بھکر میں افسانہ اور ناول نگاری
تحریر و تحقیق : مقبول ذکی مقبول ، بھکر
صوبہ پنجاب کا آخری ضلع بھکر جو کہ ٫٫کے پی کے ،، کے شہر ڈیرہ اسماعیل خان کی سرحد اور دریائے سندھ کے مشرقی کنارے پر آباد بھکر ایک ایسا خطہ ہے جو نا وسائلی کے باوجود ہر شعبہء زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے بھکر کا نام روشن کیا ہے ۔ چاہے وہ کوئی بھی میدان ہو پاکستان کے باقی ضلعوں کی طرح بھکر بھی پیچھے نہیں رہا ۔ خاص طور پر فنونِ لطیفہ میں تو اپنی مثال آپ ہے ۔ بھکر کو ضلع کا درجہ 1982ء میں ملا
ضلع بھکر کا حدودِ اربعہ بھکر کی چار تحصیلیں ہیں جن میں بھکر ، دریا خان ، کلورکوٹ اور منکیرہ شامل ہیں ۔ مشرق کی طرف ضلع جھنگ اور ضلع خوشاب سے جاملتا ہے ۔ مغرب کی جانب ڈیرہ اسماعیل خان ، کے ۔ پی ۔ کے سے جاملتا ہے شمال کی جانب ضلع میانوالی سے جاملتا ہے اور جنوب کی طرف ضلع لیّہ سے جاملتا ہے ۔
رقبہ کے لحاظ سے منکیرہ پنجاب کی سب سے بڑی تحصیل ہے ۔ میرا آج کا موضوعِ تحقیق میں افسانہ اور ناول نگاری ہے جو قارئین کے لئے پیشِ خدمت ہے ۔
ابوالعمار بلال مہدی
تحصیل منکیرہ کے شمال کی جانب 16 کلومیٹر کے فاصلے پر گاؤں لِتَن میں بلال مہدی ، زوار ملوک حسین کے گھر 15 مارچ 1951ء کو پیدا ہوئے اور وفات 9 دسمبر 2023ء کو ہوئی آپ ادیب ، شاعر ، تبصرہ نگار ، محقق ، افسانہ نگار ، سوانح نگار ، اور مذہبی سکالر تھے ۔ آپ کی شاہد اقبال مطہری ریسرچ لائبریری بھی ہے ۔ اُس کے انچارج آپ کے بیٹے علی حسنین مہدی ہیں ۔ انہوں نے آپ کے افسانوں کا غیر مطبوعہ مجموعہ راقم الحروف کو دکھایا جس میں 24 افسانے موجود ہیں ۔ ان کے نام کچھ اس طرح سے ہیں ۔ بات ہی بات ، مارگلہ موسم ، وعدہ ، صرف ایک دن کا فرق آپ کے افسانوں میں نوجوان نسل کے لیے اصلاح کا پہلو نمایاں نظر آتا ہے ۔ علی حسنین مہدی افسانوں کو کتاب کی صورت میں شائع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔
الطاف اشعر بخاری
الطاف اشعر بخاری محمد مشتاق شاہ بخاری کے فرزندِ ارجمند ہیں ۔ آپ کی تاریخ و مقام پیدائش 5 اپریل 1970ء بھکر آپ نے ادب کی ہر صنف میں طبع آزمائی کی ہے ۔ آپ کا پہلا افسانہ ٫٫ مجسمہ ،، روزنامہ ٫٫ بھکر ٹائمز ،، بھکر میں 13 دسمبر 2009ء کو شائع ہوا آپ نے چار افسانے لکھے ہیں ۔
اُن کے نام درجِ ذیل ہیں ۔
1 مجسمہ
2 دومنٹ
3 یہ عشق بڑا بے دردی
4 انسان
آپ کے افسانے فکر و فن کے ساتھ ساتھ سماج کی صورتِحال اور پختہ کاری میں کمال درجہ پر ہیں ۔ ہر دو طرح سے قابلِ تعریف ہیں ۔ قاری کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں ۔
انیل چوہان
انیل چوہان ، بھکر کے اُردو ادب اور صحافت میں ایک منفرد اور نمایاں نام ہے ۔ قلمی و اشاعتی حوالے سے ان کی فروغِ ادب کے حوالے سے خدمات روزِ روشن کی طرح عیاں ہیں ۔ اُن کے شعری مجموعے بھی منظرِ عام پر آ چکے ہیں اور نثر بھی ۔ افسانہ نگاری کے حوالے سے سرائیکی زبان میں افسانوں کا مجموعہ ٫٫ اک دے امب ،، ( اگست 1994ء ) کو پاکستان پنجابی بورڈ 15 / 17 آؤٹ فال روڈ سنٹ نگر ، لاہور سے شائع ہوا ۔ جس میں اٹھارہ افسانے شامل ہیں ۔ افسانے ٹیکنیکی اور فنی اعتبار سے پختہ ہیں اور معیار پر پورے اترتے ہیں جو کہ یہ ان کی سرائیکی زبان سے محبت کا ثبوت ہے ۔ انیل چوہان کی مادری زبان اُردوُ ہے ۔
یہ بات اس بات کا اظہار اور ثبوت بھی ہے کہ اگر وہ چاہیں تو اِس طرح کا خوبصورت اُردُو افسانہ بھی لکھ سکتے ہیں لیکن تاحال انہوں نے اُردو افسانہ لکھنے کی طرف توجہ نہیں دی میں امید کرتا ہوں کہ آئندہ اس موضوع پر شائع ہونے والے تحقیقی مقالہ یا مضمون میں ان کے اُردو افسانے بھی شامل ہوں گے اور ان کی علمی ادبی اشاعتی کاوشوں و کوششوں کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ۔
ان نام کے بغیر کوئی تحقیقی مضمون کسی صنفی لحاظ سے مکمل نہیں ہو گا ۔
جاوید عباس جاوید ( پروفیسر )
جاوید عباس جاوید اُردُو ادب کے کامیاب نثر نگار ہیں ان کا شمار بھکر کے اولین افسانہ نگاروں میں ہوتا یے ۔ ان کا پہلا افسانہ لاہور کے رسالہ کھلونا میں جولائی 1974ء میں شائع ہوا جب وہ نویں جماعت میں پڑھتے تھے ۔ اس کے بعد اس رسالے میں آپ کے پانچ مزید افسانے شائع ہوئے ۔ 1990ء میں جب وہ کامرس کالج بھکر میں اُردوُ کے پروفیسر تھے انہوں نے کالج کا میگزین الفلاح جاری کیا جس میں ان کا افسانہ سوغات شائع ہوا ۔ پھر 2000ء میں رسالہ سرمایہ میں ان کا افسانہ محنت میں عظمت شائع ہوا ۔ 2007ء میں انہوں نے کامرس کالج منکیرہ کا پہلا میگزین ریگزار شائع کیا ۔ جو تحصیل منکیرہ میں چھپنے والا پہلا میگزین تھا جس میں ان کا افسانہ ریت دھوپ اور بارش شائع ہوا ۔ اس افسانے میں صحرائے تھل کی دشوار زندگی اور موسم کی تلخیوں کا ذکر خوبصورت انداز میں کیا ہے ۔ ان کی افسانہ نگاری میں منظر کشی ، جذبات نگاری اور معاشرتی ناہمواریوں کا احاطہ کیا گیا ہے ۔
خالد اسراں ( ڈاکٹر )
ڈاکٹر خالد اسراں ، ملک عطا محمد اسراں کے گھر ڈیرہ اسماعیل خان میں 5 فروری 1977ء میں پیدا ہوئے خان دانی نام خالد جاوید قلمی نام ڈاکٹر خالد اسراں
آج کل ڈی ایچ کیو ہسپتال ، بھکر میں ڈاکٹر سرجن کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں ۔ رہائش منڈی ٹاؤن بھکر میں ہے ۔ ادبی میدان میں 1999ء کو وارد ہوئے بنیادی طور پر افسانہ نگار ہیں ۔ غریب طبقہ کے حق میں قلمی علم بردار ہیں ۔ افسانہ ہو یا شاعری انہی لوگوں کی حمایت میں نظر آتی ہے جو غربت ، بے روزگاری اور مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں ۔
افسانہ مزدور سے چند سطریں ملاحظہ کیجئے ۔
ہادی جواب میں کچھ نہیں بولا اور خاموشی سے بات سُنتا رہا ۔
فرید نے اپنی بات جاری رکھی ، بیٹا! میری زندگی تنگ دستی میں گزر گئی ہے ۔ میں چاہتا ہوں کہ تمہارا مستقبل اچھا بن جائے ۔ میری اور تمہاری ماں کی خواہش ہے کہ ہمارا بیٹا ڈاکٹر بنے اور اسے ان تکلیفوں سے نہ گزرنا پڑے جو ہمیں جھیلنی پڑرہی ہیں ۔
وہ باتیں کررہے تھے کہ ہادی کی ماں دونوں کے لیے روٹی لے آئی ۔ آج بھی بینگن کا شوربہ پکا ہوا تھا ۔ وہ روٹی اور سالن ان کے سامنے رکھتے ہوئے بولی ، ٫٫ اف اللّٰہ! کتنی مہنگائی ہو گئی ہے ۔ غریب ٹھیک سے سبزی بھی نہیں کھا سکتا ۔ اب تو سبزی کا بھی شوربہ پکانا پڑتا ہے،، ۔
مہنگائی بہت ہو گئی تھی ۔ بازار میں سب سے سستی سبزی بینگن تھی جو فرید خرید لایا تھا اور آج تیسرا دن تھا کہ گھر میں بینگن کا شوربہ پک رہا تھا ۔۔۔۔۔۔ ہادی مسلسل بینگن کا شوربہ کھا کر تنگ آیا ہوا تھا ۔ اس نے بڑی مشکل سے نوالے گلے میں اُتارے ۔
فضا میں خنکی بڑھ گئی تھی ۔ وہ اُٹھ کر کمرے میں آگئے ۔۔۔۔۔۔
( فسوں زار 95 ص )
آپ کے افسانوں کے چار مجموعے اور ایک شاعری کا مجموعہ ان سب مجمو عوں کو اُردو سخن ڈاٹ کام چوک اعظم ( لیّہ ) نے شائع کیا ۔
نام ردجِ ذیل ہیں ۔
٫٫ آبلہ پا خواب ،، افسانوی مجموعہ ( جون 2017ء ) ٫٫ درِ زنداں ،، افسانوی مجموعہ ( 2018ء ) ٫٫ سر بریدہ سائے ،، افسانوی مجموعہ ( 2021ء ) ٫٫ فسوں زار ،، افسانوی مجموعہ ( 2023ء ) اور شہرِ افلاس شعری مجموعہ ( جنوری 2021ء میں شائع ہوا ۔
خالق داد چھینہ
خالق داد چھینہ ۔۔۔۔۔۔ افسانہ اور ناول نگار
جاڑے کا موسم اور 1970ء سے تین سال قبل پنجاب کی پسماندہ ترین تحصیل منکیرہ میں سرفراز چھینہ کے ہاں پیدا ہوئے ( بستی شمالی محلہ فاروق آباد ، منکیرہ ) ان کے والد سرفراز چھینہ منکیرہ کے ایک محنتی کسان اور تیل کے تاجر تھے ۔ خالق داد چھینہ نے میٹرک تک تعلیم منکیرہ سے ہی حاصل کی ۔ نہم کلاس سے باقاعدہ اخبارات و جراید میں لکھنا شروع کیا ، نام کی طرح تخلیق کا عنصر شخصیت کا نمایاں جزو
ہو نے کی بنا پر یہ سلسلہ تاحال جاری ہے ،
افسانوں کا ایک مجموعہ ٫٫ صداۓ جرس ،، کمپوز ہو چکا ہے زیرِ طبع ہے جس میں فن پارہ ، پانچواں موسم ، عشق کی عین ، عقیدہ ، لہو رنگ گلابوں کا موسم ، ٹھاہ اس میں ایک درجن سے زائد رومانوی ، معاشرتی مسائل اور کرداروں ، رویوں پر مشتمل افسانے ہیں ۔
افسانہ ٫٫ لہو رنگ گلابوں کا موسم ،،
سکول سے واپسی پر صائمہ کا اترا ہوا چہرہ وہ ان کہی داستان کہہ گیا جو صرف ماں ہی سمجھ سکتی ہے ۔ فیس کی تو تکرار تو آئے روز کی بات تھی ، ماں روز نیا بہانہ بنا کر زبیر کو انجنئیر اور صائمہ کو ڈاکٹر بنا بے کی اُمید پر سکول روانہ کرتی تھی خود دن بھر بے تکان سوچو میں گم رہتی اِس محلے کے گندے ماحول میں بھی اجلی سوچیں ہی تو اس کی سکھیاں تھیں بچوں کو انتہائی غربت میں بھی سکول پڑھانا مختصر ترین گھر کو جنّت بنا نا اور اپنی جوانی کو غربت کی فاؤنڈری میں پگھلانا یہی پچیس سالہ بشریٰ کی زندگی کا ہی خاصہ تھا ۔
خالق داد چھینہ نے
چند ناول بھی لکھے ہیں ۔ فاصلے ، زرد پتہ ، نا نجام ، جن کی طباعت نہ ہوسکی مسودے ہنوز مرتب شدہ ہیں ۔
ناول ٫٫ فاصلے ،،
ٹیچر کو نائلہ کی حالت دیکھ کر بلآخر پوچھنا ہی پڑا کہہ کیا بات ہے کیونکہ نائلہ کا شمار کلاس کی اچھی لڑکیوں میں یوتا تھا ، اور آج کل طبیعت کی اس تبدیلی نے نائلہ کو چڑ چڑا کر دیا تھا اور انہوں نے ٹیچر کے سوالوں کا جواب بھی نہیں دیا تھا پھر چہرہ بھی دل کی حالت کی چغلی کھا رہا تھا ۔
خالق داد چھینہ نے اپنی تحریروں میں معاشرے کے افراد کے روشن اور تاریک رخ کو سامنے رکھ کر اصلاحی اور رومانوی پہلوؤں کے ساتھ بہت سادہ الفاظ میں اصلاح کی ہے ۔
بچوں کے لۓ کہانیاں بھی لکھیں ہیں جو بھکر کے پہلے اخبار ٫٫ نواۓ حق ،، بھکر اور نوائے حق ،، لیّہ میں چھپی نکٹھو نے مزدوری کی۔ آموں کی چوری ۔ گدھے کی سواری ۔ ہم نے سائکل سیکھی درجنوں کہانیاں لکھیں جو پھول ، تربیت ، بچوں کی دُنیا ، بزم اطفال اور کئ مقامی اور ملکی جرائد میں لکھا ۔ اخبار جہاں ، فیملی ، اُردُو ڈائجسٹ ، سیارہ ڈائجسٹ ، آدابِ عرض ، سلامِ عرض ، فنون ، افکار ، احقاف اوورسیز انٹرنیشنل ، میں شائع ہوئی ہیں ۔
، آٹھ سال پہلے 2017ء میں بوجوہ منکیرہ سے جہان خان شفٹ ہو گئے ہیں ۔
( نبے والا موضع کمال تھہیم مسلم کوٹ روڈ نبے والا جہان خان بھکر )
عباس خان
محمد افضل خان کے بیٹے غلام عباس خان 15 دسمبر 1943ء کو بستی گُجہ ، بھکر میں پیدا ہوئے ۔ آپ کا خاندان بلوچوں جسکانی قبیلہ سے ہے ۔ افسانہ اور ناول نگاری کے حوالے سے عباس خان کے نام سے شہرت کی بلندیوں پر پہنچے ۔ ابتدائی تعلیم بستی گُجہ پھر بھکر ، لیّہ ، مظفرگڑھ اور ایم ۔ اے سیاسیات پنجاب یونیورسٹی اور ایل ایل بی کا امتحان پنجاب یونیورسٹی لاء کالج لاہور سے کیا ۔ پہلے آپ ایڈیشنل سیشن جج تعینات ہوئے پنجاب بھر کے مختلف شہروں میں اپنی ذمہ داریاں دیانت داری اور ایمان داری کے ساتھ سر انجام دیں ۔
14 دسمبر 2003ء کو ملازمت کی مدّت پوری ہوئی ضلع بھکر میں سیشن جج کے عہدے سے ریٹائرمنٹ لی ۔ افسانہ اور ناول نگاری میں آپ نے عالم گیر شہرت حاصل کی آپ کے افسانے اور ناول کالج ، یونیورسٹی ، میگزین کے علاوہ بھی اخبارات ، رسائل و جرائد میں بھی شائع ہوتے رہے ہیں ۔
چند کے نام درجِ ذیل ہیں ۔
سہ ماہی ٫٫ ادبیات ،، ( اکیڈمی آف لیٹرز اسلام آباد )
ماہنامہ تخلیق ، ماہنامہ ادبِ لطیف ، ماہنامہ قومی ، ڈائجسٹ ، ماہنامہ سیارہ ڈائجسٹ ، لاہور سہ ماہی سیپ ، کراچی روز نامہ نوائے وقت ، لاہور ماہنامہ شاعر ، بمبئی اور ہفت روزہ آگ ، بھارت ۔
عباس خان کی افسانہ نگاری کے حوالے سے ڈاکٹر علامہ محمد اقبال رحمۃ اللّٰہ علیہ کے بیٹے ڈاکٹر جاوید اقبال ( ریٹائرڈ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ ) ایک مضمون میں لکھتے ہیں ۔ عباس خان کو علی عباس حسینی ، غلام عباس اور خواجہ احمد عباس کے پائے کا افسانہ نگار قرار دیتے ہوئے انہیں عباس چہارم کا نام دیا ہے ۔
عباس خان کے
افسانوں کے مجموعوں کے نام کچھ اِس طرح سے ہیں
٫٫ دھرتی بنام آکاش ،، ( 1978ء )
٫٫ تنسیخِ انسان ،، ( 1981ء )
٫٫ قلم ، کرسی اور وردی ،، ( 1987ء ) جنگ پبلشرز 13 آغاز خان روڈ لاہور نے شائع کیا
٫٫ اُس عدالت میں ،، ( 1992ء )
٫٫ جسم کا جوہڑ ،، ( 1999ء ) کو بیکن بکس ، ملتان نے شائع کیا
افسانچوں کے مجموعوں کے نام کچھ اِس طرح سے ہیں ۔
٫٫ ریزہ ریزہ کائنات ،، ( 1992ء )
٫٫ ستاروں کی بستیاں ،، ( 2012ء ) بیکن بکس ، ملتان سے شائع کیا
ناولوں کے نام کچھ اِس طرح سے ہیں ۔
٫٫ زخم گواہ ہیں ،، ( 1984ء ) اس کے بعد ( 1988ء ) میں بھارت میں بھی شائع ہوا تھا ۔
٫٫ تُو اور تُو ،، ( 2005ء ) کو کلاسیک پبلیشرز 42 مال روڈ لاہور سے شائع کیا دوسرا ایڈیشن بیکن بکس ، گلگشت ملتان نے ( 2007ء ) میں شائع کیا ۔
٫٫ میں اور امراؤ جان ادا ،، ناول کی مقبولیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے پہلی بار ( 2005ء ) کو شائع کیا دوسرا ایڈیشن پبلیشرز 42 مال روڈ لاہور نے شائع اور اس کے بعد تین بار بیکن بکس گلگشت ملتان نے اس کو شائع کیا ۔ ان کے علاوہ عباس خان ایک اور موضوع پر ایک کتاب
٫٫ پل پل ،، ( 2009ء ) کو بیکن بکس گلگشت ملتان نے شائع کی ۔
علی شاہ
علی شاہ کا خان دانی نام سید اُمید علی شاہ اور ادبی دنُیا میں علی شاہ کے نام سے شہرت رکھتے تھے ۔ یکم فروری 1966ء کو سید محمد اعجاز شاہ کے گھر 38 چک ضلع خانیوال میں آنکھیں کھولیں ۔ زندگی میں 50 بہاریں دیکھ لیں ۔ 16 جون 2016ء کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے آنکھیں بند کر لیں ۔
علی شاہ نے گیارہ کتابیں لکھیں ۔ زیادہ تر تحقیق اور شاعری انتخاب پر مشتمل ہیں ۔
علی شاہ کا افسانچوں کا مجموعہ ٫٫ زرد پتے ،، ( معاشرتی افسانچے ) 2000ء کو منصہء شہود پر آیا اس کو شہر یار پبلی کیشنز اسلام آباد نے شائع کیا ۔ علی شاہ کے افسانچوں میں بے رحم زمانے کی تلخ حقیقت ، دوکھا دادھئی ، رشوت کا بازار گرم اور معاشرے میں ناانصافیاں اپنے عروج پر دکھائی دیتی ہیں ۔ جیسے جیسے قاری مطالعہ کرتا جاتا ہے ۔ اُس کے سامنے معاشرے کا چہرہ آنکھوں کے سامنے کھومتا ہوا دکھائی دیتا ہے ۔ جیسا کہ ایک مشہور کہاوت ہے جس کی بھیس اُسی کی لاٹھی اِس طرح کے موضوعات پائے جاتے ہیں ۔
آج سے 27 ۔ 28 سال قبل اُس وقت کی عکاسی کرتے ہیں ۔ آج کل کے دور میں تو لوٹنے اور فراڈ بازی کے نئے نئے تریکے ایجاد ہو گئے ہیں ۔
علی شاہ کے افسانچوں کے نام کچھ اس طرح سے ہیں ۔ اللّٰہ کا گھر ، چمک ، قانون ، جرنیل کا بیٹا ، چوروں کو مور ، عقیدے ، پیٹ کی آگ ، قرض شناسی ، وارننگ ، علاج ، پانچوں گھی میں ، انتقام ، سادہ لوگ ، کرامت ، موت کے سوداگر ، دولت کا نشہ ، ایک سو کے قریب افسانچے شامل کئے گئے ہیں ۔
٫٫ زرد پتے ،، سے اقتباس
٫٫ وہ رات دس بجے کوئٹہ کے ریلوے سٹیشن پر اترا اور مسافر خانے میں رات بسر کرنے کے متعلق سوچ رہا تھا کہ وہاں پر موجود پولیس کے ایک سپاہی نے اسے دھر لیا تلاشی لینے پر اُس کی جیب سے ہزار روپے کا ایک نوٹ اور خانیوال سے کوئٹہ تک کا ٹرین کا ٹکٹ بر آمد ہوا ۔۔۔۔۔۔۔ نوٹ دیکھ کر سپاہی کی رال ٹپکنے لگی اور نوجوان کو آوارہ گردی کے جرم میں پولیس چوکی چلنے کی دھمکی دی ۔۔۔۔۔ نوجوان کی منت سماجت پر سو روپے میں مک مکا ہو گیا ۔ سپاہی نے نوٹ اپنی جیب میں رکھ لیا اور نوجوان کو نو سو کے بجائے آٹھ سو روپے واپس کئے اور بغیر گنے وہاں سے بھاگ جانے کو کہا ۔۔۔۔۔ نوجوان نے پرنس روڈ کے ایک ہوٹل میں اطمینان سے رات بسر کی ۔۔۔۔ سپاہی جب دوسری صبح کپڑے کی ایک بڑی دوکان پر ٫٫ بیگم ،، کے ہمراہ خریداری کے بعد ہزار کا نوٹ دوکان دار کے حوالے کیا تو جعلی نوٹ کے جرم میں دکان دار نے اسے پولیس کے حوالے کر دیا ،، ( ص 31 ) علی شاہ نے بچوں کی کہانیاں بھی لکھیں ۔
غزالہ کشور ملک
غزالہ کشور ملک نے افسانہ نگاری کا آغاز 2022ء میں کیا ان کا پہلا افسانہ ٫٫ دکھاوا ،، اپوا تنظیم ،، کے زیرِ انتظام شائع ہونے والی کتاب ٫٫ پیام ہدایت ،، میں شائع ہوا ان کا دوسرا افسانہ ٫٫ مسیحا ،، کے عنوان سے کتاب ٫٫ چمکتے ستارے ،، میں شائع ہوا اس کے علاؤہ قسمت ، کل اثاثہ ، یقین ، محبت امید اور انتظارِ رسائل کی زینت بن چکے ہیں ۔
غزالہ کشور ملک ( زوار آباد ، بھکر ) اپنے ایک ٹیلی فونک انٹرویو میں اپنے تخلیقی سفر کے بارے میں بتاتی ہیں کہ
٫٫ میں نے پہلا ناول 2013ء میں دخل لکھا لیکن وہ پھر شائع نہیں ہوا ۔ اس کے علاؤہ باقاعدہ ناول نگاری کا آغاز 2024ء میں کیا پہلا ناولٹ ٫٫ تیری محبت کے اسیر ،، اکتوبر 2024ء ماہنامہ ٫٫ حنا ،، ڈائجسٹ میں شائع ہوا اس کے بعد دوسرا ناول ٫٫ میرا عشق ہو تم ،، ماہنامہ ٫٫ آنچل ،، میں شائع ہوا ہے تیسرا ناول ٫٫ قید ہجر یاراں ،، حنا ڈائجسٹ ستمبر کے شمارے میں شائع ہونے والا ہے ۔ ناولوں کا موضوع سماجی اور عورت کے مسائل اور حقوق ہیں۔ ناولوں کے موضوع رومان اور سماج کے گرد گھومتے ہیں ۔ پسندیدہ ناول نگار تو بہت ہیں لیکن فرحت اشتیاق صاحبہ میری پسندیدہ لکھاری ہیں
مزید تین ناولوں پر مشتمل کتاب زیرِ طبع ہے اِن شاء اللّٰہ اکتوبر میں منظر عام پر آئے گی ۔ میرا تخلیقی و تصنیفی سفر پورے شوق اور مطالعہ سے جاری ہے ،،
انٹرویو کنندہ مقبول ذکی مقبول ، بھکر
غلام محمد تقی متین کوٹلہ جامی
بھکر کے ادب میں ایک معتبر نام
شاعر و ادیب مصنّف (والدِ بزرگوار پروفیسر جاوید عباس جاوید اور ظفر عباس ) غلام محمد تقی متین کوٹلہ جامی ( 18 اکتوبر 1920ء / 15 نومبر 1996ء ) آپ نے بچوں کے لیے اُردو میں کہانیاں بھی لکھیں ۔
فرحت پروین
فرحت پروین کی پیدائش یکم جنوری 1953ء کو غلام حیدر خان کے گھر بھکر میں ہوئی ۔ ان کا قلمی اور خان دانی نام ایک ہی ہے ۔ فرحت پروین ۔ میٹرک تک تعلیم بھکر میں حاصل کی ۔
فرحت پروین کافی عرصہ سے امریکہ میں رہائش پذیر ہیں ۔ افسانہ نگاری میں بین الاقوامی شہرت یافتہ خاتون ہیں ۔ افسانہ کو افسانہ لکھا اور اُس کی رُوح میں اتر گئیں ۔ جس کی وجہ خاص خدا داد صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ علمی و ادبی ماحول بھی ٖمیصر آیا اور بچپن سے لکھنے اور مطالعہ کا شوق بھی جھلکتا ہوا نظر آتا ہے ۔ فرحت پروین نے افسانہ نگاری کا آغاز 1992ء میں کیا مشہور و معروف رسائل و جرائد میں افسانے شائع ہوتے رہے ہیں ۔ جن میں فنون ، سویرا ، ادبِ لطیف ، اور دیگر ملکی و غیر ملکی میں ہندوستان کا رسالہ ادب ، اور امریکہ کا رسالہ ٫٫ آواز ،، علمی و ادبی حلقوں اور قارئین میں بھرپور پزیرائی ملی ۔
فرحت پروین کی افسانہ نگاری کے بارے میں معروف کالم نگار عطا الحق قاسمی کہتے ہیں ۔ باقی جہاں تک فرحت پروین کی افسانہ نگاری کا تعلق ہے تو میں ان کے فن کے کشتگان میں سے ہوں ۔ ان کا تعلق افسانے کی حقیقت پسندانہ روایت سے ہے ۔ گزشتہ کچھ عرصے کے دوران جو چند افسانہ نگار خواتین اپنے پورے قد کے ساتھ سامنے آئی ہیں اُن میں فرحت پروین ، طاہرہ اقبال ، نیلم احمد بشیر اور راحت وفا سر فہرست ہیں ۔ فرحت پروین کا ذکر میں نے خواتین افسانہ نگاروں کے ساتھ اس لیے کیا ہے کہ مجھے ان کے افسانوں میں ممتا بہت نظر آتی ہے ۔ اور یہ ممتا کمزروں کیلئے خصوصاً بہت طاقتور ہو جاتی ہے ۔
فرحت پروین کے
افسانوی مجموعوں کے نام کچھ اس طرح سے ہیں ۔
1 ٫٫ منجمد ،، ( 17 فسانے شامل ہیں ) اساطیر لاہور نے 1997ء کو شائع کیا دوسرا ایڈیشن 2005ء کو روش پبلی کیشنز نے شائع کیا
2 ٫٫ ریستوران کی کھڑکی سے ،، ( 18 افسانے شامل ہیں ) جس کو مئی 2000ء میں اساطیر نے شائع کیا
3 ٫٫ صندل کا جنگل ،، ( 24 افسانے شامل ہیں ) 2010ء میں جہانگیر بکس لاہور نے شائع کیا
4 ٫٫ کانچ کی چٹان ،، ( 31 افسانے شامل ہیں ) جس کو 2012ء میں جہانگیر بکس لاہور نے شائع کیا
5 ٫٫ بزمِ شیشہ گراں ،، ( 21 افسانے شامل ہیں ) جس کو 2014ء میں بیاض نے شائع کیا
زیرِ طبع
٫٫ برگ گل افسوس ،، ( ناول )
اور غزلیات کا مجموعہ ہے ۔
محمد اشرف کمال ( پروفیسر ڈاکٹر )
محمد اشرف کمال منڈی ٹاؤن بھکر سے ہیں انہوں نے چند افسانے لکھے ہیں ۔ میگزین دِلکُشا 2015ء بھکر نمبر گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج بھکر اور دیگر رسائل و جرائد اخبارات میں شائع ہوچکے ہیں ۔ جو انسانی قدروں کی بھرپور نمائندگی کرتے ہیں ۔ جن کے نام کچھ اِس طرح سے ہیں ۔ شکار ، نارسائی ، مجھے میرا چہرہ لادو ، مکافاتِ عمل ، گنجا ، سپہ سالار اور نقب زن ۔
محمد ضیاء المصطفیٰ
محمد ضیاء المصطفیٰ ( پروفیسر ڈاکٹر )
مولانا محمد عاشق حسین فائق کے فرزند محمد ضیاء المصطفیٰ کا تعلق بھکر کے ایک گاؤں حسن خان سے ہے ۔ گورنمنٹ کالج ، بہل میں لیکچرار ہیں ۔ آپ کی مادری زبان سرائیکی ہے جبکہ تخلیقات اُردو میں ہیں ۔ آپ کے افسانے مختلف رسائل و جرائد میں شائع ہو چکے ہیں ۔ اُن کے نام کچھ اِس طرح سے ہیں ۔
ماہنامہ ٫٫ ادبِ لطیف ،، لاہور ماہنامہ ٫٫ قومی زبان ،، کراچی سہ ماہی ٫٫ ادبیات ،، اسلام آباد سہ ماہی ٫٫ تسطیر ،، جہلم سہ ماہی ٫٫ ادراک ،، گوجرانولہ اور سہ ماہی ٫٫ فن زاد ،، سرگودھا ۔
بھر انہی افسانوں کو حال ہی میں اگست 2025ء میں ٫٫ شیتل ،، کے نام سے افسانوی مجموعہ منصہء شہود پر آیا ۔ ناشر فکشن گیلری ، لاہور صفحات 235 پر مشتمل ہے ۔ افسانے 19 شامل کئے گئے ہیں ۔
محمد رفیق چغتائی
شاعر و مصنّف محمد رفیق چغتائی کا تعلق مسلم کوٹ سے ہے سرائیکی میں شعر کہتے ہیں ۔ سرائیکی میں افسانے بھی لکھے ہیں جو غیر مطبوعہ ہیں ۔
ملک نعمان حیدر حامی
ملک نعمان حیدر حامی ضلع بھکر کی تحصیل دریا خان کے ایک چھوٹے سے گاؤں چاہ اسراں چک نمبر 18 ٹی ۔ ڈی ۔ اے ۔ میں یکم مارچ 2005ء کو احمد نواز کے گھر پیدا ہوئے بچپن سے لکھنے کا شوق پیدا ہوا یعنی پانچویں کلاس میں تھے شعر کہنا شروع کر دیا ۔ ابھی طالب علم ہی ہیں تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور ادب بھی تخلیق کر رہے ہیں ۔ اِن کی تحریریں مقامی اخبارات ملکی و غیر ملکی رسائل و جرائد میں شائع ہو چکی ہیں ۔
چند کے نام درجِ ذیل ہیں ۔
روزنامہ ٫٫ بھکر ٹائمز ،، بھکر ماہنامہ ٫٫ بیاض ،، لاہور ٫٫ املاک ،، مردان ، ہفت روزہ ٫٫ مارگلہ نیوز ،، انٹرنیشنل اسلام آباد اور ماہنامہ ٫٫ کامل ،، میں بھی شائع ہوتی رہی ہیں ۔
ملک نعمان حیدر حامی کا افسانوی مجموعہ ٫٫ اے محبت مجھے معاف کر ،، 2024ء میں منصہء شہود پر آیا ہے ۔
15 افسانے شامل کئے گئے ہیں ۔ انتساب سعادت حسن منٹو کے نام کیا گیا ہے ملک نعمان حیدر حامی کے افسانوں میں جدیدیت پائی جاتی ہے جیسا کہ افسانہ حیثیت اور پرورش یہ دو ایسے افسانے ہیں جو کہ خوبصورت منزل پر پہنچ جاتے ہیں اور قاری کے اندر موجودہ دور کی ایک تصویر کشی پیدا کرتے ہیں ۔
انہوں نے بچوں کے لئے کہانیاں بھی لکھیں ہیں ۔
منیر بلوچ ( پروفیسر )
منیر بلوچ ، بھکر شہر سے ہیں ۔ دو درجن کے قریب افسانے لکھے ہیں ۔ جو میگزین ٫٫ دِل کُشا ،، 2004ء گورنمنٹ کالج ، بھکر سہ ماہی ٫٫ سفید چھڑی ،، سرگودھا اور دیگر رسائل میں شائع ہوچکے ہیں
منظور حسین قریشی
منظور حسین قریشی ، بستی سیال بھکر میں رہائش پذیر ہیں ۔ آپ نے مختلف مضامین لکھے اور کالم بھی لکھے ہیں ۔ صحافت بھی ان کا شوق ہے ۔ آپ کے افسانے فنون ، لاہور میں شائع ہوتے رہے ہیں ۔ افسانہ ٫٫ شناخت ،، بہت مقبول ہوا جو کہ بیٹی کے حقوق کی طرف بھرپور توجہ دلائی یہی وجہ بنی جو افسانہ سب کی توجہ کا مرکز بنا ۔ بیٹی اور بیٹے کا موازنہ بھرپور انداز میں کیا گیا ہے ۔
نذیر احمد نذیر ڈھالہ خیلوی
نذیر احمد نذیر ڈھالہ خیلوی ( استاد الشعراء ) محلہ سردار بخش بھکر میں رہائش پذیر ہیں ۔ ایک ملاقات کے دوران افسانہ نگاری کے حوالے سے سوال کیا تو انہوں نے کہا 30/ 35 سال پہلے افسانے لکھے تھے وہ مقامی اخبار میں بھی شائع ہوئے تھے وہ میرے گھر میں موجود ہیں ۔ تلاش کرنے سے مل سکتے ہیں ۔ اس کے بعد انہوں نے اپنی تخلیقات کا رخ سرائیکی شاعری کی طرف موڑ لیا ۔
میگزین ٫٫ احقاف ،، 1989ء گورنمنٹ کالج ، بھکر میگزین ٫٫ دِل کُشا ،، 2004ء میگزین ٫٫ ریگ زار ،، 2007ء گورنمنٹ کالج آف کامرس ( منکیرہ ضلع بھکر ) میگزین ٫٫ دِل کُشا ،، 2015ء بھکر نمبر گورنمنٹ پوسٹ گریجوایٹ کالج ، بھکر
ان
کالج میگزین میں افسانے شائع ہوئے ہیں ۔
اُن میں پروفیسر افتخار احمد بشر ، کا افسانہ ٫٫اج کالا جوڑا پا ساڈی فرمائش تے ،،
پروفیسر سجاد حسین شاہ ، کا افسانہ ٫٫ بھوک ،،
پروفیسر عامر ملک ، کا افسانہ ٫٫ بوڑھے کا خواب ،،
قاضی ظفر اقبال ، کا افسانہ ٫٫ ماضی کے دریچے سے ،،
غلام اصغر ، کا افسانہ ٫٫ ہمدردی ،،
احمد نواز خان ، کا افسانہ ٫٫ خلش ،،
ممتاز میتلا ، کا افسانہ ٫٫ خاموشی ،،
شفقت اللّٰہ ہمدانی ، کا افسانہ ٫٫ دستک ،،
محمد احمد ریاض ، کا افسانہ ٫٫ ایک ناقابلِ فراموش واقعہ ،،
عقیل عباس ، کا افسانہ ٫٫ خدا داد کا ایک دن ،،
عامر سہیل ، کا افسانہ ٫٫ غمِ حیات ،،
محمد یاسر ، کا افسانہ ٫٫ کڑوا سچ ،،
قیصرہ رانا ، کا افسانہ ٫٫ شکست آرزو ،،
***

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |