منقبت کا سرسری جائزہ
منقبت :حضرت علی علیہ السلام
تبصرہ نگار: سید حبدار قائم
فلک ٹھہرے زمین ٹھہری زماں ٹھہرے سماں ٹھہرے
علی کے واسطے لگتا ہے جیسے سب جہاں ٹھہرے
علی کیا ہیں ذرا نہج البلاغہ دیکھ لو پڑھ کر
علی کی استقامت پر بڑے حرف و بیاں ٹھہرے
علی کے ہاتھ میں ہے ہاتھ میزانِ شریعت کا
علی کی ضرب کے آگے بھلا کوئی کہاں ٹھہرے
سبھی القاب ان کے واسطے اترے ہیں قدرت سے
انہی کے راستوں پہ روشنی کے کارواں ٹھہرے
علی کی ذاتِ اقدس منبع ء صبر و قناعت ہے
علی کی زندگی میں کیسے کیسے امتحان ٹھہرے
سخاوت میں امامت میں نہیں ان کا کوئی ثانی
علی کتنے یتیموں کے سروں پر سائباں ٹھہرے
علی کے نام کی مالا گلے میں جس نے ڈالی ہو
اُس اہل دل کے رستے میں کہاں سود و زیاں ٹھہرے
”علی ہی جانتے ہیں راز و رشتے حرف و معنی کے“
نبی گر جسم ہیں مولا علی بھی ان کی جاں ٹھہرے
اسی میں آس کوئی حکمِ رب کی پاسداری ہے
شبِ ہجرت میں جو مولا نبیؐ کے رازداں ٹھہرے
حضرت سعادت حسن آس کی یہ منقبت نہایت پُراثر اور عقیدت سے لبریز ہے جو حضرت علی علیہ السلام کی ذاتِ گرامی کی عظمت، فہم، استقامت، سخاوت، اور روحانی مقام کو نہایت خوبصورت اور بلیغ انداز میں پیش کرتی ہے۔ ذیل میں اس منقبت پر ایک جامع تبصرہ پیش کیا جا رہا ہے:
یہ منقبت حضرت علی علیہ السلام کی شان و عظمت کو منظوم پیرائے میں پیش کرنے کا ایک نہایت مؤثر اور ادبی طور پر خوشنما اظہار ہے۔ شاعر نے ایک طرف تو عقیدت اور محبت کا دامن مضبوطی سے تھامے رکھا ہے، اور دوسری جانب فصاحت و بلاغت کے تقاضوں کو بھی بخوبی نبھایا ہے۔
اگر ادبی و فکری جہات میں دیکھا جاۓ تو شاعر نے وقت، فضا، زمین و آسمان کو ٹھہر جانے کی کیفیت میں لا کر حضرت علیؑ کے مقام کو کائناتی تناظر میں بیان کیا ہے، جو کہ نہایت بلند تخیل کی عکاسی کرتا ہے:
”علی کے واسطے لگتا ہے جیسے سب جہاں ٹھہرے“
نہج البلاغہ کے ذکر کے ذریعے شاعر نے علیؑ کے علم و حکمت کی عظمت کا حوالہ دیا ہے، جس سے قاری کو حضرت کے فکری ورثے کی طرف متوجہ کیا گیا ہے:
”علی کیا ہیں ذرا نہجل البلاغہ دیکھ لو پڑھ کر“
میزانِ شریعت اور ضربِ علیؑ کے امتزاج سے شاعر نے حضرت علیؑ کی عدل پسندی اور شجاعت کو اجاگر کیا ہے:
”علی کے ہاتھ میں ہے ہاتھ میزانِ شریعت کا“
ان اشعار میں حضرت علیؑ کی سخاوت، امامت، یتیم نوازی، اور قربِ الٰہی کو جس محبت سے بیان کیا گیا ہے، وہ قاری کے دل میں احترام کی ایک نئی جہت پیدا کرتا ہے:
”علی کتنے یتیموں کے سروں پر سائباں ٹھہرے“
سب سے مؤثر شعر شاید وہ ہے جہاں شاعر نے حضرت علیؑ کو نبی اکرم ﷺ کی "جان” قرار دیا:
”نبی گر جسم ہیں مولا علی بھی ان کی جاں ٹھہرے“
اس شعر میں وحدتِ رسالت و ولایت کا حسین نکتہ بیان کیا گیا ہے جو صوفیانہ فکر کی روح ہے۔
لسانی و شعری محاسن کو دیکھا جاۓ تو ردیف "ٹھہرے” کا مسلسل استعمال منقبت کو ایک خوبصورت صوتی آہنگ دیتا ہے۔
قوافی کا نظم، بحور کی روانی، اور مضامین کا تنوع، سب شاعر کی فنکارانہ مہارت کی گواہی دیتے ہیں۔
تشبیہ و استعارہ، علامت و کنایہ کا استعمال بھی برمحل ہے، جیسے:
”علی کے نام کی مالا گلے میں جس نے ڈالی ہو“
یہاں "مالا” ایک روحانی تعلق کی علامت ہے۔
اگر منقبت کے روحانی اثرات کو دیکھا جاۓ تو یہ منقبت نہ صرف ایک نعتیہ جذبے کے ساتھ لکھی گئی ہے بلکہ اہلِ بیتِ اطہار علیہم السلام سے محبت کا ایک گہرا اظہار بھی ہے۔ قاری کو یہ اشعار حضرت علیؑ کی معرفت کی طرف مائل کرتے ہیں، اور یہی ایک کامیاب منقبت کا خاصہ ہوتا ہے۔
سعادت حسن آس کی یہ منقبت زبان و بیان، فکر و فن، اور عقیدت و معرفت تینوں محاذوں پر کامیاب ہے۔ یہ ایک ایسا کلام ہے جسے محفلِ میلاد، مجالسِ ذکرِ علیؑ یا علمی و روحانی نشستوں میں پڑھے جانے کے لائق قرار دیا جا سکتا ہے۔ شاعر کی محبت اور عقیدت نے اس منقبت کو صرف ایک ادبی تخلیق ہی نہیں، بلکہ ایک روحانی دعوت بھی بنا دیا ہے۔
درحقیقت، یہ کلام حضرت علیؑ کی عظمت کو نہایت موزوں پیرائے میں بیان کرنے کی ایک کامیاب کوشش ہے۔ جسے پڑھ کر دل مودت سے سرشار ہو جاتا ہے سعادت حسن آس کے لیے میں دعا گو ہوں کہ خدا وند کریم ان کے قلم کے رزق میں اضافہ فرماۓ۔ آمین
میرا تعلق پنڈیگھیب کے ایک نواحی گاوں غریبوال سے ہے میں نے اپنا ادبی سفر 1985 سے شروع کیا تھا جو عسکری فرائض کی وجہ سے 1989 میں رک گیا جو 2015 میں دوبارہ شروع کیا ہے جس میں نعت نظم سلام اور غزل لکھ رہا ہوں نثر میں میری دو اردو کتابیں جبکہ ایک پنجابی کتاب اشاعت آشنا ہو چکی ہے
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |