ترنول کے گدھے
ہمارے ہاں جتنا لتر پولا کچھ عرصے سے گدھوں کے ساتھ کیا جا رہا ہے اس سے تنگ آ کر شائد وہ انسان بننا ہی نہ سیکھ لیں۔ گدھا شریف النفس جانور ہے اور سب سے بڑھ کر وہ مفید بھی ہے کہ یہ مال برداری کے کام آتا ہے۔ لیکن سچ یہ ہے کہ ہم پاکستانی گدھوں کے ساتھ کچھ اچھا سلوک نہیں کر رہے ہیں بلکہ سچی بات ہے ہم گدھے کی شرافت سے ناجائز "فائدہ” اٹھا رہے ہیں۔ پہلے گدھوں کو کاٹ کاٹ کر کھانے کے واقعات لاہور میں پیش آئے تھے اور اب اس میں اسلام آباد بھی شامل ہو گیا ہے۔
یہ واقعہ اسلام آباد کے نواحی گاؤں ترنول میں پیش آیا ہے مگر دنیا بھر میں بدنامی اسلام آباد (اور پاکستان) کی ہو رہی ہے۔ اطلاعات کے مطابق پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی پولیس کے مطابق ترنول تھانہ سنگجانی کی حدود میں گدھے کے گوشت کی فروخت کی اطلاع ملنے پر اسلام آباد کی فوڈ اتھارٹی نے پولیس کے توسط سے چھاپہ مار کر مبلغ 1000 کلو گرام گدھے کا گوشت اور 45 کے قریب زندہ گدھے برآمد کئے۔ ایک پولیس اہلکار نے بتایا کہ اس معاملے میں ایک چینی شخص کو بھی گرفتار کیا گیا ہے جن سے اس حوالے سے تفتیش کی جاری ہے کہ یہ گوشت کہاں اور کیسے فروخت ہوتا تھا۔
عمران خان کے دور میں یہ اطلاعات بھی آئی تھیں کہ چینی گدھے کا گوشت بڑے شوق سے کھاتے ہیں۔ عمران حکومت میں گدھوں کے "فارم ہاوس” بنانے کی خبریں بھی آئی تھیں۔ تب گدھوں کی قیمتیں بڑھ گئی تھی کیونکہ کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں چینی ورکروں کو گدھے کا گوشت سپلائی کیا جاتا تھا۔ پولیس کے مطابق حالیہ واقعہ میں ان گدھوں کو پنجاب کے مختلف شہروں سے ایک فارم ہاؤس میں لایا جاتا تھا اور ان کو کاٹ کر گوشت فروخت کیا جاتا تھا جبکہ کھالیں گوادر کے راستے چین سپلائی کر دی جاتی تھیں جنھیں مبینہ طور پر کاسمیٹکس بنانے کے لئے استعمال میں لایا جاتا ہے۔
جب ستمبر 1973ء میں سید کمال نے تفریح سے بھرپور فلم ’’انسان اور گدھا‘‘ بنائی تھی تو کسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ گدھا کبھی انسان کے پیٹ تک رسائی حاصل کر لے گا۔ اس فلم کی انوکھی بات یہ تھی کہ پہلی بار ایک جانور کو مرکزی خیال بنا کر کہانی کا پلاٹ تیار کیا گیا تھا۔ کامیڈی کے بادشاہ ’’رنگیلا‘‘ نے اس فلم میں ٹائٹل رول کیا تھا، یعنی وہ ’’انسان اور گدھا‘‘ بنے تھے۔ اس کہانی میں اس مال بردار جانور کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو نہایت جرات اور انوکھے اندز میں دکھایا گیا تھا۔ فلم کے منظرنامے میں مکمل تفریح کو مدنظر رکھتے ہوئے بے حد موثر انداز میں انسانوں پر جہاں طنز کیا گیا، وہاں ایک جانور ’’گدھا‘‘ جو اپنے مالک کے دن رات ظلم و زیادتیوں سے تنگ آ کر ایک روز اپنے خدا سے دعا کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ’’ڈھنگ انسانیت کا سکھا دے، اے خدا مجھ کو انسان بنا دے‘‘۔
اللہ اس کی التجا اور دُعا سُن کر اس مظلوم جانور کو انسان ’’رنگیلا‘‘ کی شکل میں بنا دیتا ہے۔ زرا سوچیئے کہ وہ کونسا دوسرا جانور ہے جو گدھے سے زیادہ صابر و شاکر ہے؟ ایک گدھا مالا برداری کے کام آتا ہے اور دوسرا اسے جو بھی روکھا سوکھا ڈالا جاتا یے وہ چپ کر کے اور سر کو نیچے جھکا کر کھا لیتا ہے۔ خدا کا قہر کہ گدھے کے مشقت طلب کام پر ہی اکتفا نہیں کیا گیا، بلکہ اب اس سے لذّتِ کام و دہن فراہم کرنے کا کام بھی لیا جا رہا ہے۔ یہ گدھے کا ناجائز اور غیر اسلامی استعمال ہے جو خود انسان کو گدھا ثابت کرنے کے لیئے کافی دکھائی دیتا یے۔
گدھے کو پنجابی میں "کھوتا” کہا جاتا ہے اور انگریزی زبان میں اسے "ڈونکی” کا خطاب دیا جاتا ہے۔ گدھے کو آپ کھوتا کہیں یا ڈونکی کے نام سے پکاریں وہ رہتا "گدھے کا گدھا” ہی ہے۔ جیسا کہ ہمیں کسی بے وقوف آدمی پر غصہ آ جائے تو ہم نا چاہتے ہوئے بھی اس پر، "گدھا کہیں کا”، فقرہ کستے ہیں۔ بقولے شخصے اس میں بظاہر فرق یہی معلوم ہوتا ہے کہ ’’کھوتہ‘‘ اور ’’گدھا‘‘ پاکستان میں پایا جاتا ہے، جبکہ "ڈونکی” انگریزی بولنے والے ممالک میں ملتا ہے۔
گورے کچھ زیادہ پڑھے لکھے ہوتے ہیں مگر ساتھ میں وہ "منہ پھٹ” بھی ہوتے ہیں۔ وہ روزہ مرہ کی زبان میں جو پیار میں "ف ک ن گ” والا تکیہ کلام استعمال کرتے ہیں، وہ ہمارے ہاں بدترین گالی تصور کی جائے گی۔ اگر ہم گدھے کھا کر یا گدھے بن کر کسی سے اسی انداز میں سرعام مخاطب ہو جائیں، تو ممکن ہے کہ بدلے میں وہ ہمارا سر ہی کھول دے گا۔ لیکن ایک عرصے سے جو کچھ ترنول میں گدھوں کے ساتھ ہوتا رہا ایسا خدا کسی دشمن کے ساتھ بھی نہ کرے کہ حلال جانوروں کو تو زبح کیا جاتا ہے مگر ترنول میں زندہ قتل کیئے جانے والے گدھوں کو تو یہ "تکبیر” بھی نصیب نہیں ہوتی رہی۔
گدھے کا سواری اور باربرداری کی ازلی ذمہ داریوں سے ترقّی کر کے ہمارے دستر خوانوں تک رسائی حاصل کرنا ہماری مسلمانیت پر کاری ضرب ہے جو خود ہم انسان نما مسلمانوں کو "گدھا” ثابت کرنے پر دلالت کرتی یے۔ ہم پاکستانی مسلمان اتنے گھٹیا اور اسلام سوز کام کریں گے اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ہے۔ گدھا خوری اور حرام خوری میں کیا فرق رہ گیا ہے؟ گدھا گوشت فروشی باقاعدہ ایک کاروبار تھا جو پاکستان کے دارالحکومت میں ہوتا رہا اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی یا اس پر ارباب اختیار خاموش رہے! بہتر ہے ہم خود کو اسی جانور کے نام سے لکھنا اور پکارنا شروع کر دیں، کم از کم ہم پر منافقت کا الزام نہیں لگے گا۔
اک زمانہ تھا کہ گدھے صرف کمہاروں کے ہاں پائے جاتے تھے اب تو خیر! یہ کسی بھی جگہ مل سکتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا میں گدھوں کی تعداد 4 سے 5 کروڑ تک ہے۔ سب سے زیادہ ان کی تعداد چین میں ہے اور اس لحاظ سے پاکستان دوسرے نمبر پر ہے۔ دنیا بھر میں گدھوں کی اتنی کم تعداد ہونے کی وجہ سے اس کا گوشت "نایاب” ہے اور یہ مہنگی ڈش ہے۔ ظاہر ہے کہ امراء مہنگیں ڈشز ہی کھاتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ گدھے کا گوشت تیتر بٹیر سے بھی زیادہ لذیذ ہوتا یے۔ اس وجہ سے ممکن ہے کہ ترنول کے گدھوں کا گوشت چاہے وہ وزیراعظم ہاوس ہو، ایوان صدر ہو، اسلام آباد سیکریٹری ایٹ ہو یا قومی اسمبلی ہو اور سپریم کورٹ ہو، وہاں بیٹھے سب عہدے داروں کو ہوٹلوں اور گھروں میں بھی سپلائی کیا جاتا ہو گا اور انہوں نے بھی گدھے کا گوشت کبھی نہ کبھی ضرور کھایا ہو گا کیونکہ یہ کاروبار وسیع پیمانے پر پھیلا ہوا تھا اور اسے ہر جگہ سپلائی کیا جا رہا تھا۔
ازل سے گدھوں کے بارے کہانیاں لکھی جا رہی ہیں جن میں انسانوں کو گدھا کہا جاتا ہے۔ کبھی کسی نے سنا کہ کسی گدھے نے بھی انسان کو "گدھا” کہہ کر پکارا ہو۔ یہ بھی گدھوں کی شرافت ہے کہ وہ انسانوں کو گدھا کہہ کر اپنی توہین نہیں کرتے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ انسان کتنے پانی میں ہے کہ وہ حرام جانور کو بھی حلال کہہ کر انسانوں کو کھلا سکتا ہے۔ یہ سب ہم مسلمان کر رہے ہیں۔ انسان تو انسان ہیں یہ گدھوں کی توہین نہیں تو اور کیا ہے؟ اگر گدھوں کو انسان بننا نصیب ہو جائے تو اول وہ یہ آفر قبول نہیں کریں گے اور کر بھی لی تو وہ ہم گدھوں کا گوشت کھانے اور کھلانے والوں سے یہ بدلہ چن چن کر لیں گے۔ اس سے پہلے کہ گدھے انسان بن کر ان حرام خور گوشت فروشوں کو سخت سے سخت سزا دیں، حکومت کو چایئے کہ وہ ان کو کیفر کردار تک پہنچائیں۔ یہ گدھا گوشت فروشی پہلے لاہور میں ہوتی رہی تب شہباز شریف صاحب لاہور کے تخت پر براجمان تھے۔ یہ گدھا فروش "میاں صاحب: کا پیچھا کرتے ہوئے اسلام آباد تک پہنچ گئے ہیں۔وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف صاحب آپ بھی ان کا پیچھا نہ چھوڑیں اور ان کو سخت سے سخت سزا دیں ورنہ یہ کاروبار رکے گا نہیں، گدھوں کا یہ گوشت ایوانوں دوبارہ سپلائی ہونا شروع ہو جائے گا۔
اس سے پہلے کہ گدھوں کا گوشت کھا کر ممبران بھی ایوانوں میں "ڈھینچوں ڈھینچوں” کریں، اس کاروبار کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جانا بہت ضروری ہے۔ عقل کے اتنے کام تو ہم پہلے بھی نہیں کر رہے ہیں مگر حرام کا گوشت کھا کر ہمیں یہ کام کم از کم نہیں کرنے چایئے۔ یہ بات، "ایک کریلا دوسرا نیم چڑھا والی ہو گی۔” یہ نہ ہو کہ کل عوام محاورتا انہیں "ترنول کے گدھے” کہنا شروع کر دیں!
Title Image by Jonathan Velasco from Pixabay

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |