دبئی قونصلیٹ امارات
ڈاکٹر عطاء الرحمن کا دستخط شدہ ایک "ڈیتھ سرٹیفکیٹ” میرے سامنے ہے۔ ڈاکٹر موصوف، آفس آف پلگرمز افیئرز پاکستان، مکہ مکرمہ میں میڈیکل آفیسر (حج) ہیں۔ یہ ڈیتھ سرٹیفکیٹ دبئی کی رہائشی ایک پاکستانی برٹش خاتون کا ہے جو امسال حج کے دوران مکہ مکرمہ میں 3جون کو فوت ہوئیں۔ یہ ڈیتھ سرٹیفکیٹ 8جون کو جاری کیا گیا۔ لیکن لواحقین کو یہ تفصیل نہیں بتائی گئی کہ دبئی، برطانیہ یا پاکستان میں اسے استعمال کرنے کے لیئے اس سرٹیفکیٹ کو پہلے پاکستان قونصلیٹ جدہ اور پھر فارن آفس (جسے مختصرا "موفا” کہتے ہیں) سے اٹیسٹ کروانا بھی ضروری ہے۔ اول ایسے کسی ڈاکومنٹ کی موفا تصدیق ہی ایک تھکا دینے والی جدوجہد ہے۔ دوم جب اس کاغذ کو متحدہ عرب امارات، دبئی (یا کسی دیگر ملک وغیرہ) میں استعمال کرنا ہو تو دبئی قونصلیٹ سے کونٹر اٹیسٹیشن کروانا پڑتی ہے، جس کے بعد دبئی سے بھی دوبارہ موفا اٹیسٹیشن ہوتی ہے، اور دبئی قونصلیٹ کسی ایسے ڈاکومنٹ کی اس وقت تک تصدیق کرنے نہیں کرتا ہے جب تک اسے واپس سعودی عرب لے جا کر پاکستان قونصلیٹ جدہ اور موفا سے تصدیق نہ کروایا جائے۔
اس پیچیدہ عمل پر طرفہ لطیفہ یہ ہے کہ دبئی قونصلیٹ میں ایسا کوئی انتظام نہیں ہے کہ سعودی عرب جانے کے لیئے ویزہ، ریٹرن ٹکٹ اور ہوٹل وغیرہ پر خرچ سے بچنے کے لیئے دبئی قونصلیٹ ہی میں، پلگرمز افیئرز پاکستان، مکہ مکرمہ (یا مدینہ) کے ایسے ڈاکومنٹ کو تصدیق کر دیا جائے، یعنی آپ عدم معلومات کی وجہ سے ایسا ڈاکومنٹ لے کر دبئی آ گئے ہیں تو آپ کو سعوی عرب کا کم و بیش دو ہفتوں کا دوبارہ چکر لگانا پڑے گا جس پر آپ کا کل ملا کر مبلغ 20 ہزار درہم تک خرچہ اٹھے گا، جو کہ پاکستانی روپے میں تقریبا 16 لاکھ بنتا ہے۔
اس ڈاکومنٹ کی دبئی قونصلیٹ سے تصدیق کے لیئے مجھ سے مرحومہ کے خاوند نے رابطہ کیا تو یہ تلخ اور مشکل معلومات میرے علم میں آئیں۔ میں چار پانچ دفعہ پاکستانی سفارت خانہ ابوظہبی گیا ہوں جہاں میری ملاقات پاکستانی سفیر سید فیصل نیاز ترمذی صاحب سے ہوئی، اور پاکستان قونصلیٹ بھی بہت دفعہ چکر لگا ہے۔ ان دونوں جگہوں پر درجنوں پاکستانیوں کو تپتی دھوپ پر کھڑے دیکھا، اور ان کو سنا بھی، جس وجہ سے مجھے وہاں فائلیں اور کاغذات اٹھائے سائلین کے ساتھ پیش آنے والے مسائل کا علم ہے۔ خاص طور پر دبئی قونصلیٹ کے باہر جو پاکستانی نیشنلز پاسپورٹ اور شناختی کارڈ رینیو کروانے آتے ہیں انہیں بہت زیادہ مشکلات سے گزرنا پڑتا ہے۔ ابوظہبی سفارت خانہ اور دبئی قونصلیٹ میں ایک تو انفارمیشن ڈیسک اور "آوٹ سائڈ” انتظار گاہیں نہیں ہیں، دوسرا وہاں آنے والوں کو یہاں پہنچ کر پتہ چلتا ہے کہ پاسپورٹ اور شناختی کارڈ رینیو کروانے کے لیئے، پہلے آن لائن اپونٹمنٹ بک کروانی پڑتی ہے جو بعض دفعہ ایک ہفتہ سے لے کر ایک ماہ تک ملتی ہے۔ دوبئی کونسلیست کے باہر کچھ ایجنٹ بھی یہ کام کرتے ہیں اور اس کے سامنے ایک ٹائپنگ سنٹر بھی اپونٹمنٹ لے کر دیتا ہے۔ لیکن ان کی فیس تین سو پچاس درہم تک ہے اور ارجنٹ اپونٹمنٹ لو تو فیس دگنی سے بھی زیادہ ہو جاتی ہے۔ پھر ان کو منہ مانگے پیسے دو تو اسی دن کی بکنگ بھی ہو جاتی ہے۔ اب یہ معلوم نہیں کہ وہ یہ اپونٹمنٹ لینے کے لیئےقونصلیٹ میں کیا "ذریعہ” استعمال کرتے ہیں یا اس میں کون اہل کار ملوث ہیں۔ اگر اپونٹمنٹ اپنے طور پر لی جائے اور زیادہ وقت لگے تو اس دوران بعض سائلین کے ویزے ختم ہو جاتے ہیں اور ان کا جرمانہ شروع ہو جاتا ہے، پاسپورٹ کی ارجنٹ فیس پر دس دن اور نارمل فیس پر رینیوول کے لیئے ایک ماہ لگتا ہے۔ شناختی کارڈ کی رینیول کے لیئے بھی تقریبا اتنا ہی وقت لگتا یے۔ پاسپورٹ اور شناختی کارڈ دونوں اسلام آباد سے پرنٹ ہو کر آتے ہیں۔ حالانکہ ایک سو درہم یا مناسب فیس بڑھا کر پاسپورٹ اور شناختی کارڈ رینیول اور پرنٹنگ کا احتمام ابوظہبی اور دبئی میں بھی کیا جا سکتا ہے۔ مقامی پرنٹنگ سے ایک تو حکومت کی آمدنی میں اضافہ ہو گا دوسرا سائلین کو بھی بروقت ڈلیوری ہو گی۔ اسی طرح ڈیتھ سرٹیفکیٹ کی تصدیق کے لیئے بھی دبئی اور ابوظہبی میں سعودی عرب کے سفارت خانوں سے آن لائن تصدیق کا احتمام کیا جا سکتا ہے جس سے وقت اور اخراجات میں بھی کمی آئے گی اور حکومت کی انکم میں بھی مزید اضافہ ہو گا۔
ہم سب جانتے ہیں کہ حج اور عمرے کے دوران ہر سال سینکڑوں حاجی مکہ اور مدینہ میں وفات پاتے ہیں جن کی اموات کے کاغذات کی تیاری اور تصدیق ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ اس معاملے میں ‘ڈیتھ سرٹیفکیٹ’ جائیداد کی ٹرانسفرز وغیرہ کے حوالے سے بہت اہم ڈاکومنٹ ہے جس کا مقامی انتظام کرنے سے جعل سازی، رشوت اور بہت سی دیگر پیچیدگیوں سے بچا جا سکتا ہے۔ بعض دفعہ ایسے واقعات بھی پیش آئے ہیں کہ زندوں کو "مردہ” اور مردوں کو "زندہ” ثابت کر دیا جاتا ہے۔ خاص طور سفارش اور رشوت کی بیماری عام ہونے کی وجہ سے اس سے بچنا بذات خود ایک مشکل کام ہے، چہ جائیکہ بہت سے "اینجٹس” دے دلا کر ناممکن کام کو بھی ممکن بنا دیتے ہیں۔
میں پاکستان کی بیوروکریسی، اس کے "فائل سسٹم ” اور "ایز پر پروسیجرز” کے بارے میں کافی جانتا ہوں۔ لطف کی بات ہے کہ میں نے اس ڈیتھ سرٹیفکیٹ کی تصدیق کے لیئے جو بھاگ دوڑ کی ہے اس سے بہت سارے دیگر حیران کن حقائق بھی میرے سامنے آئے، جن میں متحدہ عرب امارات کی ریاست راس الخیمہ میں "پاکستان سنٹر” کی تعمیر اور اس کا "ناجائز استعمال” بھی شامل ہے۔ یہ معاملہ بھی کافی پیچیدہ، بلکہ گھناونا ہے کیونکہ لگتا ہے کہ اس میں گزشتہ سفارت کار کرپشن میں ملوث تھے۔ اس حوالے سے دبئی قونصلیٹ کے سی جی محمد حسین سے بھی میری دو دفعہ بات ہوئی ہے۔ وہ کافی ذمہ دار سفارت کار ہیں اور اس معاملے پر انہوں نے ایک تین رکنی کمیٹی بھی بنائی ہے۔تاہم اس موضوع پر کچھ مزید تحقیق کی ضرورت ہے، جس پر کسی اگلی نشست میں بات ہو گی۔
حج کی فرضیت اور اہمیت قرآن و حدیث میں بڑی واشگاف الفاظ میں بیان ہوئی ہے۔ قرآن مقدس میں اللہ پاک نے حکم دیا یے: ’’جو استطاعت رکھے اس پر اس گھر کا حج فرض ہے اور جو کوئی انکار (کفر) کرے تو اللہ عالم والوں سے بے پرواہ ہے‘‘ ( آل عمران:۹۷)۔ اسی طرح ایک حدیث شریف کے مطابق نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ، ’’اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے۔ توحید و رسالت، نماز کا قیام، زکوٰۃ کی ادائیگی، حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا‘‘
یوں حج کرنا اسلام کے بنیادی فرائض میں شامل ہے مگر اس کے لیئے جہاں اسطاعت رکھنا لازم ہے وہاں مکمل طور پر صحتمند اور سفر کے قابل ہونا بھی ضروری ہے۔ بہت سے مسلمان مکہ اور مدینہ میں دفن ہونے کی خواہش کرتے ہیں مگر وہاں مرنے کی تمنا کرنا برحق نہیں ہے۔ اللہ پاک ہم سب کو دین اسلام کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |