مسکرا اے میرے ہمنشیں
امریکی شہری وارن بوفٹ دنیا کے 5ویں امیر ترین شخص ہیں جو عمر کی 95 بہاریں دیکھ چکے ہیں۔ ان کی دولت کا تخمینہ تقریباً 160 ارب ڈالر ہے۔ لیکن انہیں اپنی دولت اور شہرت سے زیادہ اپنی صحت اور تندرستی عزیز ہے۔ سکول کے دنوں میں ایک قول یاد کیا تھا کہ، "جلدی سونا اور جلدی اٹھنا آپ کو صحت مند، امیر اور دانش مند بناتا ہے۔” بوفٹ اس کہاوت پر عین پورا اترتے ہیں کہ وہ روزانہ وقت پر سو جاتے ہیں اور صبح سویرے اٹھنے کے بعد فورا سیر کو نکل جاتے ہیں۔ ہم تمام طلباء نے سکول کے زمانے میں "صبح کی سیر” پر مضامین تو لکھے مگر ہم تمام صبح کی سیر کو جاتے ہیں اور نہ ہی جلدی سونے اور جلدی جاگنے کے عادی ہیں۔ شائد یہی وجہ ہے کہ بوفٹ ہم سب سے زیادہ امیر، صحت مند اور عقل مند ہیں۔
ہر انسان کی صحت اور لمبی زندگی میں اس کے انداز زندگی ( لائف سٹائل) کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ بے شک ہر آدمی کی زندگی میں سادگی، رہن سہن، خوراک اور خاص طور پر ورزش کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے، کیونکہ یہ ساری چیزیں آپ کے نظام انہضام، دل کی دھڑکن، نظام تنفس، قوت مدافعت اور خون کی گردش وغیرہ کو متوازن رکھتی ہیں۔ لیکن ان کے برابر یا اس سے کہیں زیادہ آپ کا "انداز فکر” (مائنڈ سیٹ) اہم ہے جو آپ کے پورے جسم اور اس کے ہر نظام پر اثرانداز ہوتا ہے جس سے آپ صحت مند زندگی اور درازی عمر سے ہمکنار ہوتے ہیں۔ یہاں میں نے صرف بوفٹ کی مثال دی ہے جو ان تمام خواص میں سے زیادہ تر پر پورا اترتے ہیں۔ یہاں تک کہ دنیا کے اکثر لوگ ان سے جیلس رہتے ہیں جس کی وجہ ان کی زیادہ دولت نہیں بلکہ ان کے خود کو صحت مند رکھنے کے وہ بنیادی اصول ہیں جن پر وہ باقاعدگی سے کاربند رہتے ہیں۔
گو کہ وارن بفٹ کی خوراک، صحت کے ہر پیمانوں کے اعتبار سے اتنی اچھی نہیں ہے لیکن بڑھاپے کے سوا وہ پھر بھی بلڈ پریشر، شوگر اور دیگر عام بیماریوں سے آزاد ہیں۔ وارن بفٹ روزانہ تین چار سافٹ ڈرنک کے ڈبے پیتے ہیں، پورا دن فاسٹ فوڈ کھاتے ہیں، ڈونلڈز اور برگرز ان کی پسندیدہ خوراک ہے۔ اس کے علاوہ چاکلیٹس اور کینڈیز کی صورت، چینی کی بھاری مقدار بھی اپنے معدے میں بلا خوف و خطر اتارتے ہیں لیکن پھر بھی ان کی صحت قابل رشک ہے۔
اس قدر بدپرہیز خوراک کے باوجود وہ اتنی لمبی عمر پا چکے ہیں اور آج بھی انہیں کوئی مخصوص یا جان لیوا بیماری لاحق نہیں ہے۔ وہ آج بھی چاق و چوبند ہیں، باقاعدگی سے دفتر جاتے ہیں اور اربوں ڈالرز کے اثاثوں کو خود سنبھالتے ہیں۔
وارن بوفٹ کا کہنا ہے کہ ان کی صحت اور درازی عمر کا راز خوشی ہے۔ ان کے مطابق وہ اپنے کام اور خوراک سے خوشی محسوس کرتے ہیں۔ انہیں کوئی خاص ڈرنک پینا اچھا لگتا ہے، تو اسے بے دھڑک پیتے ہیں چاہے وہ کوئی عام سا سافٹ ڈرنک ہی کیوں نہ ہو۔ واضح رہے کہ بوفٹ زیادہ تر وہی ڈرنک استعمال کرتے ہیں اور وہی خوراک کھاتے ہیں جس میں انہوں نے بہت زیادہ انوسٹمنٹ کر رکھی ہوتی ہے۔ جہاں یہ اپنی مصنوعات کی ایڈورٹائزمنٹ ہے وہاں یہ اس بات کی گارنٹی ہے کہ ان کی کمپنی کی تیار کردہ مصنوعات کتنی قابل اعتماد ہیں کہ جن کو سب سے پہلے وہ خود استعمال کرتے ہیں یعنی وارن بوفٹ خوراک کی اپنی مصنوعات سے "ذائقہ” اور "آمدنی” دونوں حاصل کرتے ہیں۔ خاص کر چاکلیٹس اور کینڈیز کی اپنی کمپنیوں میں انہوں نے بھاری انویسٹمنٹ کر رکھی ہے۔
ایک عام پاکستانی ایسی خوراک کو فالو کر لے تو شاید اسے ڈائبیٹیس، ہارٹ اٹیک، بلڈ پریشر، اسٹروک یا کینسر وغیرہ جیسی بیماریاں لگ جائیں جبکہ بفٹ اتنی طویل عمر پانے کے باوجود آج بھی انتہائی صحت مند ہیں اور مزید لمبی عمر پانے کے خواہش مند ہیں۔
وارن بوفٹ کی ایک اور خوبی یہ ہے جو اسے دوسرے تمام ارب پتیوں سے ممتاز کرتی ہے جو یہ ہے کہ بوفٹ کو نمود و نمائش کا زرہ برابر شوق نہیں ہے۔ بوفٹ جو بھی کرتے ہیں، وہ اپنی خوشی کے لیئے کرتے ہیں۔ ان کی زندگی کا اصول "کھاو، پیو اور خوش رہو” کی بنیاد پر قائم ہے۔ انہیں دنیا کو "امپریس” (یا متاثر) کرنے کا بلکل شوق نہیں ہے۔ بوفٹ اس قدر دولت کما کر بھی عام سے گھر میں رہتے ہیں، عام سی گاڑی ڈرائیو کرتے ہیں اور ایک عام اور سادہ سا موبائل فون استعمال کرتے ہیں۔ وارن بوفٹ کے پاس ایک سو ساٹھ ارب ڈالر سے زیادہ دولت ہے یعنی بوفٹ پاکستان سے بھی کئی گنا زیادہ امیر ہیں مگر وہ پاکستان کے "امراء” اور "شرفاء” سے کہیں زیادہ سادہ زندگی گزار رہے ہیں۔ ممکن ہے ہم سے کچھ لوگ بوفٹ سے زیادہ مہنگے گھر میں رہائش پذیر ہوں اور ان سے زیادہ مہنگی چیزیں استعمال کرتے ہوں لیکن میں یقین سے ساتھ کہتا ہوں وہ ان سے زیادہ عمر کے نہیں ہوں گے۔ کوئی اتنی طویل عمر کا انسان ہو، اتنا امیر بھی ہو اور اس سے کئی گنا سادہ زندگی گزارنے کا عادی ہو، بس یہی ان کی طویل عمر کا راز ہے۔ ہمارے ہاں پیسہ آنے کی دیر ہے ہم اپنی "اوقات” بھول جاتے ہیں، مہنگے گھروں میں رہتے ہیں، مہنگی گاڑیاں استعمال کرتے ہیں اور لاکھوں کروڑوں کی گھڑیاں باندھتے ہیں۔ حالانکہ قرآن و حدیث میں "نمود و نمائش” اور "دکھاوے” کی سخت ممانعت کی گئی ہے کیونکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسا لائف سٹائل زندگی پر منفی اثرات مرتب کرتا یے۔
وارن بوفٹ آج بھی 1958ء میں محض 31 ہزار ڈالرز کی مالیت سے خریدے گئے گھر میں رہتے ہیں۔ میرے خیال میں دنیا سے بے پرواہ ہو جانا یا اسے متاثر کرنے کی خواہش سے آزاد ہو جانا اصل آزادی ہے جسے آپ "درویشی” بھی کہہ سکتے ہیں، جو کسی نعمت سے کم نہیں ہے۔
زندگی کو سادگی اور خوش مزاجی سے جینا ایک فن ہے جو صحت اور درازی عمر کی بنیاد ہے۔ آپ کامیاب مقاصد کے حصول اور کامیاب زندگی جینے کے لئے سر دھڑ کی بازی لگا دیں اور اگر کبھی ہار بھی جائیں تو آپ کو کوئی خاص فرق نہیں پڑنا چایئے کیونکہ سادہ طریقے سے جاری رکھی گئی جدوجہد ہی زندگی اور لمبی عمر کا اصل تسلسل ہے۔ اگر کسی جگہ آپ ناکام بھی ہوں تو اسے کامیابی کا زینہ سمجھ کر زندگی کو ایک نئے سرے سے دوبارہ شروع کر دیں: "ہار دینا نہ ہمت کہیں، ایک سا وقت رہتا نہیں۔” مسکرا اے میرے ہمنشیں! ایک سا وقت رہتا نہیں!!
Title Image background by Leonhard Niederwimmer from Pixabay

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |