اٹک کے مسائل
کالم نگار: سید حبدار قائم
اٹک شہر کی زمین میں پانی کی سطح انتہائی خطرناک درجے تک کم ہو رہی ہے اس کے لیے کچھ کام عوام کو کرنا ہوگا اور کچھ کام حکومت کی مشینری کو کرنا ہوگا اٹک کی انتظامیہ کو یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ اٹک میں بہت ساری سرکاری زمین ہے جس میں اگر تالاب بنا دیے جائیں اور بارش کا پانی ان میں سٹور کیا جاۓ تو حالات بہتر ہو سکتے ہیں
انگریز نے جو کنویں بناۓ تھے جیسے فوارہ چوک میں بنا ہوا ہے اور اب اس کو اوپر سے بند کیا گیا ہے ایسے دوسرے کئی جگہ اور کنویں بھی ہیں اگر ان کو کھول دیا جائے اور بارش کا پانی ان میں گرایا جاۓ تو بھی پانی کی سطح اوپر آ جاۓ گی اگر کسی انسان کے گرنے کا خدشہ ہو تو بچنے کے لیے بے شک اوپر مضبوط جالی لگا دی جاۓ
تو اس سے زمین میں پانی کی سطح بلند ہو جائے گی اگر یہ کام نہ کیا گیا تو پانی انتہائی لیول سے نیچے چلا جائے گا اور لوگوں کے لیے مسائل کا موجب بنے گا اس لیے اب بھی وقت ہے کہ حکومت اٹک شہر میں ریلوے اسٹیشن کی زمین پر اور فتح جنگ روڈ کے اوپر سی ایم ایچ کے ساتھ کھلی زمین پر کچے تالاب کھودے ڈھوک فتح کے ایریا کے آگے ہرو کی طرف وسیع زمین ہے ان جگہوں پر بہت بڑے گڑھے کھود کر پانی کو سٹاک کیا جائے تاکہ پانی کی کمی زمین میں نہ ہو
ساون میں ہونے والی بارشوں کا پانی ہمیشہ نالوں کے ذریعے دریا میں گر جاتا ہے اور یہ پانی ضائع ہو کر سمندر تک پہنچ جاتا ہے جس سے فائدہ نہیں اٹھایا جاتا مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ اگر اٹک کی انتظامیہ اس مسئلے پر سوچے تو ان دنوں میں ہونے والی بارشوں کا پانی سٹاک ہو جائے گا جس کی وجہ سے زیرِ زمین پانی اوپر آ جائے گا
اٹک شہر کا دوسرا مسئلہ سڑکوں کا ہے جو کہ انتہائی شرم ناک حالت میں ہے جو انگریزوں نے سڑکیں بنائی ہیں وہ بہت پہلے بنائی گئی تھیں اس وقت آبادی بہت کم تھی اب آبادی کا تناسب بہت بڑھ گیا ہے اس کے مطابق اٹک شہر کی سڑکوں کے اوپر لنک روڈ اور فلائی اوور بنائے جائیں تا کہ باہر کی ٹریفک شہر میں داخل نہ ہو اور باہر سے ہی نکال دی جائے اور شہر میں ایسے کھلے روڈ بنائے جائیں تاکہ ٹریفک کے حادثات کو کم کیا جا سکے اور شہریوں کو سہولت میسر ہو
پورے شہر میں ناجائز تجاوزات کو ختم کیا جائے میں نے دیکھا ہے بہت سارے اٹک کے لوگوں نے اپنے گھر کے باہر گاڑی نکالنے کے لیے گلیوں میں سات سات فٹ لمبی ڈھلانیں بنا رکھی ہیں جس کی وجہ سے اگر 20 فٹ کی گلی ہے تو وہ صرف 12 سے 14 فٹ رہ جاتی ہے جہاں سے دو گاڑیوں کا گزرنا مشکل ہو جاتا ہے ایسے لوگوں کو حکومت وارننگ دے اور ان کی گاڑی اتارنے کی زمین کو دو سے تین فٹ سے زیادہ نہ بننے دیں اس سے زیادہ ان کو گورنمنٹ کی گلیوں پر قبضہ نہیں کرنے دینا چاہیے ان کو سختی سے روکا جائے تاکہ گلیوں کی پوزیشن ٹھیک ہو سکے اور دوسرا میں نے اٹک کے محلے سمندر آباد میں دیکھا ہے کہ اس میں گلیاں بالکل ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں گندا نالہ وہاں سے بہتا ہے بارش میں لوگوں کے گھروں میں پانی داخل ہو جاتا ہے اس بار بھی ایک خاتون سمندر آباد کے نالے میں بہہ گئی ہے اور اس کی لاش ہرو نالہ کے قریب جا کر ریسکیو کی گئی ہے
کیا ایسا کام روکنے کے لیے حکومت کے پاس کوئی حل نہیں ہے شہر کے جتنے لوگ ہیں سارا کچرہ اس نالے کے اندر پھینکتے ہیں جب وہ نالہ اس کچرے سے بھرا ہوا ہوتا ہے تو بارشوں کے پانی کی سطح بلند ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے محلوں اور گھروں میں پانی داخل ہو جاتا ہے ساتھ ہی اگر گلیوں کی پوزیشن بہتر نہ بنائی گئی تو گلیاں مزید ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائیں گی تو اس چیز کو حل کرنے کے لیے انتظامیہ کو سخت ایکشن لینا چاہیے
ڈھوک فتح اعوان آباد میں سکیورٹی لائٹس نہیں ہیں انتظامیہ نے پانی کی بوتل میں کہیں کہیں بلب لگائے ہوئے ہیں جو کافی عرصے سے ڈس ہیں ان کو بدلنے والا کوئی نہیں ہے
نہ ہی کوئی شخص انہیں آن آف کرنے والا ہے نہ ان کا کہیں سوئچ لگا ہوا ہے کہ کوئی اور ان کو بند کرے یا ان کو آن کرے تو ایسے ماحول میں سیکیورٹی لائٹس کا ہونا بہت ضروری ہے گلیوں محلوں میں بھی سیکیورٹی کیمرے لگائے جائیں تاکہ چوری کم سے کم ہو اور چور کی نشاندہی ہو جائے
تیسرا مسئلہ جو اٹک شہر میں چل رہا ہے وہ اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں کا مسئلہ ہے پورے شہر میں کسی دن مہینے کے کسی دن کسی لمحے آپ شہر کا چکر لگائیں فوارہ چوک سے نیچے ستار حنیف چوک تک جتنا ایریا ہے اور مدنی چوک سے گیدڑ چوک تک بھی جتنا ایریا ہے اس میں ہر رہڑی والے کا اپنا ریٹ ہے ہر قصاب کا اپنا ریٹ ہے قصابوں نے دوکان کے اوپر تختی 800 روپے کلو کی لگائی ہوتی ہے جبکہ وہ ہزار روپے لیتے ہیں اور ان کو کسی آفیسر نے ابھی تک چیک نہیں کیا اخبارات اور سوشل میڈیا پر سب اچھا کا مسئلہ چل رہا ہے ہمارے شہر میں سب اچھا نہیں ہے بہت سارے معاملات ہیں جن میں حکومت کو بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے ابھی روڈ جہاں ٹوٹے پھوٹے ہیں وہاں بارش کا پانی کھڑا ہے جس کی وجہ سے ڈینگی بھی پیدا ہو رہا ہے کیوں کہ جگہ جگہ گڑھے ہیں اگر آپ محلوں کی وزٹ کریں گے تو آپ کو پتہ چلے گا کہ گڑھوں میں پانی کھڑا ہے جس سے ڈینگی کے بڑھنے کے اثرات بڑھ رہے ہیں مجھے یہ حکومت سے توقع ہے کہ حکومت جہاں اچھے کام کر رہی ہے وہاں ان مسائل پر بھی غور و فکر کرے مریم نواز صاحبہ کی ٹیم دن رات صفائی کر رہی ہے ان کا کام بہت تسلی بخش ہے لیکن لوگوں میں آگاہی نہیں ہے جب صفائی والے صفائی کر کے چلے جاتے ہیں خصوصاً میرے اپنے محلے میں ڈھوک فتح اعوان آباد میں لوگ صفائی والی ٹیم کے جانے کے بعد اپنے گھر کا کچرہ اور گندگی باہر پھینک دیتے ہیں جس کی وجہ سے تعفن پھیل جاتا ہے اور گندگی پھیل جاتی ہے اگر حکومت کے نمائندے اس چیز پر عمل کریں کہ ایک دفعہ بتائیں کہ اگر صفائی ہو جائے تو اس کے بعد کوئی بندہ گلی میں گندگی نہیں ڈالے گا اور گندگی کے شاپرز اپنے گھروں کے باہر رکھیں حکومت کے نمائندے آ کر اٹھا لیں گے تو صفائی کے معاملات کافی حد تک بہتر ہو جائیں گے مریم نواز صاحبہ کی ٹیم بازار میں بھی صفائی کرتی ہے لیکن جونہی سبزی آتی ہے اور سبزی کے کریٹس اور پھلوں کے کریٹس کھولے جاتے ہیں تو ساری گندگی اسی طریقے سے روڈ پر پھینک دی جاتی ہے اس چیز کا سختی سے نوٹس لیا جائے اور شہر میں ڈبے رکھے جائیں جو پیکنگ کی چیزیں اورخراب پھل وغیرہ نکلتے ہیں ان کو ڈبوں میں پھینکا جائے اور بازار کو صاف رکھا جائے
حکومت تو اپنے طور پر کام کر رہی ہے لیکن عوام کو بھی گندگی پھیلانے سے روکا جائے اور ان کو آگاہی دلائی جائے تاکہ شہر میں صفائی کے مسائل پیدا نہ ہوں اور شہر صاف ستھرا نظر آئے
اس کے علاوہ حکومت جب پٹرول کی قیمتیں بڑھاتی ہے اس وقت اٹک شہر میں اور اس کے گرد و نواح میں کرائے اپنی مرضی سے وصول کیے جاتے ہیں اور حکومت کے کسی بھی آرڈر اور انتظامیہ کے کسی بھی حکم کو نہیں مانا جاتا تو ٹریفک پولیس اور دوسری پولیس کو متحرک کیا جائے اور مختلف جگہوں پر کھڑا کر کے چیک کریں اور سواریوں سے پوچھیں کہ انہوں نے آپ سے کرایا کتنا لیا ہے تو اس صورتحال میں زیادہ کرایہ لینے والوں پر جرمانے کیے جائیں تاکہ انتظامیہ اور حکومت کی رٹ قائم ہو
اگر اٹک شہر سے بسال کی طرف جائیں تو سارا روڈ ٹوٹا پھوٹا ہے اور اس کو ٹھیک کرانے والا کوئی مناسب نظام نہیں ہے اتنی سست رفتاری سے کام جاری ہے کہ اگلے پانچ مہینوں تک وہ مکمل نہیں ہو پائے گا یہ دو تین دن کا کام ہے جس کو مکمل ہو جانا چاہیے اور لوگوں کی تکلیف کو دور کیا جانا چاہیے اور اگر اٹک شہر سے فتح جنگ کی طرف جائیں تو اس طرف بھی روڈ کی یہی حالت ہے اتنا سست روی سے کام ہو رہا ہے کہ اگلے دو سے تین مہینے تک یہ مکمل نہیں ہوگا اور اگر اس کو دلچسپی سے کیا جائے تو اس روڈ کو بہتر بنایا جا سکتا ہے اور میرے خیال میں یہ روڈ آنے والے وقت کے مطابق ڈبل روڈ ہونا چاہیے آنے والی ٹریفک کا الگ راستہ ہو اور جانے والی ٹریفک کا الگ راستہ ہو اٹک شہر سے پنڈی گھیب اور پنڈیگھیب سے فتح جنگ تک ریلوے ٹریک بچھایا جائے تاکہ آنے والی نسلوں کو ٹرین کی سہولت میسر ہو کیونکہ اس علاقے میں ٹرین کی پٹڑی نہیں ہے نہ اسٹیشنز ہیں صرف اٹک سے بسال تک ریلوے ٹرین چلتی ہے لیکن اس کے آگے یہ نظام نہیں ہے بسال سے آگے پنڈی گھیب اور پنڈی گھیب سے آگے فتح جنگ اور راولپنڈی تک ریلوے ٹریک بچھا دیا جاۓ تو عوام خوش حال ہو جائیں گے
اس کے علاوہ ٹریفک کے نظام میں میٹرو سٹیشنز بنا دیے جائیں تو سونے پہ سہاگہ ہے
اٹک شہر سے پنڈی گھیب تک بذریعہ بسال اور بذریعہ فتح جنگ اگر میٹرو ٹریک بنا دیا جائے اور میٹرو بسیں چلا دی جائیں تو پنڈی گھیب کے لوگوں کے مسائل حل ہو جائیں گے اور چھوٹی گاڑیاں جو ان کو ان راستوں پر اذیت دیتی ہیں ان سے لوگوں کی جان چھوٹ جائے گی اور کرائے بھی مناسب ہو جائیں گے حکومت کے اس اقدام سے اٹک میں بھی ترقی کی راہیں کھل جائیں گی اور بہت سارے لوگوں کو روزگار بھی ملے گا اٹک کی وسیع زمینوں پر موٹروے کا سسٹم بنایا جائے تاکہ اٹک کے لوگ بھی سکھ کا سانس لے سکیں اٹک کے سیاست دان مکمل طور پر اس مسئلے میں فیل ہو گئے ہیں کہ انہوں نے اٹک کے لیے اب تک کوئی ایسا کام نہیں کیا جس کو قدر و قیمت کی نگاہ سے دیکھا جائے اور اس کی پذیرائی کی جا سکے اس لیے میری ان چھوٹی چھوٹی گزارشوں پر حکومت پاکستان سے عمل کی درخواست ہے تا کہ اٹک کے عوام کو بھی جینے کا حق ملے
Title images credits to their respective owners
میرا تعلق پنڈیگھیب کے ایک نواحی گاوں غریبوال سے ہے میں نے اپنا ادبی سفر 1985 سے شروع کیا تھا جو عسکری فرائض کی وجہ سے 1989 میں رک گیا جو 2015 میں دوبارہ شروع کیا ہے جس میں نعت نظم سلام اور غزل لکھ رہا ہوں نثر میں میری دو اردو کتابیں جبکہ ایک پنجابی کتاب اشاعت آشنا ہو چکی ہے
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |