بھارتی کرکٹ ٹیم کا شرمناک رویہ
دبئی کے حکمران اور امارات کے پرائم منسٹر محترم المقام محمد بن راشد ال مکتوم نے بھی انڈین کرکٹ ٹیم کے غیر اخلاقی رویئے کی سرزنش کی ہے جس کے باعث پہلے انڈین ٹیم نے میچ شروع ہونے کے تعارفی سیشن میں پاکستانی کھلاڑیوں سے ہاتھ نہیں ملایا تھا اور جب پاکستان کے خلاف بھارت نے فائنل جیتا تو بھارتی ٹیم نے ایشیا کرکٹ کپ وصول کرنے سے بھی انکار کر دیا۔ یہ بھارتی کرکٹ ٹیم کا ایسا غیر مناسب رویہ ہے جو کھیل کے روایتی و اخلاقی ضابطوں کی نفی کرتا یے۔ اس سے بھارت کی جگ ہنسائی تو ہوئی ہی ہے مگر اس شرمناک رویئے پر خود بھارت میں بھی سخت تنقید کی جا رہی ہے۔
بھارت کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان اور مشہور کھلاڑی سنیل گواسکر نے کہا ہے کہ، "مجھے یہ بات سمجھ نہیں آ رہی ہے کہ سوریا کمار نے ایشیا کپ کی افتتاحی تقریب میں چیئرمن پاکستان کرکٹ بورڈ کے ساتھ ہاتھ ملایا، اس سمے آپ کی ‘دیش بھگتی’ کہاں تھی؟ جب آپ نے پاکستان کے ساتھ کرکٹ میچ کھیل ہی لیا ہے تو پھر کھلاڑیوں کا آپس میں ہاتھ نہ ملانا اور فائنل جیت کر ٹرافی وصول نہ کرنا ایک ایسا فیصلہ ہے جسے کوئی بھی عقل مند آدمی قبول نہیں کرے گا۔ یہ فیصلہ اپنا مذاق اڑاوانے کے سوا کچھ بھی نہیں۔ میرے خیال میں بھارتی کرکٹ بورڈ کو اپنی پالیسی واضح کر لینی چایئے اور وہ ایسا کوئی کام نہ کرے جو بھارت کے لئے ندامت کا باعث بنے۔” اسی طرح بھارت کے سابق کرکٹ کپتان ایم ایس دھونی نے بھی اپنے ایک بیان میں کہا کہ بھارت نے ایشیا کپ میں پاکستان کے ساتھ جو رویہ اختیار کیا، وہ انتہائی افسوسناک تھا۔ یہ اچھی بات نہیں۔ مانا کہ پاکستان ہمارا ‘سیاسی دشمن’ ہے، لیکن کرکٹ ایک کھیل ہے، جنگ نہیں ہے۔ بھارتی کھلاڑیوں کے اس عمل سے ہمیں خود شرمندگی ہوئی ہے۔ پاکستان کے ساتھ ہم نے بھی کرکٹ کھیلی ہے، لیکن کبھی بےادبی نہیں کی۔ ہم تو دوست ہوا کرتے تھے، ایک دوسرے کی عزت کرتے تھے لیکن آج ہماری نئی جنریشن تو مصافحہ کرنے کو بھی تیار نہیں ہے۔ اس رویئے سے نہ صرف کرکٹ کا وقار مجروح ہوا ہے بلکہ ہمارے ملک کو بھی شرمندگی اٹھانا پڑی ہے۔ بھارتی کرکٹروں کا یہ رویہ واقعی قابل مذمت ہے جس کو کسی بھی اخلاقی و انسانی اقدار کے حوالے سے "مہذب” قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کھیل کے میدان دو دشمن ممالک کو قریب لانے اور قربتوں کو بڑھانے کا باعث بنتے ہیں۔ شائد قارئین کو یاد ہو گا جب 1987ء میں پاکستان اور بھارت کے درمیان سخت کشیدگی تھی اور دونوں ممالک جنگ کے دہانے پر تھے تو اس وقت پاکستان کے صدر جنرل محمد ضیاءالحق 21 فروری 1987ء کو بھارت (جے پور) میں اچانک کرکٹ کا ٹیسٹ میچ دیکھنے چلے گئے تھے جہاں ان کی ملاقات بھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی سے ہوئی تھی، جس کے بعد سرحدی کشیدگی میں کمی آ گئی تھی۔ اس پر ضیاءالحق کے مخالفین نے بہت تنقید کی تھی اور بڑے مضحکہ خیز افسانے گھڑے تھے مگر اس کا مثبت نتیجہ یہ نکلا تھا کہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات فورا معمول پر آ گئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ اس دوران ضیاءالحق نے راجیو گاندھی کے ساتھ کوئی سرگوشی کی تھی جس سے راجیو کے ماتھے پر پسینہ آ گیا تھا۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ ضیاءالحق کی یہ "کرکٹ ڈپلومیسی” بہت کامیاب رہی۔ اس سے پاکستان اور بھارت جنگ کرنے کی بجائے ایک دوسرے کے قریب آ گئے تھے۔ 90 کی دہائی کے آخری برسوں میں بھارتی کرکٹ ٹیم کے دورہ پاکستان پر روانگی سے قبل اس وقت کے بھارتی وزیرِاعظم اٹل بہاری واجپائی نے کھلاڑیوں کو ہدایت کی تھی کہ "صرف میچ ہی نہیں بلکہ دل جیت کر واپس آنا ہے۔” اسی طرح جنرل پرویز مشرف بھی اپریل 2005ء میں اپنے پیش رو کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے نئی دہلی میں ہونے والا پاک بھارت میچ دیکھنے ہندوستان گئے تھے۔ تاہم ان کا یہ دورہ وزیرِاعظم من موہن سنگھ کی دعوت پر ہوا تھا۔ کرکٹ کے بہانے ہونے والے اس دورے کے دوران جنرل مشرف کی بھارتی وزیرِاعظم سے ملاقات کے بعد جاری ہونے والے اعلامیہ میں دونوں قوموں پر زور دیا گیا تھا کہ وہ "مسئلہ کشمیر” کو حل کرنے کی کوشش کریں۔
لیکن دبئی میں منعقدہ ایشا کپ 2025ء کے دوران بھارتی کرکٹ ٹیم کا رویہ انتہائی متکبرانہ رہا۔ غور سے دیکھا جائے تو بھارتی کرکٹر کے دل میں پائی جانے والی یہ نفرت مئی 2025ء میں پاکستان کی بھارت کے خلاف 3 روزہ جنگی فتح کا نتیجہ ہے جس کا اظہار کرنے میں بھارتی کھلاڑیوں نے کھیل کے میدان کو چنا، جو کسی بھی عالمی برادری کے اخلاقی تقاضوں کے منافی ہے۔ بھارت نے کرکٹ کے میدان میں اپنی فتح کو اس حقارت انگیز رویئے کے ذریعے شکست میں بدل لیا ہے جس پر بجا طور پر نہ متحدہ عرب امارات میں تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے بلکہ اسے بھارت کے غیرجانبدار اور معزز طبقات بھی ناپسندیدگی سے دیکھ رہے ہیں۔ بھارت کے اس رویئے کی وجہ سے بھارت کے دبئی میں کھیلنے پر پابندی بھی لگ سکتی ہے۔ دبئی حکومت کی طرف سے بھارتی کرکٹ ٹیم کے لیئے یہ ایک قسم کی وارننگ ہے۔بھارتی کرکٹ ٹیم ایسے تماشے اور ڈرامے اپنے ملک میں کریں انہیں امارات جیسے پرامن ملک، اور خاص طور پر دبئی کی ریاست اس کی اجازت نہیں دی جا سکتی ہے۔
بھارت کو اس ضمن میں تحریری طور پر پاکستان اور عالمی کرکٹ بورڈ سے معذرت کرنی چایئے، بلکہ پاکستان یہ معاملہ عالمی سطح پر اٹھائے تاکہ کھیل کو تناو’ اور نفرت کا ذریعہ بنانے سے روکا جا سکے۔ بھارتی کرکٹ ٹیم کی یہ ایسی احمقانہ حرکت ہے کہ اس پر بھارتی کرکٹ ٹیم پر کچھ عرصہ کے لیئے پابندی بھی لگائی جانی چایئے۔ ماضی میں کرکٹ پاکستان اور بھارت کو یکجا کرنے کا باعث بنی اور آج وہی کرکٹ ایک دوسرے میں دوریاں پیدا کر رہی ہے۔ یہ ایک افسوسناک صورتحال ہے جس کا دوونوں ممالک کے درمیان امن قائم کرنے کے لیئے تدارک کیا جانا از حد ضروری ہے۔
بھارت کی جانب سے 1986ء کے اواخر میں "آپریشن براس ٹیکس” کے نام سے صوبہ راجستھان میں فوجی مشقیں کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔ نومبر 1986 سے مارچ 1987 تک 5 ماہ جاری رہنے والی مذکورہ مشقیں "جنگِ عظیم دوم” کے بعد تاریخ کی سب سے بڑی فوجی نقل و حرکت تھی جس میں پوری ہندوستانی فوج شریک تھی۔ لیکن اسے پاکستان کے فوجی حکمران ضیاءالحق نے "کرکٹ ڈپلومیسی” سے ختم کر دیا تھا۔ آج بھارتی ٹیم نے کرکٹ ک اسی کھیل کو "جنگ” سمجھ کر تو کھیلا اور فائنل بھی جیت لیا مگر یہ بزدلانہ حرکت کر کے اس نے کھیل کو امن اور محبت کی بجائے "نفرت” کا نمائندہ بنا دیا، جو اس "ہندو توا” کی سوچ کا نتیجہ ہے، جس میں مہاتما گاندھی کے "آہنسا” کے امن پسند نظریئے کو یکسر طور پر رد کیا گیا ہے۔ پاکستان اور بھارت زندگی کے دیگر تمام شعبوں کے طرح کھیلوں کے مقابلوں اور خصوصاً کرکٹ میں بھی ایک دوسرے کے روایتی حریف سمجھے جاتے ہیں اور ایسے کسی بھی مقابلے میں حریف پر فتح حاصل کرنا ہر دو قوموں کیلئے قومی وقار اور انا کا مسئلہ قرار پاتا ہے، جسے بھارت نے اب "متنازعہ” بنانے کی کوشش کی ہے۔

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |