عرب ممالک کی دفاعی ترجیحات
ممکن ہے کہ اپنے ملکی دفاع کے حوالے سے قطر پر 10 اکتوبر کا اسرائیلی حملہ خلیجی برادر مسلم ممالک کی آنکھیں کھول دے۔ ملکی دفاع کا معاملہ خالصتا خودانحصاری کا تقاضا کرتا ہے۔ اگر دفاع کے انتظامات اور انہیں آپریٹ کرنے کا اختیار اور کنٹرول آپ کے یا آپ کے سچے خیرخواہوں کے ہاتھ میں نہ ہو تو یہ دفاعی نظام خواہ جتنا بھی مہنگا اور جدید ترین ہو وہ آپ کی ملکی سلامتی اور خودمختاری کی ضمانت فراہم نہیں کر سکتا ہے۔
قطری حکومت نے اپنے فضائی دفاع کے لیے 19 ارب ڈالرز کی لاگت سے دنیا کے جدید ترین چار سسٹم خریدے، جس میں امریکی پیٹریاٹ پیک3، ناروے کا ناسامز 2, برطانیہ کا ریپائر اور فرانس و جرمنی کے رولینڈ میزائلز شامل تھے۔ یہ سارا دفاعی نظام قطر نے برادر دوست ملک پاکستان، چین یا روس سے خریدنے کی بجائے مغربی ممالک سے خریدنے کو ترجیح دی۔ جب اسرائیل نے حملہ کیا تو دنیا کے اس قیمتی ترین دفاعی نظام کے یہ سارے خطرناک میزائل قطر کے دارالحکومت دوحہ کے "العدید ائیربیس” پر موجود تھے، مگر یہ سارے کا سارا دفاعی نظام اسرائیلی حملے کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوا۔ اسرائیلی حملے کو انٹرسییپٹ نہ کرنے کی وجہ یہ نہیں تھی کہ اسرائیلی حملہ آور جہاز اس نظام سے زیادہ جدید اور طاقتور تھے، بلکہ اس کی وجہ یہ تلخ حقیقت ہے کہ اس کا سارا کنٹرول محب وطن قطریوں کی بجائے اسرائیل نواز امریکی فوجیوں کے پاس تھا جنہوں نے اس نظام کو متحرک کرنے کی بجائے غیرفعال کر دیا۔
اسرائیل کے چینل14 نے رپورٹ کیا کہ دوحہ قطر میں حماس کی قیادت پر حملے کے لیے منگل کو 10اسرائیلی طیاروں نے اُڑان بھری۔ ان کا ہدف 18سو کلومیٹر دور تھا۔ ایک برطانوی ہوائی آئل ٹینکر نے دوحہ سے ہی ٹیک آف کیا اور اسرائیلی لڑاکا طیاروں کو دورانِ پرواز ایندھن فراہم کر کے واپس قطر اتر گیا۔ ستم ظریفی دیکھئے اور قطر کی بے بسی ملاحظہ کریں کہ قطر پر حملے کے لیے برطانوی آئل ٹینکر قطر سے اڑا اور واپس قطر میں ہی لینڈ کر گیا۔ جبکہ اسرائیل کے دس F-35 لڑاکا طیارے جس فضائی حدود سے پرواز کرتے ہوئے قطر میں دوحہ پر حملہ آور ہوئے تھے حملے کے بعد وہ اسی فضائی راستے سے ہوتے ہوئے اسرائیل میں اتر گئے، اور واپسی کے سفر میں امریکی آئل ٹینکر طیاروں نے اسرائیلی لڑاکا طیاروں کو فضا میں ایندھن فراہم کیا۔
اسرائیلی حملے میں امریکہ اور برطانیہ سے قطر کی دیرینہ دوستی کی ایفائے عہد و وفا کی یہ تازہ ترین مثال ہے۔ لیکن اسے قطر کی سادہ دلی سمجھیں یا کوئی دوسری مجبوری قرار دیں، قطری حکام نے پلٹ کر اسرائیل پر حملہ کرنے کی بجائے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کی ہے اور اقوام متحدہ کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔ قطر کی اس حکمت عملی کا جو بھی نتیجہ نکلے گا اس کا دارومدار مشرق وسطی میں قیام امن سے بلکل نہیں ہو گا۔ بلکہ اس واقعہ سے یہ حقیقت روز روشن کی طرح واضح ہو گئی ہے کہ قطر کی طرح دیگر خلیجی ممالک کا وہ دفاعی نظام بھی اسرائیل کے خلاف بے کار ثابت ہو گا جس کا دارومدار امریکی ہتھیاروں پر ہو گا۔
قطر کے علاوہ تقریبا تمام بڑے عرب ممالک کے دفاع کا نظام امریکی اسلحہ سے لیس ہے۔ لیکن ان مبینہ ممالک کے ایئر ڈیفیس کی تلخ حقیقت بھی یہ ہے کہ اس کو آپریٹ کرنے کا اختیار اور کنٹرول خود عرب ممالک کے پاس نہیں ہے۔ جیسا کہ قطر کا دنیا کا جدید ترین دفاعی نظام اسرائیلی حملہ آور جہازوں کے سامنے ڈھیر ہوا ہے، اب دیگر عرب ممالک کو بھی خطرہ لاحق ہے کہ اگر کل کلاں اسرائیل (ایران یا یمن) ان پر حملہ کرتا ہے تو ان کا دفاعی نظام بھی اسی طرح کا "مخالفانہ ردعمل” دے گا۔
دوحہ پر اسرائیلی حملے نے خلیجی ممالک کے امریکہ پر اعتماد کو متزلزل کیا ہے۔ اگر سعودی عرب نے امریکہ سے دفاعی معاہدے کی کوششیں روک دیں، تو دیگر ممالک مثلا متحدہ عرب امارات، اومان، کویت اور بحرین وغیرہ بھی اس کی پیروی کریں گے۔
مزید افسوسناک امر یہ ہے کہ دوحہ پر حالیہ حملہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اشیر باد سے ہوا۔ حملے کے فورا بعد اسرائیلی وزیراعظم نے حماس کی قیادت کو نشانہ بنانے کے لیئے دوبارہ حملے کی دھمکی دی جس کی تائید میں امریکی صدر نے بھی حماس کو ختم کرنے کی بات کی۔ یہ وہی ٹرمپ ہیں جنہوں نے چند ماہ قبل ہی قطری حکمرانوں سے ایک قیمتی جہاز کے تحفے سمیت 1.2 ٹریلین ڈالر قطر کے دفاع کی مد میں وصول کیے تھے اور بظاہر دوستی کے وعدے کیے تھے۔ لیکن جب عملی وقت آیا تو نہ اربوں ڈالر کا دیا گیا اسلحہ قطر کے کام آیا، اور نہ ہی اربوں کا سرمایہ امریکی حمایت خرید سکا۔
تاریخی حقائق کی بنیاد پر تجزیہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اگر قطر جیسی دولت مند ریاست، جو امریکہ کو مہنگے ترین تحائف اور کھربوں ڈالر کی سرمایہ کاری دے چکی ہے، پھر بھی اس کا اعتماد حاصل نہیں کر سکی تو اس کی وجہ محض مفاد نہیں، بلکہ اس کی اصل حقیقت یہ ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کے تعلقات کسی وقتی مصلحت یا لین دین پر قائم نہیں، بلکہ ایک گہرے "عقیدے” اور "نظریئے” کے رشتے پر استوار ہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ہم مسلمان ابھی تک یہ بنیادی حقیقت سمجھنے میں ناکام ہیں۔ حالانکہ اس کا ذکر قرآن پاک میں بھی موجود ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ یہودی و نصاری تمھارے دوست نہیں ہو سکتے ہیں۔ پاکستان اس لحاظ سے عرب ممالک کے زیادہ قریب ہے اور ان کی حفاظت کی ذمہ داری بھی بحسن خوبی نبھا سکتا ہے۔ ممکن ہے اس دفعہ قطر پر اسرائیلی حملہ ان کی آنکھیں کھول دے۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ دوحہ میں ایک کمپلیکس پر حملہ ’درست‘ تھا۔ اس رہائشی سکیم میں حماس کی مذاکراتی ٹیم موجود تھی۔ اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کے مطابق حماس کی قیادت پر حملہ دو روز قبل یروشلم میں 6 افراد کے قتل اور 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر حملے کے جواب میں کیا گیا تھا۔ قطر میں حماس کی قیادت پر اسرائیلی حملے نے خطے میں کشیدگی کو خطرناک حد تک بڑھا دیا ہے اور تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ اس نے نہ صرف غزہ میں جنگ بندی کی کوششوں کو تباہ کیا ہے بلکہ اس سے مشرقِ وسطیٰ میں امریکہ کے کسی نئے اتحاد کے امکانات بھی مانند پڑ گئے ہیں۔
قطر کے العدید ائیربیس کا مکمل کنٹرول امریکی فوجیوں کے پاس ہے۔ سوال یہ ہے کہ قطر نے یہ فوجی اڈا ایران کے خطرے کے باعث امریکہ کے حوالے کیا تھا ناکہ اس کا مقصد اسے اسرائیل کے خلاف بے اثر کرنا تھا۔ قطر سمیت دوسری بہت سی خلیجی قوتیں اب تک امریکہ کے ساتھ کھڑی تھیں اور امریکہ پہلے بھی سیہونی اسرائیل کے ساتھ کھڑا تھا اور اس وقت تک کھڑا رہے گا جب تک عرب ممالک اپنی دفاعی ترجیحات بدلنے کے لیئے سنجیدہ نہیں ہوتے ہیں۔

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |