مایاز پیراڈاکس – Maya’s Paradox
وہ اس روز آئی اور درجن بھر کتابوں کا سیٹ دے کر چلی گئی۔ یہ کتاب کیا ہے، پوری ایک منفرد اور باکردار تخلیق ہے۔ وہ شکل و صورت سے دبلی پتلی لڑکی تھی۔ اس کی عمر یہی کوئی چوبیس پچیس سال ہو گی۔ وہ مجھے کوئی بڑی یا تھان پان مصنفہ بلکل نہیں لگی۔ لیکن کتاب مجلد تھی، فرنٹ اور بیک ٹائٹل فور کلر میں تھا، کاغذ اعلی کوالٹی کا استعمال ہوا تھا اور چھپائی بھی بہت دیدہ زیب تھی۔ میں انگریزی زبان کی کتابیں زیادہ نہیں پڑھتا۔ انگریزی میری مادری زبان نہیں ہے اس لیئے انہیں پڑھنے میں میرا زیادہ وقت لگتا ہے۔ لیکن اس کتاب کے ٹائٹل "مایاز پیرڈاکس” کو پڑھتے ہی میں اس کتاب کی گرفت میں آ گیا۔
میں اس کتاب کو پسندیدگی کے باوجود جلد نہ پڑھ سکا۔ یہ کتاب ابوظہبی کے بک فیئر میں اردو بکس ورلڈ کے "جناح پاکستان پولئین” پر میرے ہاتھ لگی تھی۔ ان دنوں ویسے بھی مصروفیت بہت زیادہ تھی۔ میں نے یہ کتاب لا کر اپنے دراز میں ڈال دی۔ بہت دفعہ دل بھی کیا کہ مطالعہ کروں، لیکن میں مصروفیت کی کشمکش میں وقت نہ نکال سکا۔ تاہم دلچسپ بات یہ ہے کہ میں نے اسی دہری ذہنی کیفیت کے سبب جب "پیراڈاکس” کے معنی چچا گوگل سے پوچھے تو اس کتاب کا مطالعہ کرنے میں دلچسپی بڑھ گئی، اور میں نے اگلے چند روز میں اس کتاب کا مطالعہ تین نشستوں میں مکمل کر لیا۔
انگریزی کا لفظ "پیراڈاکس” وسیع المفہوم ہے۔ جیسا کہ کتاب کے نام سے ظاہر ہے اس کا اردو میں ترجمہ متناقض، تضاد، الٹی بات یا ایسا دعویٰ ہے جو خود اپنی نفی کرتا ہو۔ اس کا ایک یہ مفہوم بھی ہے کہ "پیراڈاکس” ایک ایسے بیان یا خیال کو بھی کہا جاتا ہے جو سچ ہونے کے باوجود، عمومی طور پر متضاد یا غلط نظر آتا ہے۔ مثال کے طور پر، "میں ہمیشہ جھوٹ بولتا ہوں” ایک متناقض بیان ہے کیونکہ اگر یہ سچ ہے تو، یہ بیان بھی غلط ہونا چایئے۔ لیکن اس کتاب میں پیراڈاکس کے لفظ کو کتاب کی مصنفہ محترمہ آصمہ جان محمد نے اس کی معنویت کے اعتبار سے ایک اصطلاح کے طور پر استعمال کیا ہے جو صحیح اور درست فیصلے تک پہنچنے کی کشمکش جیسی ایک تخلیقی کیفیت کا مظہر ہے۔
مایا نامی لڑکی اس کتاب کا واحد کردار ہے جو مختصر کہانیوں کی شکل میں ایک جیتی جاگتی اور بھرپور زندگی بن کر اس پوری کتاب میں جگہ جگہ دوڑتا پھرتا نظر آتا ہے۔ کہیں "مایا” کا خوف اس کے اعتماد کی وجہ سے فتح اور جیت میں بدلتا یے تو کسی جگہ مختلف مواقع پر اسے اس خوف پر قابو پانے میں مدد فراہم کرتا ہے۔ مایا کا کردار جونہی کارپوریٹ زندگی میں آگے بڑھتا ہے اور سچائی پر اس میں کمپرومائز نہ کرنے کی ہمت پیدا ہوتی ہے تو اس کے اندر کا خوف ایک پیچیدہ سچائی بن کر سامنے آتی ہے جس کو سمجھنا اسی صورت میں ممکن ہوتا ہے جب آپ خوف کا سامنا کرنے کے لیئے خود کو تیار کر لیتے ہیں۔
مایا کا کردار قاری کو بتاتا ہے کہ کارپوریٹ پیشہ زندگی میں آپ جتنا خوف کا سامنا کرتے ہیں آپ کے اعصاب پر سوار خوف کی طاقت اتنی ہی کم ہوتی چلی جاتی یے۔ مایا کی یہ مختصر کہانیاں جو اسے اپنی ذاتی زندگی میں کارپوریٹ ملازمت کے دوران پیش آتی ہیں انہیں اس کتاب کی ان شارٹ سٹوریز میں بیان کیا گیا یے جس کے آخر میں اس کا مختصر الفاظ میں اخلاقی سبق پیش کیا گیا ہے۔ ہر کہانی کا چند لفظوں کا خلاصہ کسی جگہ فلسفیانہ انداز میں معنوی انداز میں بیان کیا گیا ہے تو کسی اور موقعہ پر اس کو محاورتا یا مقولہ جات کی شکل میں ظاہر کیا گیا یے۔
اس کتاب کے 181صفحات پر مبنی کل 7 بڑے عنوانات ہیں جن میں فیئر ڈیمائز، کال اے سپیڈ سپیڈ، مینٹل بیرئیرز، لفٹنگ یور چیلنجز، سکیپٹیسزم اور جرنی ٹو آتھینٹیسٹی جیسے ذیلی عنوانات (یا ابواب وغیرہ) ہیں اور ان کی خاص بات کاروباری اخلاقی ضوابط کی پاسداری کو ملحوظ رکھنا ہے۔ یہ کتاب اپنے عمل کو اچھا ظاہر کرنے کی بجائے اچھا کرنے پر مائل کرتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں آپ کہہ سکتے ہیں کہ کتاب میں کسی بھی جگہ اپنے ذاتی مفاد اور فائدے کے لیئے اخلاقی ضابطوں اور پیشہ ورانہ مہارت کو قربان نہیں کیا گیا ہے۔ حتی کہ کم و بیش تمام کہانیوں میں مایا کے اندر پیشہ ورانہ کارپوریٹ فرائض کی سختی کی وجہ سے اور اصولی موقف پر ڈٹ جانے کے حوالے سے مایا کے اندر ڈگمگا جانے کی ذہنی کشمکش ضرور پیدا ہوتی ہے، اور اسی بناء پر اس کتاب کا نام "مایاز پیرڈاکس” رکھا گیا ہے مگر وہ بہت جلد اس پر قابو پا لیتی ہے۔
مایا کا کردار انتہائی طاقتور ہے جس میں وہ جا بجا اپنی اسی زہنی کشمکش پر قابو پر کر سیکھتی ہے اور خود کو مضبوط سے مضبوط تر کرتی ہے بلکہ یہ کتاب موٹیویشنل ہے جیسا کہ یہاں کچھ اقتباسات پیش ہیں جہاں مایا مختلف جگہوں پر کہتی ہے کہ، "اعمال عمدہ الفاظ سے زیادہ اثر اور اہمیت رکھتے ہیں، قانون اور اخلاق میں ایک بہت باریک لائن کا فرق ہے، کامیابی کو لوگ مختلف معانی اور مفاہیم میں لیتے ہیں۔ ہماری اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ کامیابی شائد، زیادہ شہرت، عہدہ اور دولت سمیٹنے کا نام ہے۔ ہمارے معاشرے کا ہر دوسرا فرد کامیابی کی اس معنویت کا اسیر ہے کہ جب تک زندہ ہو نام کماو’۔”
اس کتاب کے علاوہ آصمہ جان محمد کی دیگر تصانیف میں انگریزی زبان ہی میں "ریفلکشن” اور "شور” شامل ہیں۔ ان کتابوں کو دنیا کی چند مشہور پبلشنگ کمپنیوں نے شائع کیا ہے۔ ان کتب کے موضوعات سے بھی یہی لگتا ہے کہ یہ کتابیں بھی موٹیویشنل بکس ہیں جن کے پیچھے خود مصنفہ کے مضبوط کردار کی زندہ کہانیاں متحرک نظر آتی ہیں۔ خاص طور پر پیراڈاکس مصنفہ کی آپ بیتی لگتی ہے جسے استعاراتی اور ادبی زبان میں شارٹ سٹوریز کی شکل میں بیان کیا گیا ہے۔ اس کتاب کو متحدہ عرب امارات کے مسار پرنٹرز اور پبلشرز نے شائع کیا ہے۔ عاصمہ جان محمد پیشے کے اعتبار سے چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ ہیں۔ اس سے زیادہ وہ ابھرتی ہوئی مصنفہ ہیں جن کی متذکرہ کتب "بیسٹ سیلرز” ہیں۔ جن سے آئیندہ بھی مزید اچھی کتب کی امید کی جا سکتی ہے۔ دیگر جانکاری اور کتاب کے حصول کے لیئے ان سے براہ راست رابطہ کیا جا سکتا یے:
ڈبلیو ڈبلیو ڈاٹ آصمہ جان محمد ڈاٹ کام

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |