تجدید عہد
وہ اپنے وسیع و عریض لان میں بیٹھا، چہچاتے پرندوں کو ٹکٹکی باندھے دیکھ رہا تھا۔ وہ ان پرندوں کو حسرت بھری نگاہ سے دیکھتے سوچ رہا تھا کہ یہ کتنے خوش نصیب ہیں؟ کتنے مطمئن ہیں؟ اور ان پرندوں کو خود سے افضل خیال کر رہا تھا۔
اداس بیٹھا، زندگی کی الجھنوں میں اُلجھا، اپنی بے ترتیب سوچوں کو بار بار ترتیب دیتا اور ایک ہی نکتے پر اٹک جاتا کہ وہ اتنا بے سکون کیوں ہے؟ ہر وقت سوچوں میں اُلجھا رہتا کہ کیا چیز اسے سکون دے سکتی ہے؟ اور اس بے سکونی کی وجہ ڈھونڈنے میں ہر کاوش ناکام تھی۔
دنیا کی ہر نعمت اس کے پاس موجود تھی۔ وسیع و عریض گھر، خوابوں جیسے محل میں رہنے کے لیے ہر آسائش میسر تھی۔ بزنس، نوکر چاکر—سب کچھ اللہ نے اسے دیا تھا—لیکن پھر یہ بے وجہ اداسی اور بے چینی کیوں؟
علی اپنی سوچ کے اسی بھنور میں اُلجھا بیٹھا تھا کہ اچانک ایک پرسکون آواز گونجی، جس نے اس کے گھنٹوں کے سکوت کو ایک لمحے میں توڑ دیا۔ اسے یوں محسوس ہوا جیسے صدیوں سے کسی اندھیری کوٹھڑی میں بند شخص کو روشنی کی ہلکی سی کرن مل جائے۔ وہ بے اختیار اذان کی آواز کی طرف متوجہ ہوا۔ یہ آواز اسے ایسے محسوس ہوئی جیسے صحرا میں بھٹکے ہوئے مسافر کو ٹھنڈی ہوا کا جھونکا چھو گیا ہو اور بارش کے ٹھنڈے قطرے اس کی روح کو سیراب کر گئے ہوں۔
نہ جانے دل میں کیا خیال آیا کہ وہ اٹھا، وضو کیا اور مسجد کی طرف چل پڑا۔ اسے خود یاد نہیں تھا کہ وہ آخری دفعہ مسجد کب آیا تھا۔ مغرب کی نماز ادا کرنے کے بعد وہ وہیں بیٹھ گیا اور بچوں کی طرح بلک بلک کر رونے لگا۔
اتنا رویا کہ مسجد کے خالی صحن کے سکوت کو اس کی ہچکیاں توڑنے لگیں۔ اتنے میں کسی نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ اُس نے اس ہاتھ کے لمس میں ایک عجیب شفقت محسوس کی اور اپنا چہرہ اوپر اٹھایا۔
جس شفیق ہاتھ کے لمس کو وہ محسوس کر رہا تھا، اس شخص کا چہرہ کتنا پرسکون اور اطمینان سے بھرپور تھا! پرانے مگر صاف اُجلے سفید کپڑوں میں ملبوس اس 80 سالہ بزرگ کو پہلی نظر میں دیکھتے ہی اسے عجیب اپنائیت اور انسیت محسوس ہوئی۔
“کیا بات ہے، بیٹا؟ کیوں اتنے بے قرار ہو؟” بابا جی نے شفقت بھرے انداز سے علی سے پوچھا۔
علی، بابا جی کے اس سوال پر ایک جھٹکے میں، ایک ہی سانس میں بولنا شروع ہوا:
“بابا جی! میں اتنا بے سکون کیوں ہوں؟ میرے دل میں یہ بے قراری کیوں ہے؟ میں کیوں خوشی کی لذت سے محروم ہوں؟”
بابا جی چپکے سے اٹھے، مسجد کے ٹھنڈے کولر سے پانی کا ایک گلاس بھرا اور علی کے ہاتھ میں تھما دیا۔ علی نے ایک ہی سانس میں پانی ختم کیا، اپنی ہچکیوں کے طوفان کو روکا اور بابا جی کے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے اُن کے جواب کا منتظر رہا۔
بابا جی، علی کی طرف سوالیہ انداز میں دیکھتے ہوئے بولے:
“بیٹا! کیا تم جانتے ہو کہ ہماری زندگیوں سے اطمینان، سکون اور خوشی کب رخصت ہوتے ہیں؟ جب ہم اپنی اصل کو بھول جاتے ہیں، جب ہم اپنے مقصدِ حیات کو پیچھے چھوڑ کر جھوٹی، مصنوعی اور عارضی چمک دمک میں کھو جاتے ہیں۔
یہ عارضی چمک ایسی پُرکشش ہے کہ یہ کروڑوں انسانوں کو نگل چکی ہے اور آئندہ بھی نگلتی رہے گی۔ اس مصنوعی دنیا میں تمہیں سب کچھ مل جائے گا، جس سے تمہیں جسمانی سکون، آسائشیں، خوبصورتی، جاہ و جلال سب مل جائے گا، مگر تمہاری روح بھوک اور پیاس سے مر جائے گی۔
جب انسان مٹی کے بت کی تسکین کے لیے تمام آسائشیں مہیا کرنے میں مصروف ہو جائے اور اس بت میں زندگی کی روانی کی شرط، یعنی روح، کو بھول جائے، اسے بھوک اور افلاس کے سپرد کر دے، تو بیٹا! پھر یہ بے اطمینانی اور بے سکونی ہماری زندگی کا مستقل حصہ بن جاتی ہے۔
یاد رکھو! دلوں کا اطمینان اللہ کے ذکر میں ہے۔ جب ہمارے دل، ہمارے دن اور راتیں اللہ کے ذکر سے خالی ہو جاتے ہیں تو پھر ہماری زندگیوں میں ایسی ہی ویرانیاں آتی ہیں۔ دلوں کا سکون ہمیں تبھی میسر آئے گا جب ہم صرف مٹی کے بت کے پجاری نہ بنیں، خواہشاتِ نفس کے تابع نہیں بلکہ اللہ اور اس کے رسول صل اللّهُ علیہ و آلہ وسلم کے حکم کے تابع ہو کر زندگی گزاریں۔
جب ہم زندگی کو اس کے اصل اور حقیقی ٹریک پر واپس لے آئیں، جب ہم اپنے خالق اور مالک کی بندگی کا حق ادا کرنے لگیں، تو انسان اپنے مقصدِ حیات سے روشناس ہو جائے، تو اردگرد چاہے پت جھڑ کا موسم ہو، لیکن دلوں میں بہار کی وہ تازگی مہکتی ہے جو ہمارے دلوں اور روح کو مہکا دیتی ہے، اور اس تازگی کے اثرات ہماری زندگیوں میں نظر آتے ہیں۔
میرے بچے! اللہ کی رحمت سے کبھی مایوس نہیں ہونا۔ تم اگر آج اللہ کے گھر میں چل کر آئے ہو تو یہ سمجھو کہ اللہ تعالیٰ تمہیں سکون دینے چاہتے ہیں، تمہیں اصل مقصدِ حیات سے روشناس کروانا چاہتے ہیں۔”
بابا جی کی باتیں سن کر علی کے چہرے اور دل میں خوشی کی جو لہر تھی، وہ آج سے پہلے کبھی نہ تھی۔
“بابا جی! میں کتنا غافل تھا، کتنا بے خبر تھا، کتنا نادان تھا جو اس بات کو سمجھ نہ سکا کہ دلوں کا سکون کس چیز میں ہے۔ میں نے ہر اُس چیز میں سکون ڈھونڈنے کی کوشش کی جو مجھے میرے رب سے دور کر رہی تھی۔ میں یہ کیوں بھول گیا کہ سکون تو صرف رب کے قرب میں ہے؟ میں ان شاءاللہ اپنی زندگی کو نئے انداز سے شروع کروں گا اور ایک تجدیدِ عہد کے ساتھ زندگی کے اس سفر کا آغاز کروں گا، وہ عہد جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے انسان کی تخلیق کے وقت آدمؑ سے لیا تھا۔”
علی کی باتیں سن کر بابا جی کے چہرے پر ایک اطمینان بھری مسکراہٹ تھی۔ علی تشکر بھری نگاہوں سے بابا جی کی طرف دیکھتے ہوئے ایک پرجوش مصافحے کے بعد مسجد سے باہر نکلا۔
اس کے چہرے کا سکون بتا رہا تھا کہ اسے اپنے سوالوں کے جواب مل گئے ہیں۔ ہونٹوں کی جنبش ظاہر کر رہی تھی کہ دلوں کا اطمینان اللہ کے ذکر میں ہے۔ قدموں کی آہٹ بتا رہی تھی کہ بھٹکے ہوئے مسافر کو منزل کا راستہ مل گیا۔
ہم سب کو ایک ایسے ہی تجدیدِ عہد کی ضرورت ہے جس کے بعد زندگی اس ڈگر پر آ جائے جو ہمیں رب کی رضا کے حصول اور کامیابی کی طرف لے جائے۔

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |