حسین اتفاق اور، “گلی نمبر181”

حسین اتفاق اور، “گلی نمبر181”

Dubai Naama 

حسین اتفاق اور، “گلی نمبر181”

انسانی دماغ بیالوجیکل عقل رکھتا ہے اگر کوئی ٹاسک دے کر اس کو لاشعوری اور خودکار طریقے سے کام کرنے دیا جائے تو یہ بہت بہترین کارکردگی دیتا ہے۔ میں نے گھر واپس جانے کا فیصلہ تو کر لیا مگر میرا دماغ اب بھی ڈاکٹر صاحب کا گھر ڈھونڈنے کی کوشش کر رہا تھا۔ میں نے دیکھا کہ سامنے سے ایک موٹر بائیک آ رہی ہے، واپس جانے کا عہد کرنے کے باوجود میں نے غیر ارادی طور پر اچانک اسے رکنے کا اشارہ کر دیا۔ یہ “طالبات” کمپنی کا وہی “ڈلیوری بوائے” تھا جس سے میں نے گھنٹہ بھر پہلے “گلی نمبر 181” کا پتہ پوچھا تھا۔ نوجوان لڑکے عموما نرم دل اور تعاون کرنے والے ہوتے ہیں۔ علیک سلیک کے بعد اس نے کہا، “سر کیا آپ میرے پیچھے بیٹھ سکتے ہیں؟” میں فورا پلاکی مار کر بائیک پر بیٹھ تو گیا مگر خوف سے میرا دل دھک دھک کرنے لگا۔ دبئی میں بغیر ہیلمٹ پہنے موٹر سائیکل پر سفر کرنے اور کروانے والے کو بھاری جرمانہ کیا جاتا ہے۔ میں سوچ رہا تھا کہ یہ سفر کہیں ہم دونوں پر بھاری ہی نہ پڑ جائے۔ لیکن خدا کا شکر ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ اس لڑکے نے مجھ پر بڑی نیکی کی اور جانے سے پہلے صرف اتنا کہا کہ، “سر کیا آپکو معلوم ہے؟”۔ جب میں نے کہا “نہیں” تو وہ لڑکا گویا ہوا کہ، “سر آپکو بغیر ہیلمٹ لفٹ دینے کی وجہ سے مجھے 10ہزار درہم تک فائن ہو سکتا تھا”، جو پاکستانی کرنسی میں کم و بیش مبلغ 8لاکھ روپے بنتے ہیں!

انگریزی زبان میں “حسن اتفاق” کو Coincidence یا Rendezvous کہتے ہیں جسے عموما خوش قسمتی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ ڈاکٹر زبیر فاروق تک یوں پہنچنا مجھے ایک حسین اتفاق لگ رہا تھا۔ تھوڑی ہی دیر بعد میں اردو زبان میں شاعری کرنے والی ایک ایسی عرب ہستی کے سامنے بیٹھا تھا جو 19اگست، 1952 کو متحدہ عرب امارات کے شہر دبئی میں پیدا ہوئے، جس کے والدین خالصتا یمنی العرشی عربی النسل تھے، بولنا عربی زبان میں سیکھا، پہلا شعر بھی 11سال کی عمر میں عربی زبان میں کہا مگر جب طبی تعلیم ڈو میڈیکل کالج کراچی (پاکستان) سے حاصل کرنے گئے تو اردو شعر و ادب میں ایسی دلچسپی لینے لگے کہ جو وقت کے ساتھ ساتھ ان کی ذات کا حصہ بنتی چلی گئی۔ ہماری گفتگو کا آغاز ایک دوسرے سے تعارف کے ساتھ ہوا۔ ملاقات سے پہلے مجھے معلوم تھا کہ انہوں نے اردو شاعری کی 100 سے زیادہ کتابیں لکھی ہیں۔ انہوں بتایا کہ آج تک ان کی اردو کتابوں کی کل تعداد 100 نہیں بلکہ 103 ہے۔ انہوں نے 31000 اردو غزلیں لکھی ہیں اور ان کے مطبوعہ اشعار کی تعداد 200000 سے بھی زیادہ ہے۔ انکی اردو شاعری کی 3 مزید کتابیں تکمیل کے مرحلے میں ہیں۔

ملاقات کے دوران ڈاکٹر زبیر فاروق صاحب کے خاندان اور انکی ذاتی زندگی کے بارے میں بھی باتیں ہوئیں۔ ڈاکٹر زبیر فاروق کے دادا جناب فاروق العرشی 1900ء کے اوائل میں دبئی کے متمول افراد میں شامل تھے۔ دبئی میں اینٹوں سے بننے والا پہلا گھر ان کا تھا، ان کے گھر میں سب سے پہلے بجلی آئی، ریفریجریٹر اور الیکیٹرونکس کی اشیاء سب سے پہلے انہوں نے خریدیں۔ وہ دبئی میں کار خریدنے والے اولین لوگوں میں شامل تھے۔ ان کے گھر کا ایک حصہ دبئی کے میوزیم میں قومی ورثے کے طور پر محفوظ ہے۔ انہوں نے راس الخیر کے شیخ صاحب السمو محمد القاسمی کی صاحبزادی شیخہ مہرہ القاسمی سے 1928ء میں شادی کی۔ ایک شادی انہوں نے تیونس کے آرمی کرنل کی بیٹی سے کی۔ ان کی بیٹی شیخہ فائقہ (ڈاکٹر زبیر فاروق کی چچی) نے 1980 میں لندن میں تیونس کے سفیر کے طور پر کام کیا۔ ان کا ایک بیٹا عبدالکریم جو ڈاکٹر زبیر فاروق کے چچا اور سسر ہیں، وہ دبئی کے حاکم صاحب السمو شیخ راشد بن سعید المکتوم کے رضائی بھائی بھی تھے۔ ڈاکٹر زبیر فاروق کے والد گرامی عقیل فاروق ہیروں کے معروف تاجر تھے جنہوں نے رئیل اسٹیٹ کے کام میں بہت نام کمایا۔ خود ڈاکٹر زبیر فاروق پیشے کے اعتبار سے اہم بی بی ایس (MBBS) ڈاکٹر ہیں جنہوں نے یورپی ممالک سے کئی خصوصی طبی ڈپلومے حا۔ صل کئے اور جو دبئی کے البراحا ہسپتال اور زلیخا ہسپتال میں ڈوماٹولوجسٹ اور ونرالوجسٹ کے طور پر کام کرتے رہے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کی عمر 71 سال ہے، انہوں نے 6شادیاں کی ہیں جن سے ان کے 18بچے ہیں، اور ان کی دو بیویاں لاہور سے ہیں۔ ان کی ایک پاکستانی بیوی نوشیبہ شاہین (فرضی نام ہے) کو بھی شعر و ادب سے دلچسپی ہے اور وہ مشاعروں میں بھی اکثر ان کے ساتھ جاتی ہیں (جاری ہے)

سینئیر کالم نگار | [email protected] | تحریریں

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت" میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف" میں سب ایڈیٹر تھا۔

روزنامہ "جنگ"، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

روشن چہرے! انٹرویوز پر مشتمل ایک دلنشیں کتاب

جمعرات ستمبر 7 , 2023
محترم مقبول ذکی مقبول پاکستان کے ایک خوبصورت ضلع بھکر کی تحصیل منکیرہ کے ایک معتبر شاعر و ادیب ہیں
روشن چہرے! انٹرویوز پر مشتمل ایک دلنشیں کتاب

مزید دلچسپ تحریریں