وزیر اعظم شہباز شریف کا زرعی ترقیاتی لائحہ عمل
ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی
پاکستان کی معیشت میں زرعی شعبہ ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد سے اب تک زراعت نہ صرف غذائی خودکفالت کا ذریعہ رہی ہے بلکہ دیہی معیشت اور روزگار کے حوالے سے بھی اس کی اہمیت مسلمہ ہے۔ موجودہ حالات میں جب ملک مہنگائی، بے روزگاری اور معاشی دباؤ جیسے سنگین چیلنجز سے دوچار ہے، وزیر اعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان میاں شہباز شریف کا زرعی ترقی کو قومی پالیسی کا محور بنانا بلاشبہ بروقت اور قابلِ تحسین قدم ہے۔
پاکستان کا زرعی منظرنامہ ہمیشہ سے موسمی حالات، حکومتی پالیسیوں، آبی وسائل اور زرعی ٹیکنالوجی کے درمیان توازن کا محتاج رہا ہے۔ 1960ء کی دہائی میں ”سبز انقلاب” کے نام سے جدید بیج، کھاد اور آبپاشی کے نظام نے زرعی پیداوار میں نمایاں اضافہ کیا۔ تاہم بعد ازاں ناقص پالیسی سازی، عدم تسلسل اور شعبہ زراعت میں سرمایہ کاری کی کمی نے اس شعبے کو جمود کا شکار کر دیا۔ بالخصوص 1990ء کی دہائی سے اب تک زراعت کی پالیسی میں وہ استحکام نظر نہیں آتا جو کسی دیرپا ترقی کے لیے ضروری ہوتا ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے حالیہ زرعی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے جو اقدامات تجویز کیے ہیں ان میں چھوٹے اور درمیانے درجے کے کسانوں کو آسان شرائط پر قرضوں کی فراہمی کو مرکزی حیثیت دی گئی ہے۔ خاص طور پر 12 ایکڑ سے کم زمین رکھنے والے کسانوں کو جدید زرعی سہولیات فراہم کرنے کی ہدایت وقت کی اہم ضرورت ہے۔ پاکستان میں 70 فیصد سے زائد کسان چھوٹے زمین دار ہیں جنہیں نہ صرف مالی مشکلات درپیش ہیں بلکہ ٹیکنالوجی تک رسائی بھی محدود ہے۔
اقتصادی سروے برائے سال 2023-24 کے مطابق پانچ بڑی فصلوں گندم، گنا، چاول، کپاس اور مکئی کی پیداوار میں مجموعی طور پر ساڑھے 13 فیصد کی کمی ریکارڈ کی گئی، جو گزشتہ 25 برسوں میں سب سے بڑی تنزلی ہے۔ اس زوال کے اسباب میں جہاں ماحولیاتی تبدیلیاں جیسے درجہ حرارت میں اضافہ اور غیر معمولی بارشیں شامل ہیں، وہیں بعض ناقص حکومتی فیصلے بھی ذمہ دار ہیں۔ روئی اور خام کاٹن کی درآمد پر ڈیوٹی کی چھوٹ نے مقامی منڈی کو غیر مستحکم کیا۔ گندم کی قیمت کو ڈی ریگولیٹ کرنے سے کسانوں کا اعتماد مجروح ہوا۔ پنجاب حکومت کی جانب سے گندم کی سرکاری خریداری نہ کرنے کا فیصلہ بھی کسانوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہوا۔
وزیر اعظم کا یہ ادراک کہ معیار اور طریق کار میں بہتری (ویلیو ایڈیشن) ہی زراعت کو قومی ترقی سے ہم آہنگ بنا سکتی ہے، ایک جامع وژن کی غمازی کرتا ہے۔ تاہم، یہ وژن تبھی کامیاب ہوگا جب اس پر عملی اقدامات کیے جائیں۔ جدید زرعی ٹیکنالوجی، موسمیاتی تبدیلیوں سے ہم آہنگ بیجوں کی تیاری، آبپاشی کے جدید نظام (ڈِرِپ اور سپرنکلر)، کسانوں کی تربیت، اور منڈیوں تک ان کی آسان رسائی اس پالیسی کے ناگزیر عناصر ہیں۔
ماضی میں بھی ایسے اعلانات اور منصوبے سامنے آتے رہے ہیں لیکن ان میں تسلسل، شفافیت اور عملی نفاذ کا شدید فقدان رہا۔ قرضوں کی فراہمی کے نظام میں بینکوں کی سست روی، کرپشن اور غیر منصفانہ طریقہ کار نے اکثر چھوٹے کسانوں کو محروم رکھا ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ قرضوں کی فراہمی کے نظام کو ڈیجیٹل، شفاف، اور کسان دوست بنایا جائے، تاکہ اصل مستحقین کو فائدہ پہنچے۔
وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے زرعی ترقی کو قومی ایجنڈے کی اولین ترجیح بنانا ایک دور رس اور قابلِ عمل فیصلہ ہے، بشرطیکہ اس پر خلوصِ نیت سے عملدرآمد کیا جائے۔ پاکستان کی معاشی بقا، خوراک میں خود کفالت اور دیہی خوشحالی کا انحصار زرعی شعبے کی بحالی اور بہتری پر ہے۔ یہی وہ وقت ہے جب ہم زراعت کو محض ایک معاشی شعبہ نہیں، بلکہ قومی ترقی کی بنیاد سمجھ کر اقدامات کریں۔
رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق چترال خیبرپختونخوا سے ہے، اردو، کھوار اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ آپ کا اردو ناول ”کافرستان”، اردو سفرنامہ ”ہندوکش سے ہمالیہ تک”، افسانہ ”تلاش” خودنوشت سوانح عمری ”چترال کہانی”، پھوپھوکان اقبال (بچوں کا اقبال) اور فکر اقبال (کھوار) شمالی پاکستان کے اردو منظر نامے میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں، کھوار ویکیپیڈیا کے بانی اور منتظم ہیں، آپ پاکستانی اخبارارت، رسائل و جرائد میں حالات حاضرہ، ادب، ثقافت، اقبالیات، قانون، جرائم، انسانی حقوق، نقد و تبصرہ اور بچوں کے ادب پر پر تواتر سے لکھ رہے ہیں، آپ کی شاندار خدمات کے اعتراف میں آپ کو بے شمار ملکی و بین الاقوامی اعزازات، طلائی تمغوں اور اسناد سے نوازا جا چکا ہے۔کھوار زبان سمیت پاکستان کی چالیس سے زائد زبانوں کے لیے ہفت پلیٹ فارمی کلیدی تختیوں کا کیبورڈ سافٹویئر بنا کر عالمی ریکارڈ قائم کرکے پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں۔ آپ کی کھوار زبان میں شاعری کا اردو، انگریزی اور گوجری زبان میں تراجم کیے گئے ہیں ۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |