ ایسے میں استاد بھی انسان ہے، اس کی ضروریات بھی ہیں۔ مگر یاد رکھیں، استاد کی اصل کمائی تنخواہ نہیں بلکہ شاگردوں کی کامیابی ہے۔
دنیا کا ہر شعبہ استاد کا محتاج ہے۔ بقول سکندر اعظم: "میرا باپ مجھے زمین پر لایا اور میرے استاد نے مجھے آسمان پر پہنچا دیا۔” اس قول میں استاد کا وہ مقام چھپا ہے جس تک کوئی اور رشتہ نہیں پہنچ سکتا۔
آخر میں ایک شعر:
؎
مٹی کو سونا بناتا ہے جب ہاتھ استاد لگاتا ہے
پستی سے بلندی کی جانب، طے سفر استاد کراتا ہے
سو، استاد استاد ہی ہوتا ہے۔ چاہے یوسفی کے طنز میں دیکھ لیں یا بانو قدسیہ کی نرمی میں، چاہے صحابہ کرام کی اطاعت میں دیکھ لیں یا ہمارے اپنے دلوں میں—استاد ہمیشہ رہنمائی کا چراغ ہے۔ اور چراغ کی عظمت یہ ہے کہ خود جل کر دوسروں کو روشنی دیتا ہے۔
Title Image Background by 三江 韦 from Pixabay

محمد ذیشان بٹ جو کہ ایک ماہر تعلیم ، کالم نگار اور موٹیویشنل سپیکر ہیں ان کا تعلق راولپنڈی سے ہے ۔ تدریسی اور انتظامی زمہ داریاں ڈویژنل پبلک اسکول اور کالج میں ادا کرتے ہیں ۔ اس کے علاؤہ مختلف اخبارات کے لیے لکھتے ہیں نجی ٹی وی چینل کے پروگراموں میں بھی شامل ہوتے ہیں
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |