27ویں آئینی ترمیم کے خلاف جسٹس جواد ایس خواجہ کی درخواست
ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی*
پاکستان کی آئینی تاریخ 1947 سے لے کر آج 2025 تک مسلسل اس بحث کے گرد گھومتی رہی ہے کہ ریاست کے تین ستونوں میں سے کون سا ستون کتنا طاقتور ہونا چاہیے۔ پارلیمنٹ قانون سازی کا حق رکھتی ہے، عدلیہ آئین کی تشریح کرتی ہے اور انتظامیہ اسے نافذ کرتی ہے۔ لیکن جب کبھی ان کے اختیارات میں تصادم پیدا ہوتا ہے تو آئینی بحران جنم لیتا ہے۔ حالیہ دنوں میں سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کی جانب سے 27ویں آئینی ترمیم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیے جانے نے اسی تاریخی بحث کو ایک بار پھر تازہ کر دیا ہے۔
پاکستان میں عدلیہ اور پارلیمنٹ کے درمیان طاقت کی کشمکش کوئی نئی بات نہیں۔ 1954 میں گورنر جنرل غلام محمد کی اسمبلی تحلیل کے بعد جسٹس منیر کے "نظریۂ ضرورت” نے آئین کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ 1973 کا آئین اگرچہ عدلیہ کی آزادی کا ضامن ٹھہرا، مگر 1977، 1999 اور 2007 کے فوجی ادوار میں جب آئین معطل ہوا تو عدلیہ نے کبھی مزاحمت اور کبھی توثیق کا کردار ادا کیا۔
اسی تناظر میں 18ویں، 21ویں اور 25ویں ترامیم کے بعد اب 27ویں ترمیم کو عدلیہ کی آزادی کے لیے ایک خطرے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
اطلاعات کے مطابق مجوزہ 27ویں ترمیم عدلیہ کے اختیارات میں مخصوص تبدیلیاں تجویز کرتی ہے، جن میں سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار کی حد بندی، ججز کے تبادلے کا نیا طریقہ کار اور بعض انتظامی اختیارات کی منتقلی شامل بتائی جاتی ہے۔ اگر یہ ترمیم منظور ہوتی ہے تو اس کا براہ راست اثر عدلیہ کی خودمختاری پر پڑ سکتا ہے۔
یہی نکتہ سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کے مؤقف کی بنیاد ہے۔ ان کے مطابق یہ ترمیم "سپریم کورٹ کے آئینی وجود کے خاتمے کی طرف پہلا قدم” ہے۔ ان کی درخواست میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ اگر سپریم کورٹ کا اختیار پارلیمنٹ یا کسی دوسرے ادارے کے تابع کر دیا گیا تو عوام اپنے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے کسی آزاد فورم سے رجوع نہیں کر سکیں گے۔
پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 175 عدلیہ کی آزادی کو بنیادی اصول قرار دیتا ہے، جبکہ آرٹیکل 184(3) کے تحت سپریم کورٹ کو عوامی اہمیت کے مقدمات میں ازخود نوٹس لینے کا اختیار حاصل ہے۔ یہی اختیارات ماضی میں کئی اہم فیصلوں کا باعث بنے، جیسے پانامہ کیس یا عدلیہ بحالی تحریک کے فیصلے وغیرہ وغیرہ۔
27ویں ترمیم کے ذریعے اگر ان اختیارات کو محدود کیا گیا تو یہ صرف ادارہ جاتی مسئلہ نہیں رہے گا، بلکہ عوام کے بنیادی حقوق، شفاف احتساب اور آئینی بالادستی پر بھی اثر ڈالے گا۔
جسٹس جواد ایس خواجہ اپنی عدالتی مدت کے دوران اصول پسندی اور آئین پسندی کے لیے معروف رہے۔ وہ آئین کو جامد نہیں بلکہ زندہ دستاویز سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک ریاست کی پائیداری اس وقت ممکن ہے جب عدلیہ مکمل طور پر آزاد ہو اور پارلیمنٹ اپنی حدود میں رہ کر قانون سازی کرے۔ ان کی یہ درخواست ذاتی مفاد کے بجائے قومی مفاد میں دائر کی گئی ہے، جیسا کہ انہوں نے واضح کیا ہے کہ "اگر سپریم کورٹ آزاد نہ رہی تو عوام کی آواز دب جائے گی۔”
2025 میں پاکستان کا سیاسی منظر نامہ غیر یقینی کا شکار ہے۔ پارلیمنٹ، عدلیہ اور انتظامیہ کے درمیان بار بار آئینی معاملات پر تناؤ پیدا ہو رہا ہے۔ ایسے ماحول میں 27ویں ترمیم کی پیشکش اور اس کے خلاف درخواست، دراصل اس بات کی علامت ہے کہ آئینی ادارے اپنی بقا کے لیے فکرمند ہیں۔
سابق چیف جسٹس کی یہ درخواست عدلیہ کو متحرک کر سکتی ہے اور ممکن ہے کہ ایک نئی عدالتی بحث جنم لے، جیسا کہ 2007 میں عدلیہ بحالی تحریک کے دوران ہوا تھا۔
اس معاملے کا سب سے اہم پہلو عوامی مفاد ہے۔ اگر سپریم کورٹ کے اختیارات محدود کیے گئے تو عام شہری کے لیے انصاف تک رسائی مشکل ہو جائے گی۔ ایک خودمختار عدلیہ ہی وہ ادارہ ہے جو ریاست اور شہری کے درمیان توازن برقرار رکھتی ہے۔
اگر عدالتِ عظمیٰ اس ترمیم کو غیر آئینی قرار دیتی ہے تو یہ عدلیہ کی خودمختاری کے لیے ایک تاریخی فیصلہ ہوگا، لیکن اگر پارلیمنٹ کا مؤقف غالب آتا ہے تو پاکستان کے آئینی ڈھانچے میں اختیارات کی نئی تقسیم عمل میں آ سکتی ہے۔
سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کی جانب سے 27ویں آئینی ترمیم کو چیلنج کرنا ایک غیر معمولی اور جرات مندانہ قدم ہے۔ یہ صرف ایک آئینی مقدمہ نہیں بلکہ ریاستی ساخت، عدالتی خودمختاری اور عوامی حقوق کا سوال ہے۔
پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کسی ایک ستون نے دوسرے پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کی، نظام میں توازن بگڑا۔ اب یہ عدلیہ پر منحصر ہے کہ وہ کس طرح آئین کے بنیادی اصولوں یعنی آزادی، انصاف اور توازن کو برقرار رکھتی ہے۔
یہ کیس آنے والے برسوں میں پاکستان کے آئینی مستقبل کا فیصلہ کر سکتا ہے، کیونکہ عدلیہ کی آزادی محض اداروں کی نہیں، بلکہ عوام کے بنیادی حقوق کی ضامن ہے۔
Title Image by Max from Pixabay
رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق چترال خیبرپختونخوا سے ہے، اردو، کھوار اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ آپ کا اردو ناول ”کافرستان”، اردو سفرنامہ ”ہندوکش سے ہمالیہ تک”، افسانہ ”تلاش” خودنوشت سوانح عمری ”چترال کہانی”، پھوپھوکان اقبال (بچوں کا اقبال) اور فکر اقبال (کھوار) شمالی پاکستان کے اردو منظر نامے میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں، کھوار ویکیپیڈیا کے بانی اور منتظم ہیں، آپ پاکستانی اخبارارت، رسائل و جرائد میں حالات حاضرہ، ادب، ثقافت، اقبالیات، قانون، جرائم، انسانی حقوق، نقد و تبصرہ اور بچوں کے ادب پر پر تواتر سے لکھ رہے ہیں، آپ کی شاندار خدمات کے اعتراف میں آپ کو بے شمار ملکی و بین الاقوامی اعزازات، طلائی تمغوں اور اسناد سے نوازا جا چکا ہے۔کھوار زبان سمیت پاکستان کی چالیس سے زائد زبانوں کے لیے ہفت پلیٹ فارمی کلیدی تختیوں کا کیبورڈ سافٹویئر بنا کر عالمی ریکارڈ قائم کرکے پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں۔ آپ کی کھوار زبان میں شاعری کا اردو، انگریزی اور گوجری زبان میں تراجم کیے گئے ہیں ۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |