قطر پر اسرائیلی حملہ اور پاک فوج کی دفاعی صلاحیت
اقوام متحدہ میں متعین اسرائیلی سفیر ڈینی ڈینن نے حماس کے رہنماؤں کو دوبارہ نشانہ بنانے کا عندیہ دیا ہے کیونکہ اس حملے میں اسرائیل حماس کے سرکردہ رہنماؤں کو نشانہ بنانے میں ناکام رہا جس میں حماس کے مذاکراتی وفد کے سربراہ خلیل الحیّہ سرفہرست ہیں۔ اسرائیل نے دوحہ میں ایک ایسے حساس وقت پر حملہ کیا جب قطر غزہ میں جنگ بندی کے لئے ایک اہم ثالث کا کردار ادا کر رہا تھا اور امریکہ کی جنگ بندی تجاویز پر مذاکرات کے لئے حماس کا وفد دوحہ آیا ہوا تھا۔
قطر کے دارالحکومت دوحہ پر اسرائیل کے اس حملے میں حماس کے 6 افراد ہلاک ہوئے۔ اگرچہ قطر نے اسرائیلی حملے کو ریاستی دہشت گردی اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے واضح کیا کہ قطر جوابی کارروائی کا پورا حق رکھتا ہے لیکن قطر کے اسرائیل پر حملے کا امکان بہت کم ہے جس کا اس بات سے اندازہ ہوتا ہے کہ قطر @کے وزیراعظم نے اسرائیلی حملے کے بعد یہ اعلان بھی کیا کہ فلسطین میں امن قائم کرنے کے لیئے مذاکرات جاری رکھے جائیں گے۔
سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس سے قبل قطر نے اقوام متحدہ کو خط لکھا جس میں دوحہ پر اسرائیلی حملے کی شدید مذمت کی گئی اور اسے تمام عالمی قوانین اور اقدار کے منافی قرار دیا گیا۔
قطر کے خبر رساں ادارے "یو این اے” کے مطابق یہ خط اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس اور سنگجنکم کے نام بھیجا گیا ہے۔ اس خط میں قطر نے اسرائیلی حملے کو قطری شہریوں اور یہاں رہنے والوں کے لیے "سنگین خطرہ” قرار دیا۔ شاید یہی وہ ردعمل ہے جو قطر اسرائیل کے اپنے دارالحکومت دوحہ پر کیئے گئے اس جارحانہ حملے کے خلاف دے سکتا ہے۔ قطر کے علاوہ
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سمیت دنیا کے زیادہ تر ممالک نے اس حملے کی مذمت کی ہے۔ امریکی صدر نے کہا کہ، "میں اس حملے سے خوش نہیں ہوں۔”
برطانوی وزیر اعظم کیئر سٹارمر نے قطر پر اسرائیل کے حملے کی شدید مذمت کی۔برطانوی وزیر اعظم نے ہاؤس آف کامنز میں خطاب کے دوران کہا کہ "اسرائیل قطر کی خود مختاری کی خلاف ورزی کرتا یے اسرائیل امن کو محفوظ بنانے کے لئے کچھ نہیں کرتا۔ جبکہ برطانیہ اور دیگر اتحادی خطے میں امن قائم کرنے کے پابند ہیں۔” انھوں نے ارکان پارلیمنٹ کو بتایا کہ حملے کے فوراً بعد برطانیہ کی حمایت اور یکجہتی کا اظہار کرنے کے لئے قطری امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی سے بات کی ہے۔ برطانوی وزیراعظم پرعزم تھے کہ حملوں کے باوجود وہ جنگ بندی کے لئے سفارتی حل پر کام جاری رکھیں گے۔” سعودی عرب نے بھی اس حملے کی شدید مذمت کی۔ مصری صدر عبدالفتاح السیسی اور اردن کے شاہ عبداللہ دوم نے قطر کے خلاف اسرائیلی حملوں کو عرب ریاستوں کی خودمختاری، بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی قرار دیا۔
قطر گزشتہ 13 سالوں کے زیادہ عرصے سے فلسطینی جہادی تنظیم حماس اور اسرائیل کے درمیان ایک "ثالث” کے طور پر کام کر رہا ہے۔ سنہ 2007 میں جب حماس نے غزہ پر کنٹرول حاصل کیا اور عالمی برادری کے بیشتر ممالک نے اسے نظرانداز کیا تو قطر نے اس وقت حماس کے لئے مالی اور سیاسی مدد فراہم کرنے کا قدم بڑھایا۔ قطر نے غزہ میں اپنا خصوصی ایلچی سفیر محمد العمادی کو تعینات کر رکھا ہے جنہیں فلسطینی اکثریت اپنا "گورنر” قرار دیتی ہے کیونکہ وہ امداد اور تعمیر نو کے منصوبوں کی براہِ راست نگرانی کرتے ہیں۔ جب اسرائیل نے تہران میں حماس کے سیاسی رہنما اسماعیل ہنیہ کو ہلاک کیا تھا تو حماس کی تنظیم نے خاموشی سے ایران میں اپنے کچھ عہدیداروں کو قطر منتقل کر دیا تھا اور اسے خطے میں اپنے لئے سب سے محفوظ ٹھکانہ سمجھا تھا۔
اسماعیل ہنیہ کے مشیروں میں سے ایک کے مطابق حماس کے تقریباً 1000 ارکان اور ان کے اہل خانہ دوحہ میں مقیم ہیں جو حکومت کی طرف سے فراہم کی جانے والی رہائش گاہوں میں رہتے ہیں۔ وہاں سینئر رہنماؤں کے لئے الگ الگ بنگلے، تحریک کے لئے ایک بڑے ہیڈ کوارٹر کی عمارت اور رہائی پانے والے قیدیوں اور سکیورٹی عملے کے لئے اپارٹمنٹ بلاکس شامل ہیں۔ تاہم منگل کے روز دوحہ میں حماس کے دفاتر پر حالیہ اسرائیلی حملے نے اس تصور میں دراڑ ڈال دی ہے کہ قطر حماس رہنماؤں کے لئے ایک محفوظ ترین پناہ گاہ ہے۔
عالمی مبصرین کے مطابق اس واقعہ کے بعد خطے کے کسی بھی ملک کے لئے حماس کی میزبانی جاری رکھنا مزید مشکل ہو سکتا ہے جس سے سفارتی سطح پر بھی پیچیدگیاں بڑھ سکتی ہیں۔ واضح رہے کہ گزشتہ چند ماہ کے دوران حماس کے رہنما دوحہ، قاہرہ اور استنبول میں نسبتاً آزادی سے سفر کرتے رہے ہیں اور مصر و ترکی کے دارالحکومتوں میں غیر رسمی دفاتر بھی چلاتے رہے ہیں۔ تاہم تازہ اسرائیلی کارروائی کے بعد یہ سوال شدت اختیار کر گیا ہے کہ غزہ کے علاوہ حماس اپنی سرگرمیاں کہاں اور کس شکل میں جاری رکھ سکے گا؟
قطر پر اسرائیلی حملے کے بعد پاک فوج کی بہت تعریف ہو رہی ہے۔ پاکستان کی فوجی صلاحیت اس توصیف اور ستائش کی حق دار بھی ہے کہ پاکستان نے اپنے ازلی دشمن بھارت کو آخری معرکے میں محدود وسائل کے باوجود ناکوں چنے چبوائے ہیں۔ قطر کے مقابلے میں پاکستان محدود مالی وسائل رکھتا ہے۔ اس وقت بھی قطر دنیا کا امیر ترین ملک ہے اور اس کے پاس دنیا کے جدید ترین طیارے بھی موجود تھے مگر وہ اسرائیل کے سامنے اپنا دفاع کرنے میں ناکام رہا۔
پاکستان کے مقابلے میں قطر بہت چھوٹا ملک ہے۔ اس کا کل رقبہ11571 مربع کلومیٹر ہے جبکہ پاکستان 881913 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ایک بڑا ملک ہے۔ اس کے باوجود قطر کا دفاعی بجٹ بہت زیادہ ہے جو کہ 14 ارب ڈالر ہے جبکہ پاکستان کا دفاعی بجٹ صرف 9 ارب ڈالر ہے یعنی پاکستان قطر سے 6 ارب ڈالر کم بجٹ میں 56 قطر جتنے ملکوں کی حفاظت کرتا ہے اور دنیا کی سب سے بڑی آبادی والے ملک انڈیا کا جینا حرام کیئے ہوئے ہے جس کا سارا کریڈٹ پاک فوج کی اعلی جنگی مہارت کو جاتا ہے۔ زرا سوچیں کہ انڈیا کا دفاعی بجٹ 77.4 ارب ڈالرز ہے جو کہ پاکستان کے دفاعی بجٹ سے 8 گنا زیادہ ہے۔ انڈیا آبادی میں پاکستان سے چھ گنا، اسلحے میں دس گنا اور رقبے میں ساڑھے تین گنا بڑا ملک ہے۔ اگر پھر بھی پاکستان نے گزشتہ جنگ میں بھارت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا تو اس کے لیئے پاکستانی قوم کو اپنی فوج کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا شکرگزار رہنا چایئے۔
یہ بھی اطلاعات ہیں کہ گزشتہ چوبیس گھنٹوں میں اسرائیل نے لبنان، شام اور تیونس پر بھی فضاٸی حملے کئے۔ ہو سکتا ہے اسراٸیل نے اپنے کچھ اگلے اہداف بھی فکس کیئے ہوں، جس میں قاہرہ، بغداد اور عمان بھی شامل ہوں۔اسرائیل سب کو باری باری آزما سکتا ہے۔ بےشک پاکستان معاشی طور پر ایک کمزور ملک سہی، لیکن اسرائیل کی جرات نہیں کہ وہ پاکستان کی طرف میلی آنکھ اٹھا کر دیکھ سکے۔ دنیا نے انگلیاں دانتوں میں داب کر یہ منظر دیکھا کہ پاکستان نے محض 4 گھنٹوں میں ہی اپنے سے 6 گنا بڑے دشمن ملک بھارت کو الٹا کر کے لما پا لیا تھا۔ یہاں اللہ تعالی کا شکر ادا کرنا اور پاک فوج زندہ باد کہنا ہر محب وطن پاکستانی پر واجب ہے۔

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |