مس طیبہ: ایک عہد کی کہانی
تحریر محمد ذیشان بٹ
راولپنڈی کی تعلیمی دنیا میں فیصل سکولز ایک ایسا نام ہے جس نے گزشتہ دو دہائیوں میں نجی تعلیمی شعبے میں ایک نئی پہچان بنائی۔ اس ادارے کی بنیاد مرحوم پروفیسر ضیاء کشمیری اور ان کی اہلیہ نے اپنے اخلاص، عزم اور تعلیمی وژن کے ساتھ رکھی۔ آج فیصل سکولز راولپنڈی کے نمایاں تعلیمی اداروں میں شمار ہوتا ہے جہاں کم و بیش تین ہزار سے زائد طلبہ و طالبات زیورِ تعلیم سے آراستہ ہو رہے ہیں۔ ادارے کے موجودہ چیئرمین جناب شعیب بٹ کی مسلسل کوشش رہی ہے کہ معیارِ تعلیم کو بلند سے بلند تر کیا جائے، اور یہی وجہ ہے کہ ادارے میں ایسے افراد کو کلیدی ذمہ داریاں سونپی گئیں جنہوں نے تدریس کو مشن اور تعلیم کو عبادت سمجھا۔
انہی نابغہ روزگار شخصیات میں ایک قابلِ فخر نام محترمہ مس طیبہ کا ہے، جنہوں نے فیصل سکولز میں 2008ء میں بطور کالج مدرسہ شمولیت اختیار کی۔ لیکن ان کی خداداد صلاحیتوں، غیرمعمولی مشاہدے، انتظامی بصیرت اور تربیتی فہم نے جلد ہی اس ادارے کو قائل کر لیا کہ یہ خاتون صرف پڑھانے کے لیے نہیں، بلکہ ایک تعلیمی ادارے کی قیادت کے لیے آئی ہیں۔
یوں محترمہ طیبہ کو فیصل سکولز (گرلز برانچ) کی پرنسپل کی ذمہ داری سونپی گئی—اور پھر اس ادارے نے سترہ سال تک ایک ایسی رہنما، ماہرِ تعلیم اور مشفیق شخصیت کا سایہ پایا، جس نے طالبات کو صرف نصابی کتب ہی نہیں پڑھائیں بلکہ انہیں کردار، تہذیب، وقار، خوداعتمادی اور اسلامی اقدار سے آراستہ بھی کیا۔
گرلز برانچ کی قیادت کسی بھی ادارے میں دوہری ذمہ داری ہوتی ہے۔ یہاں صرف تعلیم نہیں، تربیت کا بوجھ بھی ہوتا ہے۔ محترمہ طیبہ نے اس ذمہ داری کو نہایت ہنر، صبر اور شفقت سے نبھایا۔ ان کی اولین ترجیح ہمیشہ یہ رہی کہ لڑکیوں کو ایسا ماحول ملے جہاں وہ خود کو محفوظ، معتبر اور باوقار محسوس کریں۔ ان کے اندازِ گفتگو میں وہ اپنائیت تھی کہ والدین بھی اُن کی باتوں پر آنکھ بند کر کے یقین کرتے تھے۔ ان کا رویہ کبھی حکم دینے والا نہیں بلکہ سمجھانے والا، سکھانے والا، اور اکثر اوقات ماں جیسا رہا۔
محترمہ طیبہ کے زیرِ قیادت صرف طلبہ ہی نہیں، بلکہ سٹاف اور کولیگز بھی اُنہیں ایک استاد، رہبر، اور بڑی بہن بلکہ "ماں” جیسا درجہ دیتے رہے۔ یہ بات کسی رسمی تعارف کی محتاج نہیں کہ ان کا ہر فیصلہ مخلصانہ اور فلاحی سوچ پر مبنی ہوتا۔ انہوں نے کبھی عہدے کو رعب یا غرور کا ذریعہ نہیں بنایا، بلکہ محبت اور خلوص کا پُل بنا کر دوسروں کو ساتھ جوڑے رکھا۔
گزشتہ روز ادارے کی جانب سے محترمہ طیبہ کے اعزاز میں ایک الوداعی تقریب منعقد کی گئی۔ ہر چہرہ اداس تھا، اور سب سے زیادہ نم آنکھیں مس ثمینہ کی تھیں، جنہوں نے برسوں پر محیط رفاقت کو رخصت ہوتے دیکھا۔ ادارے کے CEO نے بجا کہا کہ "محترمہ طیبہ کا خلا کبھی پُر نہیں ہو سکتا۔” یہ بات دل سے نکلی اور سب دلوں میں اُتر گئی۔
ذاتی طور پر، خاکسار کا بھی یہ ماننا ہے کہ جو بھی ان کے ساتھ رہا ہے، وہ ان کی مستقل مزاجی، دیانت، اور خالص نیت کی گواہی ضرور دیتا ہے۔ البتہ ایک چھوٹا سا شکوہ باقی ہے کہ مجھے اس تقریب میں مدعو نہیں کیا گیا، ورنہ بہت کچھ دل سے کہنے کو ہوتا، جو آج قلم سے ادا کر رہا ہوں۔
فیصل سکولز اور تمام اساتذہ کی جانب سے محترمہ طیبہ کو ان کی خدمات پر خراجِ تحسین پیش کیا جاتا ہے۔ ہم دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں صحت کاملہ عطا فرمائے، ان کی زندگی کا اگلا باب بھی کامیابیوں، خوشیوں اور عزتوں سے بھرا ہوا ہو۔ ایسی شخصیات ہمیشہ یاد رکھی جاتی ہیں، کیونکہ وہ ادارے نہیں، نسلیں بناتی ہیں۔
Title Image by Sam Jotham Sutharson from Pixabay

محمد ذیشان بٹ جو کہ ایک ماہر تعلیم ، کالم نگار اور موٹیویشنل سپیکر ہیں ان کا تعلق راولپنڈی سے ہے ۔ تدریسی اور انتظامی زمہ داریاں ڈویژنل پبلک اسکول اور کالج میں ادا کرتے ہیں ۔ اس کے علاؤہ مختلف اخبارات کے لیے لکھتے ہیں نجی ٹی وی چینل کے پروگراموں میں بھی شامل ہوتے ہیں
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |