پاک افغان جنگ بندی معاہدہ
قطر نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان جنگ بندی اور خطے میں قیام امن کے لیئے ایک بار پھر اہم کردار ادا کیا۔ قطر اور ترکیہ کے زیر نگرانی ہونے والے سیزفائر مذاکرات کی کامیابی خطے میں قیام امن کے لیئے انتہائی خوش آئند پیش رفت ہے۔ مذاکرات میں اس موضوع کو زیربحث لایا گیا کہ اپنی اسٹریٹجک ضروریات اور مشترکہ چیلنجز سے کیسے نمٹا جائے۔ اس دوران اس بات پر مشترکہ طور پر اتفاق کیا گیا کہ دونوں ممالک کے تعلقات میں کشیدگی کی بجائے تعاون کی فضا کو فروغ دیا جائے گا۔
اس معاہدے کے خطے پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ افغانستان کی سرزمین سے دہشت گردی کی روک تھام سے نہ صرف پاکستان کا امن مستحکم ہو گا بلکہ پورے خطے میں دہشت گردی کے خلاف جاری عالمی جنگ میں بھی ایک نئی طاقت پیدا ہو گی۔ اس معاہدے سے عالمی سطح پر یہ پیغام جائے گا کہ پاکستان اور افغانستان اپنے اختلافات کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کے لئے سنجیدہ ہیں۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان جنگ بندی اور قیام امن کا یہ معاہدہ دونوں ممالک کے درمیان دوستی کا ایک نیا آغاز ثابت ہو سکتا ہے۔ اس معاہدے کے ذریعے دونوں ممالک نے اپنے تعلقات میں کشیدگی کو کم کرنے اور باہمی احترام کی بنیاد پر ایک نئے باب کا آغاز کیا ہے۔ اس سے نہ صرف دونوں ممالک کی سیاسی اور سفارتی سطح پر بہتری آئے گی بلکہ پورے خطے میں امن و سکون کا قیام بھی ممکن ہو سکے گا۔ اگر دونوں ممالک اس معاہدے پر سنجیدگی سے عملدرآمد کرتے ہیں تو یہ نہ صرف پاکستان اور افغانستان بلکہ پورے جنوبی ایشیا کے لئے ایک اہم اور مثبت پیش رفت ثابت ہو سکتی ہے۔پاکستان اور افغانستان کے درمیان یہ معاہدہ ایک کامیاب سفارتی پیش رفت ہے جس کا نہ صرف دونوں ممالک بلکہ پورے خطے پر مثبت اثر پڑے گا۔ اس معاہدے کے ذریعے دونوں ممالک نے اپنی خارجہ پالیسی میں سنجیدگی اور تعاون کی بنیاد رکھی ہے، جس سے عالمی سطح پر امن کی کوششوں میں مدد ملے گی۔
اس حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ پاکستان اور افغانستان دو برادر اسلامی ممالک ہیں، اور دونوں کا مقصد خطے میں امن، استحکام، اور باہمی احترام پر مبنی تعلقات قائم کرنا ہیں، دونوں فریقین اسلامی جمہوریہ پاکستان اور اماراتِ اسلامی افغانستان نے درج ذیل امور پر باہمی اتفاق رائے قائم کرنے کا اعلان کیا، جس کی درج ذیل دفعات ہیں:
1. دونوں ممالک اس بات پر متفق ہیں کہ سرحدی علاقوں (چمن، طورخم اور غلام خان) پر ہر قسم کی فائرنگ یا اشتعال انگیزی فوری طور پر بند کی جائے گی۔
ایک مشترکہ سرحدی رابطہ مرکز قائم کیا جائے گا، جو دونوں ممالک کے فوجی افسران کے درمیان براہِ راست رابطہ رکھے گا۔ 2
۔ افغانستان اس بات کی یقین دہانی کراتا ہے کہ اس کی سرزمین کسی بھی ایسے گروہ کو استعمال نہیں کرنے دے گا جو پاکستان کے خلاف کارروائیاں کرے۔ 3
۔پاکستان اس یقین دہانی کے بدلے میں افغان مہاجرین کے ساتھ انسانی اور اسلامی اصولوں کے مطابق تعاون جاری رکھے گا۔ 4
۔ دونوں ممالک تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور دیگر غیر ریاستی گروہوں کے خلاف معلومات کے تبادلے اور ممکنہ کارروائی پر اتفاق کرتے ہیں۔ 5
۔ چمن اور طورخم سرحدوں پر تجارت کے لئے علیحدہ "امن کاریڈور” قائم کیا جائے گا۔ 6
۔ عام شہریوں، تاجروں اور مریضوں کے لئے خصوصی پاس نظام بنایا جائے گا تاکہ آمد و رفت محفوظ رہے۔ 7
۔ دونوں ممالک کے سرکاری ترجمان اور میڈیا ادارے ایک دوسرے کے خلاف اشتعال انگیز بیانات دینے سے گریز کریں گے۔ 8
۔ باہمی احترام اور اسلامی اخوت کے اصولوں پر مبنی بیانات کو ترجیح دی جائے گی۔ 9
۔ ریاستِ قطر اس معاہدے کی میزبانی اور نگرانی کرے گی۔ 10
۔ چین اور ایران بطور ضامن ممالک اس معاہدے کی حمایت کرتے ہیں۔ 11
۔ ہر تین ماہ بعد ایک جائزہ اجلاس قطر میں منعقد ہو گا۔ 12
۔ یہ معاہدہ دستخط کے دن سے نافذ العمل ہو گا اور ابتدائی طور پر 2 سال کے لئے قابلِ عمل رہے گا۔
اگر دونوں ممالک راضی ہوں تو یہ معاہدہ از خود مزید 2 سال کے لئے بڑھ جائے گا۔
یہ معاہدہ ایک قابل عمل اور پائیدار شقوں پر مبنی دستاویز ہے۔ حکومت قطر نے امید ظاہر کی ہے کہ یہ اہم قدم دونوں برادر اسلامی ملکوں کے درمیان سرحدی تناؤ کے خاتمے اور خطے میں پائیدار امن کی مضبوط بنیاد رکھنے میں مددگار ثابت ہو گا۔ ترکی حکومت نے بیان جاری کیا کہ دونوں برادر مسلم ممالک خطے میں دیرپا امن و استحکام کے حصول کے لئے اپنی حمایت جاری رکھیں گے۔ مختلف ممالک اور سیاسی رہنماؤں نے دوحہ میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان طے پانے والے معاہدے کا خیرمقدم کیا اور خطے میں استحکام اور امن کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان بارڈر پر بڑھتی کشیدگی کے دوران وزیر دفاع خواجہ آصف کی قیادت میں اعلیٰ سطحی پاکستانی وفد ہفتے کے روز طالبان حکام سے مذاکرات کے لئے دوحہ پہنچا تھا، مذاکرات کا مقصد سرحد پار جھڑپوں کا خاتمہ اور پاکستان کے سکیورٹی خدشات کو دور کرنا تھا۔ دونوں فریقین نے مذاکرات کے بعد فوری جنگ بندی پر اتفاق کیا اور ایک دوسرے کی خودمختاری کے احترام کا عہد کیا۔
واضح رہے کہ وفود دوسرے مرحلے کے مذاکرات کے لئے 25 اکتوبر 2025ء کو استنبول میں دوبارہ ملاقات کریں گے۔
پاک افغان مذاکرات کی ترکیہ کے ساتھ مشترکہ طور پر میزبانی کرنے والے ملک قطر نے امید ظاہر کی کہ یہ اہم قدم دونوں برادر ممالک کے درمیان سرحدی تناؤ کے خاتمے اور خطے میں پائیدار امن کی مضبوط بنیاد رکھنے میں مددگار ثابت ہو گا۔
پاک افغان سیزفائر معاہدہ خطے میں پائیدار امن اور دو طرفہ احترام کی مد میں ایک انتہائی اہم پیش رفت ہے۔ یہ معاہدہ نہ صرف پاکستان اور افغانستان کے لیئے خوش آئند اور مثبت پیش رفت ہے بلکہ دنیا بھر میں امن کے قیام کے لیئے اس کے مثبت اور تعمیری اثرات پڑیں گے کیونکہ وہ افغانستان جس پر ماضی کی دہشت گرد تنظیموں "القائدہ” اور "طالبان” کو پناہ دینے کے الزامات لگتے رہے ہیں اب وہی ملک پاکستان کے ساتھ مل کر دہشت گردی کے خاتمے کے لیئے کام کرے گا۔ یہ معاہدہ خطے میں پائیدار امن اور دو طرفہ احترام کی جانب ایک انتہائی مثبت قدم ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان جنگ بندی کا یہ معاہدہ پرامن تعلقات کے لیئے دونوں ممالک کے مفاد میں ہے۔ پاکستان ہمیشہ امن، بھائی چارے اور ہمسائیگی کے اصولوں کو مقدم رکھتا ہے، پاکستان کی عوام اور افواج نے قربانیاں دے کر امن کو ممکن بنایا ہے۔ اب اگر افغانستان اس جنگ بندی پر خلوص دل سے پہرا دیتا ہے تو افغانستان کو اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہونے سے روکنا ہو گا۔ حالیہ دنوں میں پاکستانی علاقوں پر دہشت گرد حملے اور سرحد پار سے کی جانے والی کارروائیاں نہ صرف بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہیں بلکہ اسلامی ہمسائیگی اور برادرانہ تعلقات کے تقاضوں کے بھی منافی ہیں۔ پاکستان ایک پرامن ملک ہے اور ہمیشہ افغانستان کے ساتھ برادرانہ تعلقات کا خواہاں رہا ہے مگر دونوں ممالک کے درمیان مسلسل سرحدی خلاف ورزیوں اور افغانستان کا دہشت گرد عناصر کو پناہ دینے جیسے اقدامات خطے کے امن کو سبوتاژ کر رہے ہیں۔ افغان حکومت کو چاہئے کہ وہ اپنی سرزمین کسی بھی دہشت گرد تنظیم کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے سے روکے اور موثر کارروائی کرے۔پاکستان اپنی خودمختاری کے تحفظ کیلئے ہر ممکن قدم اٹھانے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔
سابق سپیکر قومی اسمبلی اور پی ٹی آئی کے رہنما اسد قیصر نے پاک افغان امن معاہدے کا خیر مقدم کیا۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان تمام تحفظات کو باہمی اعتماد اور تعاون سے حل کیا جانا چایئے۔ انہوں نے پاک افغان امن معاہدے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان ہمارا برادر اسلامی اور قریبی ہمسایہ ملک ہے، جس کے ساتھ ہمارے تعلقات مذہبی، ثقافتی اور تاریخی رشتوں میں بندھے ہیں۔ انہوں نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان تمام تحفظات کو باہمی اعتماد اور تعاون سے حل کیا جانا چایئے۔ اسد قیصر نے مزید کہا کہ دہشت گردی کے خاتمے اور تجارت کے فروغ کے لئے مذاکرات ناگزیر ہیں۔ افغانستان وسطی ایشیائی منڈیوں تک رسائی کا واحد زمینی راستہ ہے، جس کے ذریعے پاک افغان تجارت سے ترقی و خوشحالی کے نئے دروازے کھل سکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بہتر تعلقات پورے خطے میں پائیدار امن اور معاشی استحکام لا سکتے ہیں۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ امن معاہدے کے بعد اعتماد کی فضا مزید مضبوط ہو گی، سرحدیں تجارت کے لئے کھولی جائیں گی اور مثبت پیش رفت کا سلسلہ جاری رہے گا۔
پاکستان اور افغانستان نے سرحد پر ایک ہفتے تک جاری شدید اور خونریز جھڑپوں کے بعد قطر اور ترکیہ کی ثالثی میں ہونے والے مذاکرات کے نتیجے میں فوری جنگ بندی پر اتفاق کیا۔ قطری نشریاتی ادارے "الجزیرہ” کی ایک رپورٹ کے مطابق قطر کی وزارتِ خارجہ نے اتوار کی صبح ایک بیان میں کہا کہ افغانستان اور پاکستان نے جنگ بندی اور دونوں ممالک کے درمیان پائیدار امن و استحکام کو مستحکم کرنے کے لئے طریقۂ کار کے قیام پر اتفاق کیا ہے جس کے نتیجے میں جنگ بندی پر عمل درآمد شروع ہو گیا ہے۔

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |