سانحہ سوات اور ہماری اجتماعی بے حسی
ایک طرف اٹلی ہے جہاں ایک کتے کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے ریسکیو کیا گیا۔ دوسری طرف افغانستان ہے جہاں دریا میں لہروں کی نظر ہوتے ہوئے ایک آدمی کو ہیلی کاپٹر سے بچایا گیا۔ جبکہ تیسری طرف ہم اور ہماری ایٹمی طاقت رکھنے والی حکومت ہے کہ جہاں 18 میں سے ایک ہی خاندان کے چھوٹے بڑے 15 افراد دو گھنٹوں تک دریائے سوات کی تیز لہروں سے لڑتے لڑتے شہید ہو گئے، لیکن نہ کوئی اسلام آباد، راولپنڈی اور پشاور سے ریسکیو ہیلی کاپٹر پہنچا اور نہ ہی انہیں بچانے کے لیئے کسی دوسرے نے ہمت کی۔ ان ڈوبنے والے ایک ہی خاندان کے افراد کا تعلق پنجاب سیالکوٹ سے تھا جو وہاں سیاحت کے لیئے گئے ہوئے تھے۔ یہ المناک واقعہ سوات میں منگورہ بائی پاس کے مقام پر اچانک طوفانی سیلابی ریلا آنے کی وجہ سے پیش آیا۔ عینی شاہدین کے مطابق اس دوران دو دفعہ ریسکیو کی ٹیمیں موقع پر پہنچیں مگر انہوں نے بتایا کہ ان کے پاس سیلابی لہروں سے بچاو’ کا سامان نہیں ہے۔ دریا کے کنارے ہزاروں افراد اس بدنصیب خاندان کو ڈوبتے ہوئے دیکھتے رہے مگر شائد وہ سب ان کا تماشا دیکھنے آئے تھے کیونکہ ان میں کتنے ہی افراد لائیو ویڈیوز بناتے رہے، اور انہیں بچانے کے لیئے کوئی آگے بڑھا اور نہ ہی کسی درد دل کی آنکھوں سے آنسو ٹپکا۔
یہ سانحہ سوات ہمارے بے حس معاشرے کی دردناک مگر حیرت انگیز ترین کہانی ہے جس میں ہم سب کسی نہ کسی سطح پر ایک ذیلی کردار ادا کر رہے ہیں۔ یہاں کوئی سرکاری محکمہ ہے تو اس میں کرپشن کرتی کالی بھیڑیں ہیں، کوئی ڈاکٹر ہے تو وہ اپنی من پسند ادویات لکھ کر دے رہا ہے جس سے اسے کمیشن ملے گا اور آپریشن کر رہا ہے تو خطرہ ہے کہ کہیں وہ مریض کا صحتمند گردہ ہی نہ نکال لے، دودھ والا ہے تو وہ پانی ملا رہا ہے اور عین ممکن ہے کہ وہ بے ایمانی سے پیسہ کمانے کے لیئے اس میں پوڈر بھی ملا دے، اور کوئی دکان دار ہے تو سودا سلف خریدنے والے سے بل پر قیمت لگانے سے پہلے پوچھے گا کہ ایک نمبر مال چایئے، دو نمبر چایئے یا پھر تین نمبر مال کی ضرورت ہے۔ ایک اور تصویر پاکستان کی یہ ہے کہ یہاں کرکٹ کے میچ کی پچ خشک کرنے کے لیئے ہیلی کاپٹر ہوتا ہے، وزیراعظم، صدر، چاروں صوبوں کے وزرائے اعلی اور فوج کے لیئے ہیلی کاپٹرز ہوتے ہیں، لیکن ریسکیو 1122 کے پاس جانیں بچانے کے لیئے اس وقت کوئی ہیلی کاپٹر میسر نہیں تھا!
کہا جاتا ہے کہ 2019ء میں پی ٹی آئی کے بانی عمران خان کی بہن علیمہ خان اور اس کی بیٹی چترال سیر کے لئے گئے تھے تو اس وقت بھی سیلاب سے راستے بند ہو گئے تھے اور علیمہ خان سمیت کئی سیاح چترال میں پھنس گئے تھے۔ تب پشاور سے فورا ہیلی کاپٹر پہنچ گیا تھا اور انہیں بچا لیا گیا تھا۔ صوبہ کے پی کے میں 12 سال سے تحریک انصاف کی حکومت ہے مگر اس کی یہ کارکردگی ہے کہ اس پر کروڑوں روپے کے "بسکٹ” کھا جانے کا الزام ہے۔ اس نوع کے واقعات سوات، دیر اور چترال میں ہر سال پیش آتے ہیں۔ لیکن وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو اتنی توفیق نہیں ہوئی کہ وہ اس دوران ریسکیو ٹیموں ہی کو فعال کر سکیں۔ اس سے قبل امسال صوبہ خیبر پختونخوا میں چترال کے مقام پر اسی نوعیت کا ایک واقعہ پیش آ چکا ہے لیکن کسی کو اس جیسے واقعات کی روک تھام کے لئے ٹھوس اقدامات کرنے کا خیال تک نہیں آیا جو انتہائی افسوسناک بات ہے۔
سنہ 2010ء میں بھی خیبر پختونخوا میں تباہ کن سیلاب آیا تھا۔ اس وقت عوامی نیشنل پارٹی کی حکومت تھی مگر تب تیمرگرہ ایف سی گراؤنڈ میں دو ہیلی کاپٹر ریسکیو آپریشن کے لئے ہر وقت تیار کھڑے ہوتے تھے۔ حالانکہ اس وقت نہ صرف سیلاب تھا، بلکہ دہشتگردی بھی اپنے عروج پر تھی۔ لیکن نجانے اس "تبدیلی سرکار” نے ایسے اندوہناک واقعات کی روک تھام کے لیئے کیوں انتظامات نہ کیئے کہ نہ گنڈا پور صاحب کی صوبائی حکومت ان قیمتی جانوں کو بچانے کے لیئے کچھ کر سکی اور نہ مقامی انتظامیہ ہی کسی کام آئی۔
سوات کے خوبصورت پہاڑوں کے درمیان بہتا ہوا پانی کبھی نعمت ہوا کرتا تھا، مگر اسی پانی نے جب سے سیلاب کی صورت اختیار کی ہے وہ قیمتی انسانی جانوں کو کھا رہا ہے۔ وہ نعمت اب ایک خوفناک عذاب میں بدل چکی ہے۔ ہر سال سیلاب آتا یے اور ارد گرد کا سب کچھ پانی بہا لے جاتا ہے۔ وہ چیخیں جو اُس دن فضا میں بلند ہوئیں، وہ عورتیں جو اپنے بچوں کو سینے سے لگا کر آخری سانس تک پانی سے لڑتی رہیں، وہ نوجوان جو اپنے بزرگوں کو بچانے کی کوشش میں خود بہہ گئے، کیا اُن کی زندگیوں کی کوئی قیمت نہیں ہے؟ افسوس اس بات پر ہے کہ ہمارے پاس وسائل ہوتے ہوئے بھی کوئی اُن تک نہ پہنچا۔ وہاں کوئی ہیلی کاپٹر نہ آیا، نہ کنارے پر کھڑے تماشا دیکھتے بے حس لوگوں میں سے کوئی کشتی لے کر وہاں پہنچا، نہ کسی تیراک نے چھلانگ لگائی اور نہ ہی کسی نے ان کی طرف کوئی رسہ پھینکا۔ بس ہزاروں لوگ آئے، اپنے کیمرے آن کئے، کسی نے تصویر بنائی اور کسی نے ویڈیو، کسی نے اپنے دوستوں کو لائیو کوریج دکھائی اور کسی نے سوشل میڈیا پر اسے اپلوڈ کیا، لیکن کسی نے انسانی جانوں کو بچانے کے لیئے اپنا ہاتھ آگے نہیں بڑھایا۔ افسوس صد افسوس!!
کیا ہمارے اندر اتنی ہی انسانی ہمدردی بچی ہے کہ جو بے یارومددگار مرتے ہوئے انسانوں کو دیکھ کر بھی بیدار نہیں ہوتی ہے، بلکہ وہ انسانیت کا تماشہ بنا کر اسے "نشر” کرنے پر اکتفا کرتی ہے؟ کیا یہی ہماری ترقی ہے؟ کیا یہی ہماری سیاست و ریاست ہے؟ جب سے اس واقعہ کی ویڈیوز اور تصاویر دیکھی ہیں اپنے معاشرے کی بے حسی دیکھ کر دل ڈوبا جا رہا ہے۔ یہ ایسا واقعہ ہے جو ہر دردمند کے دل پر نقش ہو گیا ہو گا کہ سوچو، پانی میں ڈوب کر بے بسی میں شہید ہونے والوں کے دل پر آخری لمحوں میں کیا بیتی ہو گی؟ ہم اس معاشرے کے باسی ہیں جہاں ہماری اجتماعی انسانیت تیزی سے دم توڑ رہی ہے۔ ہم جس معاشرے میں جی رہے ہیں ایسے واقعات پڑھ کر اپنے انسان ہونے پر شرمندگی ہوتی ہے۔
محکمہ ریسکیو 1122، پی ڈی ایم اے، محکمہ سیاحت اور محکمہ موسمیات کے افسران آخر کس بات کی تنخواہیں لے رہے ہیں؟ ان محکموں کی نااہلی اور مجرمانہ غفلت کے باعث آج ایک پورا خاندان ہمیشہ کے لئے ہم سے جدا ہو گیا۔ ایسے علاقوں میں موقع پر آگاہی کے انتظامات کیوں نہیں ہوتے؟ ہر بار ایسے حادثات سیاست کا شکار کیوں کر دیئے جاتے ہیں؟ آخر ہم زندہ قوم کب بنیں گے؟ پورا ملک سوگ کی حالت میں ہے۔ یہ ایسے سوالات ہیں جن کا افسوس کے سوا ہمارے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔
دریائے سوات کے کنارے وہ لمحہ تاریخ کے سینے پر ایک داغ بن گیا، جب انسانیت نے آنکھیں موند لیں اور ضمیر ساکت ہو گئے۔ جب بارش مسلسل ہو رہی تھی، دریا کا پانی خطرناک حد تک بڑھ چکا تھا تو ریسکیو کا عملہ کیوں متحرک نہیں ہوا؟ ایک ہی خاندان کے 15 افراد، جن میں معصوم بچے، کمزور بوڑھے، اور مائیں شامل تھیں، ایک چھوٹے سے کچے ٹیلے پر پناہ لئے کھڑے ریے۔ ان کی آنکھوں میں امید تھی، لبوں پر دعائیں، اور دل میں خوف، مگر ریاست خاموش رہی، کوئی ہیلی کاپٹر آیا اور نہ کوئی ریسکیو ٹیم پہنچی۔ بس لوگ آئے،
کیمرے لے کر، موبائل اٹھا کر، ویڈیوز بناتے رہے، جیسے یہ منظر کسی فلم کا سین ہو۔ ایک ماں اپنے بچے کو سینے سے لگائے چیخ رہی تھی کہ "بچا لو ہمیں، صرف ایک کشتی، صرف ایک رسی بھیج دو،” مگر جواب میں صرف بارش کی رم جھم، پانی کا شور، اور موبائل کیمروں کی روشنی تھی۔
پھر ایک لمحہ آیا جب پانی سب کچھ نگل گیا۔ 15 زندگیاں، 15 سانسیں، 15 کہانیاں, پانی میں ڈوب گئیں، اور ضمیر زمین میں۔ اگر ریاست چاہتی، تو بچا سکتی تھی۔ اگر لوگ چاہتے، تو ہاتھ بڑھا سکتے تھے، مگر سب نے صرف تماشا دیکھا۔ یہ صرف سیلاب نہیں تھا، یہ ہماری اجتماعی انسانیت کی لاش کا جنازہ تھا، جسے وہاں موجود سب تماشائیوں نے مل کر پڑھا۔
اس سانحہ کا ایک وہ لمحہ ہے کہ دل سے نہیں نکل رہا، کہ یہ روح کو بھی چھلنی کر گیا ہے۔ تیز لہروں کے درمیان ٹیلے کی وہ اونچی جگہ ہے جہاں یہ پورا خاندان کھڑا چیخ رہا ہے اور دہائیاں دے رہا ہے اور ان کی مدد کو کوئی نہیں پہنچتا ہے، ایک ایک کر کے، دل میں زندہ رہنے کی حسرت لیئے، وہ سب اپنوں ہی کے سامنے دریا برد ہو جاتے ہیں۔ یہ زندگی اتنی تکلیف دہ کیوں ہے؟ دنیا جینے کے لیئے ایک مشکل جگہ کیوں بنتی جا رپی ہے؟ آنکھیں ہیں کہ ان سے یہ دردناک منظر نکل ہی نہیں رہا ہے۔ یا رب العالمین نبی پاک ﷺ کے صدقے ہماری اس بے حس قوم پر رحم فرما۔ کوئی یورپین ملک ہوتا تو حکومت کب کی مستعفی ہو چکی ہوتی، "شرم ہم کو مگر نہیں آتی!”
Title Image by Tumisu from Pixabay

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |