تبصرہ بر غزلیں از ڈاکٹر زبیر فاروق العرشی
ڈاکٹر زبیر فاروق العرشی صاحب کے یہ اشعار ایک ایسے شاعر کی پہچان ہیں جو اپنی داخلی کیفیات، محرومیوں، تنہائیوں اور انسانی رویوں کے تضادات کو بڑے سادہ اور رواں پیرایے میں پیش کرتا ہے۔ ان کے یہاں نہ لفظوں کی بناوٹ میں تصنع ہے، نہ جذبات کے بیان میں جھول۔
ان غزلوں میں محبت، بےوفائی، رفاقت، تنہائی اور زندگی کی تلخ حقیقتوں پر گہرا مشاہدہ نظر آتا ہے۔ شاعر کبھی محبوب کی بےرخی پر شکوہ کرتا ہے، کبھی سماج کی منافقت پر طنز، اور کبھی اپنے اندر کے زخموں کو بیان کرتا ہے۔ مثال کے طور پر:
پہلی غزل میں ملاقات نہ ہونے، محبت کے بدلتے رویوں اور تعلقات کے سرد پڑنے کا دکھ نمایاں ہے۔
دوسری غزل میں انسانی نیتوں کی کھوٹ، جھوٹ اور معاشرتی گراوٹ پر طنزیہ اور حقیقت پسندانہ لہجہ ہے۔
تیسری اور چوتھی غزلوں میں محبت کے ساتھ ساتھ تنہائی اور زندگی کے بےرحم حقائق کا بیان ہے۔
دیگر غزلوں میں وفا اور جفا کے تقابل کے ساتھ ساتھ ایک طرح کی روحانی تھکن اور تقدیر سے بیزاری بھی جھلکتی ہے۔
شاعری کا اسلوب کلاسیکی اردو غزل کے روایتی سانچے میں ہے، مگر موضوعات اور لہجہ آج کے قاری کو بھی قریب محسوس ہوتے ہیں۔ زبان رواں ہے، تراکیب آسان اور قافیہ ردیف کی ترتیب سنجیدہ اور مضبوط ہے۔ قاری پر اشعار کا اثر اس لیے زیادہ ہوتا ہے کہ شاعر نے تجربات کو تصنع کے بجائے سچائی کے ساتھ پیش کیا ہے۔
مجموعی طور پر ڈاکٹر زبیر فاروق العرشی کی یہ غزلیں قاری کو اپنے اندر جذب کر لیتی ہیں۔ یہ نہ صرف ذاتی واردات کا بیان ہیں بلکہ معاشرتی مزاج اور انسانی نفسیات کی ایک آئینہ داری بھی کرتی ہیں۔
چنداشعار اور تبصرہ
"گلہ نہیں کہ ملاقات بھی نہیں کرتے
وہ مل بھی جائیں کہیں، بات بھی نہیں کرتے”
یہ شعر تعلقات میں سرد مہری اور رشتوں کی ٹوٹ پھوٹ کو نہایت سادہ اور مؤثر انداز میں بیان کرتا ہے۔ ملاقات ہونا بھی بےمعنی ہو جائے تو رفاقت کا اصل حسن ختم ہو جاتا ہے۔
"تجھ کو بیچیں گے مرنے سے پہلے
سب ہی کھوٹے ہیں نیت میں اپنی”
یہاں شاعر نے معاشرتی منافقت اور لالچ کو نشانہ بنایا ہے۔ یہ طنز بھرپور ہے اور انسانی رشتوں میں کھوٹ کی حقیقت عیاں کرتا ہے۔
"وہ مرا کب بنا سدا کے لئے
اس کی موجودگی رہی پل بھر”
محبت کی ناپائیداری اور لمحاتی خوشیوں کے ختم ہوجانے کا دکھ اس شعر میں گہری چوٹ کے ساتھ موجود ہے۔
"تم جو گئے ہو تو تنہائی ساتھ ہے میرے
غم کا بھوت اب رہنے لگا ہے میرے مکاں پر”
اس شعر میں تنہائی کو "بھوت” کہا گیا ہے، جو ایک حسین اور منفرد تشبیہ ہے۔ غم کو ایک مستقل باسی کی طرح دکھایا گیا ہے جو دل کے مکان میں ڈیرہ ڈال لیتا ہے۔
"دم نکل جائے گا امشب مجھے معلوم ہے یہ
زہر جو تم نے دیا، ہوگا اثر آج کی رات”
اس شعر میں محبت اور جفا کا انتہائی شدت بھرا رنگ ہے۔ یہاں موت اور عشق کی علامتیں ایک دوسرے سے جڑ کر درد کی انتہا دکھاتی ہیں۔
"کیا ستم ہے پھیکی پھیکی سی محبت ہے تری
پیار وہ کیسا بھلا جس میں تری خوشبو نہ ہو”
محبت کے جذبے کو خوشبو کے استعارے سے باندھنا نہایت نازک اور دلنشیں ہے۔ یہ شعر رومانی حسن کے ساتھ ساتھ ایک کمی کا احساس بھی دلاتا ہے۔
"اس کے دل کا مکیں تھا میں پہلے
اب وہ خالی مکان لگتا ہے”
یہ شعر بےوفائی اور تعلق کے بدل جانے کی انتہائی مؤثر تصویر ہے۔ خالی مکان کی تشبیہ جذباتی خلا کو پوری شدت سے ظاہر کرتی ہے۔
"میں بادہ خوار ہوں لیکن برا بالکل نہیں ہوں
مرے دل میں ابھی فاروق ہے ایمان باقی”
یہاں شاعر نے اپنے کردار کی صفائی دیتے ہوئے عشق اور ایمان کو ساتھ باندھا ہے۔ یہ تضاد قاری کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ انسان گناہوں یا کمزوریوں کے باوجود بھی نیکی اور ایمان کا حامل رہ سکتا ہے۔
ڈاکٹر زبیر فاروق العرشی کے یہ منتخب اشعار ان کے کلام کی گہرائی، سادگی، درد، طنز اور حقیقت پسندی کو اجاگر کرتے ہیں۔ ان کے یہاں رومان بھی ہے، تنہائی بھی، اور معاشرتی تلخیاں بھی۔ ان کا اسلوب قاری کے دل پر براہ راست اثر انداز ہوتا ہے۔
ہاجرہ نور زریاب۔۔۔۔۔آکولہ مہاراشٹر انڈیا
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |